اسلامی نظریاتی کونسل کی خواتین کے حوالے سے پیش کردہ سفارشات پر بڑا شور اُٹھایا جا رہا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ مٹی پاؤ۔ انکی باتوں پر کان ہی نہ دھرو۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تو ہیں ہی جاہل۔ ان سے تو خیر کی کوئی توقع ہی نہیں ہے۔ کوئی ان کی پیش کردہ سفارشات کو خواتین کے ساتھ ناانصافی اور سراسر ظلم قراردے رہا ہے۔
اصل مسئلہ جو کونسل کی تشکیل اور ترکیب کا ہے۔ اس پر کوئی غور ہی نہیں کر رہا۔ یہ کم سے کم آٹھ اراکین جن میں ایک چیئرمین اور زیادہ سے زیادہ بیس اراکین جن میں صرف ایک خاتون رکن ہوں گی پر مشتمل ہے۔ یہ ادارے آئینِ پاکستان 1973کے آرٹیکل 228 کے تحت آئینی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ادارہ حکومت کو قانون سازی کےعمل میں اسلام سے تطابق پیدا کرنے اور اسلام سے متضاد قوانین سے متعلق سفارشات اور مشورے فراہم کر سکتا ہے۔ مردوں کی اکثریت کی اس کونسل میں ایک خاتوں کی جو جمہوری اور آئینی حیثیت ہے وہ تو سب کو معلوم ہی ہے۔ اس پر تو زیادہ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
پاکستان کا آئین حقیقتاً جمہوری نہیں ہے۔ یہ نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس میں مغربی جمہوریت اورکچھ اسلامی شقوں کو ڈال کراسلامی جمہوریہ پاکستان بنا دیا گیا ہے۔ یہ نہ مکمل جمہوری ہے اور نہ ہی اسلامی۔
یہ ادارہ محض ملاؤں کو سیاسی رشوت دینے کے لئے تشکیل دیا گیاتھا۔ اس کے علاوہ اس کا اور کوئی سیاسی کردار بنتا ہی نہیں ہے۔ ملاؤں نے اس ادارے سے مالی مفادات حاصل کئےبھی اور آج تک کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہر شعبے کے لئے کسی نہ کسی طرح کی مہارت درکارہوتی ہے۔ اس لئے یہ واحد ادارہ تھا جس کی آڑ میں علماکو بغیر کسی پیشہ ورانہ قابلیت کے کھپایا جاسکتاتھا۔ اس ادارے میں اسلام، اسلامی تاریخ، شریعہ، قرآن اور فقہ کا علم رکھنے والا عالم ادارے کا ممبر بننے کی اہلیت پر پورا اترتا تھا۔
اس طرح ادارہ بھی قائم ہو گیا اور ملاؤں کی کھپت کا جواز بھی حاصل ہو گیا۔ پھرہمارےان علما کوہر طرح کی علم، فکر، فلسفے اور تحقیق کو اسلام کی روشنی میں پرکھنے کا سرٹیفکیٹ حاصل ہو گیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ڈی این اے کی شہادت کو اسلامی بنیادوں پر پرکھتے ہوئے ناجائز قراردیا گیا۔ مرد کی دوسری شادی کے لئے اپنی بیوی سے اجازت کو ناجائزقرار دیا گیا۔ کم عمری کی شادی کو اسلامی شعائر کے خلاف قراردیا گیا۔
ہمارے لبرل، نیولبرل، این جی اوٹک دانشورجوروزانہ جمہوریت کی بقا کے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے بلندکرتے نہیں تھکتے ذرایہ تو بتائیں کہ جمہور ہے کس بلا کا نام۔ اگر جمہور کے معنی عوام کے ہیں تو کیا کوئی جمہورجس کا نصف حصہ یعنی خواتین پر مشتمل ہو کو کیسے اس عمل سے باہر نکال سکتے ہیں، کیا خواتین کی شمولیت کے بغیرکوئی جمہور حقیقی معنوں میں جمہور کہلا سکتا ہے؟ کیا اس کے دیئے گئے فیصلے جمہوری کہلائیں گے؟
اسی تناظر میں اسلامی نظریاتی کونسل کی ان سفارشات کو دیکھا جانا چاہئے۔ ان سفارت کو مرتب کرنے والے تمام کے تمام افردمرد۔ نام نہاد مذہبی علما ہیں۔ سب کی سب مرتبہ سفارشات جمہورکے نصف حصے خواتین کے بارے میں ہیں۔ جبکہ سفارشات کے اس عمل میں ان کی کوئی رائے ہی نہیں ہے۔ تو پھر شورتو ادارے کی غیرجمہوری حیثیت پر اُٹھنا چاہئےاوراس کے وجود ہی کو چیلنج کرنا چاہئےنہ کہ ان کی پیش کردہ بیہودہ سفارشات پر۔
اس طرح کی آئینی اور قانونی منہ شگافیاں اور تضادات ہمارے آئین میں بڑی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ جو اپنے مخصوص حالات میں منظرِ عام پر لائی جاتی ہیں۔ موقع محل کے مطابق اُن کا خاصہ واویلا کیا جاتاہے۔ فنڈز جمع کئے جاتے ہیں۔اعداد وشمار جمع کئے جاتے ہیں۔ یہ تحقیقات کہ اگر فلاں فلاں آئینی اختیارات حاصل ہو جائیں تو ملک میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
ایسی تحقیقات کے پیچھے اس نظام سے براہِ راست مستفید ہونے والے خود بھی شامل ہوتے ہیں اورہمارے یہ لبرل، نیولبرل،روشن خیال دانشور اور این جی اوٹک دانشور بھی۔ آئین کے آرٹیکل 62، 63 کا تماشا لگانا ہو، مقامی حکومتوں کے قیام اور اچھے طرزِ حکمرانی جیسے ایشو کو آئین کی روشنی میں منظرِ عام پر لانا ہو۔ مفت پرائمری تعلیم کا چرچا کرنا ہو،اقلیتوں کی مذہبی آزادی کا شور مچانا ہویا کسی قسم کے امتیازی سلوک کا واویلا کرنا ہوں، ہر طرح کا مسالہ ہمارے آئین میں موجود ہے۔
اور یہ جغادری موقع محل کی مناسبت سے اس طرح کے آرٹیکلز کو سامنے لاتے ہیں۔ آئینی ماہر بن کر ان پر آرا دیتے ہیں۔ دانشوری کا رتبہ پاتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر جمہوریت جمہوریت کا کھیل کھیلتے ہیں۔ جب ایسے ایشوز کی چھاگ بیٹھ جاتی ہے، پھر کوئی دوسرا ایشو تلاش کرتے ہیں۔ آج کا پاناما لیکس پر کمشن بننے کا ایشو بھی گرما گرم ہے۔ کