میراث زِروانی
کیا ہمارا خطہ ایک نئی سرد جنگ میں دا خل ہو رہا ہے یا علاقا ئی طاقتوں کے در میان سرد جنگ کے دور میں پائے جا نے والے تضادات نئی شکل و صورت اور پیچید گیوں کے ساتھ ایک بار پھر سر اٹھا رہے ہیں؟دونوں صورتیں خطے کے انتہا ئی تصادم خیز پیش منظر یا مستقبل کی عکاسی کر رہی ہیں اگر حالات و واقعات پر نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا شا ید غلط نہیں ہو گا کہ نہ صرف سرد جنگ کے زما نے کے تضادات و متحارب اتحاد ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔
بلکہ دوستیوں اور دشمنیوں میں آنے والے گہرے تغیر و تبدل نئی صف بندیوں کو بھی پیدا کر رہے ہیں ، یہ کیفیت پاکستان اور ایران کے درمیان پا ئے جا نے والے تعلقات میں پیدا ہو نے والی پیچیدگی سے زیا دہ نمایاں ہو ئی ہے ،اس صورتحال سے ایسی قیاس آرائیاں بھی جنم لے رہی ہیں جن کے مطا بق پا کستان اپنے ہمسا یوں کے درمیان تنہائی کا شکار ہو رہا ہے ،یا اُسے اپنی ان سر حدوں پر بھی کشید گی و ٹکراؤکا سامنا ہے جو کبھی پر امن ، اور بے خطر تصور کی جا تی تھیں ۔
اس سلسلے میں اگر جا ئز ہ لیا جائے تو پاکستان کی سر حدیں بھارت ، چین ، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں ، جن میں سب سے زیا دہ سر حدی طوالت بھارت اور افغانستان کے ساتھ ہے ، تا ریخی طور پر ان دو نوں ہمسا یہ ریا ستوں کے پا کستان کے قیام یا اس میں شا مل کئے گئے جغرا فیے پر شروع دن سے ہی شدید اعتراضات تھے ،یہی وجہ ہے کہ پاکستا نی ریاست کے قیام پر افغا نستان وہ واحد اسلا می ملک تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔نہ ما ننے کی وجہ شما لی قبا ئلی علاقوں سمیت وہ پشتون خطہ تھا جو افغانستان کے نزدیک اس کا تاریخی حصہ ہے ، جسے بر طانوی قبضے کے دوران ڈیورنڈ لا ئن معاہدے کے تحت سو سال کیلئے افغانستان سے الگ کر دیا گیا تھا ۔ جو بعد میں پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا ، اور ڈیورنڈ معا ہدے کے تحت قا ئم کی گئی سر حد کو عارضی کی بجائے پاکستان نے مستقل بین الاقوا می سر حد قرار دیا ۔
اس سر حدی سوال پر افغا نستان اور پا کستان کے در میان کسی بھی افغان دور حکو مت میں دو طر فہ تعلقات میں تناؤ کی کیفیت بر قرار رہی ،جس کی عکاسی قیام پاکستان کے بعد افغانستان میں آنے وا لی تمام حکو متیں حتیٰ کہ نجیب کے بعد قائم ہو نے وا لی مجا ہدین کی حکو مت کے طاقتور اور فیصلہ کن دھڑوں کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بد اعتمادی اور اختلافات کی فضا کی صورت میں نظرآ تی ہے ،جبکہ طالبان حکو مت جو افغانستان کی تاریخ میں پہلی پاکستان دوست حکو مت تصور کی جاتی ہے نے بھی ڈیورنڈ لا ئن کو بین الاقوا می سر حد تسلیم کر نے سے انکار کر تے ہو ئے اس ضمن میں پا کستان سے کو ئی بھی معا ہدہ کر نے سے اجتناب کیا۔
اس کے بر عکس افغا نستان کے بھارت کے ساتھ گہرے اقتصادی و سیاسی تعلقات روز بروز فروغ پا تے رہے ،خاص طور پر پا کستان کے ساتھ پا ئے جا نے والے جغرا فیا ئی و سیاسی تضادات کے تنا ظر میں علاقائی صف بندیوں کی تشکیل میں افغانستان اور بھارت ایک ہی صف میں نظر آئے ، لیکن تمام تر اختلافات کے با وجود پا کستان کو افغانستان سے متصل شمال مغر بی سر حدوں سے کسی خطرے کا سامنا نہیں رہا ، اور انہیں پر امن قرار دیا جاتا رہا ، یہاں تک کہ بھارت کے سا تھ لڑی جا نے وا لی پا کستان کی 1965ء اور 1971کی دو بڑی جنگوں کے مو قع پر افغا نستان نے فائدہ اٹھا نے کیلئے اپنی سر حدوں پر فو جی اجتماع یا کشید گی کی بجا ئے پا کستان کو سر حدی امن بر قرار رکھنے کی یقین دہا نی کرا ئی اور اس پر عمل بھی کیا، جس کے با عث پاکستان کو انڈیا کیخلاف جنگوں میں اپنی تو جہ یکسو ئی کے ساتھ مشر قی سر حدوں پر مبذول رکھنے میں آسا نی ہو ئی ،اگر چہ اس دوران پاکستانی مقتدرہ کی طرف سے افغا نستان پر پشتون و بلوچ قوم پرست تحریکوں کی پشت پنا ہی کے حوا لے سے الزا مات اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا تا رہا مگر دونوں ہمسا یوں کے درمیان جنگی کشید گی اور براہ راست مسلح تصادم کی فضا کبھی دیکھنے کو نہیں ملی ۔
افغا نستان اور پا کستان کے در میان تلخیوں میں مزید اضا فہ بھٹو دور حکو مت میں ہوا ،اور اس کے بعد جنرل ضیاء دور نے ان تلخیوں کو نئی انتہاؤں تک پہنچا یا ،جو افغا نستان میں اپریل یا ثور انقلاب کو نا کام بنا نے کیلئے جہاد کے نام پر عرب اور مغربی سامرا جی بلاک کے ساتھ مل کر پراکسی وار شروع کر نے کے نتیجے میں جنگی صورت اختیار کر گئیں ،اس جنگ میں پاکستان کی حیثیت ایک فرنٹ لائن اتحادی کی تھی ، سو ویت یو نین کا راستہ روکنے کیلئے لڑی جا نے وا لی اس لڑائی میں نیٹو خلیجی عرب ممالک ، پا کستان ،آسٹریلیا اور جا پان سمیت سر مایہ دارا نہ عالمی سامرا جی بلاک ایک صف میں اور سو ویت یو نین ،افغا نستان ،ایران اور بھارت دوسری حریف صف میں شا مل تھے ۔
اگر چہ اس جنگ کا مر کزی ہدف افغا نستان کو سو و یت اثر ورسوخ سے نکال کر اُسے مغر بی سا مرا جی کنٹرول میں لا نا اور سوویت یو نین یا روس کو افغا نستان سے بے د خل کر نے کے علاوہ اس کی گرم پا نیوں تک رسا ئی اور ایشیاء کی طرف پیش قد می کو روکنا تھا ، تا ہم مبصرین کا کہنا ہے کہ مغر بی اتحا دیوں کے مشتر کہ اہداف کے علاوہ پاکستا نی مقتدرہ کے افغا نستان سے وابستہ انفرادی یا اتحادیوں سے جدا مفادات بھی اولین حیثیت رکھتے تھے ،اس سلسلے میں تو بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پا کستا نی مقتدرہ نے اس جنگ میں حصہ ہی محض اپنے مخصوص مفادات کے حصول کیلئے لیا تھا ،اسی لئے افغا نستان سے سوویت انخلاء اور مغربی بلاک کی عدم دلچسپی کے با وجود پاکستا نی خار جہ پا لیسی میں ایک ایسی افغان حکو مت کا قیام اولین تر جیح رہا جو پا کستا نی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا سکے یہی وہ مقا صد تھے جن کی تکمیل پاکستا نی مقتدرہ کو افغا نستان میں مدا خلت پر مجبور کر تی رہی ،دوسری طرف افغا نستان کی علا قا ئی خار جہ پالیسی بھی پا کستان سے دوستا نہ کی بجا ئے حریفا نہ بنیادوں پر استوار رہی، جس سے دونوں ریاستوں کے ما بین کشید گی و بد اعتمادی کم ہو نے کی بجا ئے بڑھتی رہی اور یہ کیفیت ہنوز بر قرار ہے۔
اس تنا ظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خطے میں اپنے ہمسا یوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ حا لیہ کشید گی ،حریفا نہ کشمکش اور بد اعتما دی کو ئی نئے حالات اور تنازعات کی پیدا کر دہ نہیں ہے بلکہ یہ ایسے نا قا بل مصا لحت تضادات میں آنے والی شدت کا نتیجہ ہے جن کی بنیا دیں قیام پاکستان سے ہی اس کی جغرا فیا ئی سا خت پر پا ئے جا نے وا لے اختلا فات کی صورت میں جنم لے چکی تھیں ،لیکن ایران کا معا ملہ افغانستان سے قطعی مختلف ہے ، افغا نستان کے بر عکس ایران وہ ملک ہے جس نے اسلا می مما لک میں سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا ،اور پاکستان وایران ایک ہی امریکی سامراجی بلاک میں شامل تھے، بغداد پیکٹ یا سینٹو معاہدے میں بھی دونوں شامل رہے ،یہ گہری قربتیں شاہ ایران کے دور میں اپنی بلندیوں پر تھیں ۔
دونوں ریاستوں کے درمیان کسی قسم کا سرحدی تنازعہ یا ایک دوسرے کی زمین پر کوئی دعویٰ بھی نہیں تھا،عمومی طور پر پاکستان اور ایران کو باہم اچھے ،دوستانہ واسلامی برادرانہ تعلقات کا حامل قرار دیا جاتا تھا، مگر افغانستان میں ثور انقلاب اور ایران میں خمینی کے انقلاب کے بعد افغانستان سمیت علاقائی سیاست اور مختلف ایشوز پر پاکستان اور ایران کے درمیان ماضی جیسی قربت قائم نہ رہی، افغان ایشو پر ایران نے پاکستان ،عرب اور مغربی سامراجی بلاک پر مشتمل اتحاد کا حصہ بننے کی بجائے روس،افغانستان اور بھارت کے باہمی اتحاد کو ترجیح دی ، یوں متحارب صفوں کا حصہ اور متضاد مفادات کے حامل ہونے کے ناتے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں تلخیوں اور بد اعتمادی نے جنم لیا ۔
کہا جاتا ہے کہ افغانستان اور وسطی ایشیاء میں اقتصادی وسیاسی مفادات پر پاکستان اور ایران کے درمیان ٹکراؤ پایا جاتا تھا، اس حوالے سے بعض پاکستانی سیاسی و اقتصادی حلقوں کا خیال ہے کہ وسطی ایشیاء اور افغانستان کی منڈی میں ایران پاکستان کا حریف ہے، اس ضمن میں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ بھارت پاکستان کا سیاسی اور ایران اقتصادی حریف ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران کے ساتھ مغرب اور عرب اتحادیوں کی کشمکش میں پاکستانی مقتدرہ کا جھکاؤ ایران مخالف اتحاد کی طرف رہا، اگرچہ اس دوران پاکستان اور ایران کے درمیان بعض معاملات پر جن میں بلوچستان اور ایٹمی تعاون کے ایشوز قابل ذکر ہیں باہمی قریبی تعلقات بھی قائم رہے مگر خارجی وعلاقائی ایشوز پر تضادات غالب رہے ۔
ایران اس امرپر شاکی رہا کہ پاکستانی مقتدرہ کے بعض عناصر سعودی وہابی نظریاتی گروہوں کی ایران میں مداخلت کیلئے تعاون کر رہے ہیں جس کی پشت پناہی میں امریکہ بھی شامل ہے ، ایران کے نزدیک اس کے زیر کنٹرول بلوچستان میں عبدالمالک ریکی کی قیادت میں بننے والی مذہبی سنی فرقہ وارانہ عسکریت پسند تنظیم جنداللہ کی تشکیل وپشت پناہی میں مغرب و عرب اتحادیوں کے علاوہ بعض پاکستانی عناصر کا بھی کردار اور تعاون شامل ہے ، ایران کی طرف سے ان الزامات میں اس وقت شدت زیادہ دیکھنے میں آئی جب سیستان بلوچستان میں مذہبی شدت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی جن میں ایرانی فورسز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ، تب بعض ایرانی اہلکاروں نے تو پاکستانی خفیہ اداروں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ، پاکستانی مقتدرہ ان ایرانی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد قرار دیتی رہی، لیکن تمام تر سفارتی وضاحتوں اور ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کے معاہدات ویقین دہانیوں کے باوجود دونوں ریاستوں کے تعلقات میں مثالی ہم آہنگی اور مفادات میں یکسانیت پیدا نہیں ہو سکی ، جو آج خطے اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں اس خلیج کو مزید گہرا بناتی ہوئی نظر آتی ہے ۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اس خلیج کا خاتمہ آسان نہیں ہے ، کیونکہ ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد خطے کی علاقائی سیاست میں اہم تبدیلی واقع ہوئی ہے ، جس میں ایران اور امریکہ و یورپ کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعلقات قابل ذکر ہیں ، جوہری معاہدے کے نتیجے میں نہ صرف ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کا خاتمہ ہوا ہے بلکہ عالمی طاقتیں اسے ایک اہم علاقائی طاقت تسلیم کرتے ہوئے خطے میں اپنے مخصوص مفادات کے حصول کیلئے ایران کے ساتھ قریبی تعلقات کی خواہش مند ہیں ، ان طاقتوں کے سامنے ایرانی اہمیت محض مشرق وسطیٰ کے ہنگامہ خیز حالات کی وجہ سے ہی نہیں ہے بلکہ افغانستان اور وسطی ایشیاء تک رسائی اور تجارتی آمدورفت کیلئے بھی ایران انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ خاص طور پر امریکہ اور بھارت کیلئے ایران ایک ایسی راہداری کی حیثیت رکھتا ہے جو پاکستان کا متبادل ثابت ہو سکتا ہے ۔
ایران سے کشیدگی اور عالمی پابندیوں کے باعث امریکہ و یورپ سمیت پوری دنیا کیلئے افغانستان تک رسائی کا ذریعہ پاکستان رہا ہے ، اسی لئے بلوچستان میں گوادر پورٹ کی تعمیر کو خطے کی اقتصادی و سیاسی صورتحال میں کھیل بدل دینے والے عنصر کے طور پر دیکھا گیا ، کیونکہ گوادر پورٹ محض چین کی ضروریات کیلئے اہمیت نہیں رکھتا بلکہ افغانستان اور سینٹرل ایشیائی ریاستوں کی دنیا سے تجارت کیلئے قریب اور آسان راہداری بھی فراہم کرتا ہے ۔ اس تناظر میں یہ بھی کہا جا تا ہے کہ گوادر پورٹ پاکستان کی اپنی ضروریات کے علاوہ خطے کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر تعمیر کی گئی ہے، اسی لئے گوادر پر ان تمام عالمی و علاقائی طاقتوں کی گہری نظر رہی جن کے افغانستان سمیت خطے میں گہرے مفادات پائے جاتے ہیں ، جن میں چین ، امریکہ و یورپ ہی نہیں بلکہ ایران ، بھارت اور عرب اتحادی بھی شامل ہیں ،۔
گوادر کی اسی اہمیت کے پیش نظر پاکستانی مقتدرہ کی علاقائی سیاست میں مختلف طاقتوں کے ساتھ لین دین کی پوزیشن مضبوط ہوئی ، لیکن یہی مضبوط پوزیشن حریف طاقتوں کے ساتھ تناؤ اور کشمکش کا سبب بھی بنی ، تناؤ کے محرکات میں علاقائی و عالمی سیاست میں پاکستانی مقتدرہ کا چین سمیت ایسی طاقتوں کی صف میں شامل ہونا ہے جن کے امریکہ و بھارت کے ساتھ نا قابل مصالحت تضادات ہیں، اقتصادی مفادات کے حصول اور تحفظ کیلئے جن اسٹریٹجک اور دفاعی اقدامات کو اٹھایا گیا ہے ان سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے، ایسی صورت میں امریکہ و بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیاء تک مختصر اور آسان رسائی کیلئے ایسی متبادل راہداری کی ضرورت ہے جو پاکستان کی جگہ لے سکے ، ان ضروریات کی تکمیل کی صلاحیت ایران میں پوری طرح موجود ہے۔
مبصرین کے مطابق بعض صورتوں میں ایران پاکستان سے بہتر متبادل ثابت ہو سکتا ہے ، اس ضمن میں ایرانی زیر کنٹرول بلوچستان کی بندر گاہ چاہبار کی اہمیت انتہائی بڑھ گئی ہے،اور اسے گوادر پورٹ کے متوازی اور متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اسی لئے یہاں بھارتی دلچسپی نمایاں نظر آتی ہے، رپورٹس کے مطابق افغانستان اور سنٹرل ایشیاء تک رسائی کیلئے بھارت چاہ بہار کو علاقے کی ایک بڑی بندرگاہ میں بدلنا چاہتا ہے ، اور وہاں سے افغان بارڈر تک ایک بڑی شاہراہ کی تعمیر میں بھی حصہ دار ہے ،ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے ایران سے کئے گئے معاہدوں کے تحت وہ کروڑوں ڈالر کی سر مایہ کاری کر چکا ہے، دوسری طرف امریکہ بھی مشرق وسطی سمیت پورے خطے میں ماضی کے برعکس ایران کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ نزدیکیاں اور روابط بڑھا رہا ہے،جبکہ یورپ بھی ایران کے قریب آچکا ہے۔
ان قربتوں میں اقتصادی مفادات کا کلیدی کردار ہے، اور ایران طویل ترین پابندیوں اور قید تنہائی کے بعد ملنے والی اقتصادی وسیاسی آزادیوں سے کوئی موقع ضائع کئے بغیر بھر پور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے،جس کیلئے بھارت جیسی ایک ابھر تی ہو ئی عالمی معیشت کے ساتھ تعلقات ایرا نی مفادات کیلئے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ، اور بھارت کی ایران میں سر مایہ کاری و دلچسپی کا مر کزی علاقہ مغر بی بلو چستان ہے جہاں چاہ بہار واقع ہے ، جو گوادر سے انتہا ئی قریب ہے ،تجزیہ کاروں کے مطا بق ایران کی بھارت سے نز دیکی صرف ایران کے داخلی معا شی مفادات کے با عث نہیں ہے بلکہ افغا نستان سمیت خطے کے مختلف ایشوز پر بھی دو نوں کے ما بین کئی صورتوں میں مفا دا تی ہم آ ہنگی بھی پا ئی جا تی ہے، جبکہ ان ایشوز سمیت ایران کے داخلی فر قہ وا را نہ و سیاسی استحکام اور سعو دی اتحاد میں شمو لیت کے سوال پر ایران و پا کستان میں ہم آ ہنگی اور باہمی اعتماد کی بجا ئے اختلا فات اورایک دوسرے پر شکوک و شبہات نظر آ تے ہیں ۔
یہ کیفیت پا کستان اور ایران کے در میان تعلقات میں ایک ایسے نئے تضاد کو ظا ہر کر تی ہے جو ما ضی کی تلخیوں و تضادات میں کبھی نما یاں نہیں رہا ۔مبصرین کے مطا بق ایران کی طرف سے چا ہ بہار کو انڈیا کے حوا لے کر نے کا مطلب بھا رت کو چین پا کستان راہداری کے سر پر بٹھا نا ہے، گوادر سے محض چند میل کے فا صلے پر بھا رتی مو جو د گی اقتصادی اور دفا عی دو نوں صورتوں میں پا کستان اور چین کے خطے میں اپنے مفا دات کے حصول کیلئے تشکیل کر دہ منصو بہ بندی اور حکمت عملی کی راہ میں مسا ئل پیدا کر سکتی ہے ، جو نہ چین اور نہ ہی پا کستا نی مقتدرہ کیلئے کسی بھی طور قا بل قبو ل ہو گا، بھا رت کی اس پیش قد می کے با عث پا کستا نی مقتد رہ کو ایران کے با رے میں کچھ ایسی ہی تشویش اور بد اعتما دی کا شکا ر قرا ر دیا جا تا ہے جو افغا نستان کے با رے میں پا ئی جا تی ہے ۔
مبصرین کے خیال میں ایران کا یہ کردار ظا ہر کر تا ہے کہ پا کستان کا ایک اور اہم ترین ہمسا یہ اس کے دشمن کی گود میں چلا گیا ہے ، جس سے نہ صرف پا کستان اپنے ہمسا یوں میں تنہا ئی کا شکار ہو رہا ہے بلکہ اس سے پاکستا نی مقتدرہ پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہے ۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس دبا ؤ میں اہم ترین عنصر بلو چستان کی بڑ ھتی ہو ئی اہمیت ہے، کیو نکہ بھا رت کی ایران میں کی جا نے وا لی سر ما یہ کا ری کا مر کز بلو چستان کا علاقہ ہے جبکہ چین پا کستان اکنا مک کو ریڈور کا سر یعنی گوادر بھی بلو چستان میں خطے کے اہم ترین سا حلی مقام پر واقع ہے، یوں بلو چستان کا دونوں اطراف کا علا قہ خطے کی مو جو دہ جغرا فیا ئی و معا شی سیاست میں کھیل بدلنے والا فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔
مبصرین کے مطا بق یہ کیفیت ظا ہر کر تی ہے کہ بلو چستان سے پا کستان ،چین ،ایران ،بھارت اور امریکہ سب کے مفادات کی وابستگی کا فی گہری اور دورس ہے، جس کے با عث یہ قیاس کر نا خام خیا لی ہو گی کہ ایک ہی خطے یا مقام پر متحارب طاقتوں کی مو جو د گی اور ان کے در میان پا ئے جا نے والے نا قا بل مصالحت متضاد مفادات فر یقین کے ما بین کسی قسم کا تصادم یا تناؤ پیدا کر نے کا مو جب نہیں بنیں گے ۔مبصرین مبینہ طور پر ایرا نی بارڈر سے متصل بلو چستان کے علاقے سے پاکستا نی سیکورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں بھارتی نیوی اہلکار کی گرفتاری اور اس کی طویل عر صہ سے ایران میں مو جود گی کے دعوؤں کو بھی ان حریف طاقتوں کے درمیان بڑھتے ہو ئے ٹکراؤ کا عکاس قرار دے رہے ہیں ،جس میں ایران بھارت کیلئے ایک سہو لت کار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
جس طرح پاکستا نی اہلکاروں کی جا نب سے بھارتی با شندے کی گرفتاری کو پیش کیا گیا ہے اس سے یہی ظا ہر ہو تا ہے کہ اگر بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را ‘‘ کا کو ئی نیٹ ورک یہاں سر گرم ہے تو اس سے ایران بے خبر نہیں ہو سکتا ، یہی وہ امر ہے جو پا کستان میں ایران کے با رے میں شکوک و شبہات اور بد اعتمادی کو بڑ ھا رہا ہے ،اگر چہ وزیر دا خلہ چو ہدری نثار نے اس معاملے میں ایران کو بے قصور قرار دیا ہے مگر بعض حلقے اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔مبصرین کے خیال میں چوہدری نثار کا بیان پاکستا نی مقتدرہ حلقوں میں ایران کے با رے میں پا ئے جا نے والے با ہم متضاد نکتہ نظر یا پا لیسی کو ظاہر کر تا ہے۔ ان حلقوں کے مطا بق یہ سوال حل طلب ہے کہ کلبھو شن یا دو کی گرفتاری کو تقریباً تین ہفتوں کے بعد ایک ایسے وقت پر کیوں سا منے لا یا گیا جب ایرا نی صدر حسن رو حا نی اپنے انتخاب کے بعد پہلی مر تبہ ایک بڑی سفارتی و اقتصادی ٹیم کے ہمراہ پا کستان کے دورے پر آئے تھے ،جس کے با عث انہیں یہ کہنا پڑا کہ جب بھی ایران اور پا کستان قریب ہو نے کی کو شش کرتے ہیں تو مختلف افواہیں گر دش کر نے لگتی ہیں ۔
ایرا نی صدر کے دورے کے دوران کلبھو شن کی گرفتاری کا معاملہ پا کستا نی میڈیا اور سیاست پر غالب رہا ، لاز می امر ہے کہ پاکستان میں ایرا نی صدر کو ملنے والے ما حول نے پا کستان اور ایران کو ایک دوسرے سے مزید دور کر دیا ہے ،جس سے یہ غالب امکان پا یا جا تا ہے کہ پا کستا نی مقتدرہ کو اپنے ہمسایوں بھارت اور افغا نستان کے بعد ایران سے بھی ظاہری یا پو شیدہ محاذ آرائی کا سامنا کر نا پڑے گا،اور یوں پاکستان ما سوائے ایک چین کے اپنے تمام ہمسایہ حریفوں کی سر حدوں کے حصار میں نظر آ تا ہے ۔
اس تمام تر بحث سے یہ خد شہ پیدا ہو تا ہے کہ پاکستان اور اس کے حریف ہمسایوں کی تشکیل کر دہ تکون کے ما بین ایک نئی سرد جنگ شروع ہو سکتی ہے جو گرم جنگ کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے ،مگر زیادہ امکان پراکسی وارز میں شدت آنے کا ہے ،جس میں دونوں اطراف کی جانب سے ایک دوسرے کے اندرو نی معاملات میں مداخلت کا شور شرابا مزید بڑھے گا اور اس کے ساتھ’’خفیہ ایجنٹوں ‘‘کی گرفتاریوں اور ایک دوسرے کے خفیہ نیٹ ورکس کو منظر عام پر اور گر فت میں لا نے کا ہر فریق کی طرف سے پرو پیگنڈہ تیز ہو گا ۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطا بق اس ہنگا مہ خیز صورتحال سے ہر فریق اپنے ہاں پا ئے جا نے والے قو می ،طبقا تی اور مذ ہبی و فر قہ وا را نہ سمیت مختلف تضا دات کے گرد ابھر نے وا لی تحریکوں اور عوا می و سما جی رد عمل کو بیرونی مدا خلت کا نتیجہ قرار دے کر بھر پور ریاستی طاقت سے کچلنے یا دبا نے کا فا ئدہ اٹھا نے کی کو شش کرے گا ۔بعض مبصرین اور بلوچ سیاسی و عوا می حلقے بھارتی نیوی افسر کی گرفتاری کے معا ملے کو بلو چستان میں جاری تحریک سے جوڑنے کے دعوؤں کو بھی اسی مذ کو رہ با لا تنا ظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ان حلقوں کے مطا بق پا کستا نی مقتدرہ کی اپنے ہمسا یوں کے ساتھ کشمکش و کشید گی اور بلوچ قو می سوال قطعی طور پر دو الگ الگ معاملات ہیں جن کی با لید گی اور سبب و مسبب کے حوا لے سے با ہم کو ئی تعلق نہیں ہے ،کیو نکہ بلوچ مسئلہ اور اس کے گرد ابھر نے والی تحریکات کا جنم قیام پاکستان سے نظر آ رہا ہے ،جس کا ٹکراؤ صرف پا کستا نی سیاسی نظام سے ہی نہیں بلکہ اس ایرانی ریاست کی بنیا دوں سے بھی ہے جسے بلو چستان کو پا کستان سے علیحدہ کر نے کے مبینہ بھا رتی منصو بے میں شا مل تصور کیا جا رہا ہے ۔
جبکہ تاریخی حقا ئق اور بلوچ مسئلے کے تضاد کی علاقا ئی و سعت اس امر کو درست ثا بت کرتے ہو ئے دکھا ئی دے رہے ہیں کہ پا کستان سے لاکھ اختلا فات سہی لیکن ایرا نی ریا ست بھارت سمیت کسی بھی علا قا ئی و عالمی طا قت کے خطے کے با رے میں اختیار کر دہ کسی ایسی حکمت عملی و منصو بہ بندی کا حصہ نہیں بنے گی جس کا نتیجہ بلو چستان کی ایک آزاد ریاست کے ظہور کی شکل میں بر آ مد ہو، کیو نکہ بلو چستان کی آ زا دی یا علیحد گی کے اثرات و نتا ئج سے ایران براہ راست متا ثر ہو گا جو اس کی جغرا فیا ئی ٹوٹ پھو ٹ کے نتا ئج مر تب کر نے کے بھر پور امکا نات رکھتا ہے ۔
اس کیفیت کے پیش نظر بعض بلوچ سیاسی و عوا می حلقوں اور مبصرین کا خیال ہے کہ پا کستا نی حکمران بھا رتی ،افغان اور ایرا نی مدا خلت کا تنا زعہ ابھار کر جہاں حریف ہمسا یوں کو جوا بی دباؤ میں لا نا چا ہتے ہیں وہاں بلو چستان میں جا ری علیحد گی کی تحریک کو کچلنے کیلئے بھر پور ریاستی طا قت کا استعمال اور اس سے دا خلی و خار جی تو جہ ہٹا نا چا ہتے ہیں ۔تا ہم مبصرین اس قسم کے حکمران منصو بوں کی کامیا بی کم اور مسا ئل کی پیچید گی اور شدت میں اضا فے کا امکان ظا ہر کر رہے ہیں ،ان حلقوں کے مطابق اگر پاکستانی حکمران اپنی ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ پائے جانے والے تضادات کی جاری کشمکش میں بلوچستان کے ایشو کو شامل کریں گے تو اس سے بلوچستان مسئلہ علاقائی و عالمی سیاست میں مزید ابھر کر سامنے آئے گا ۔
♠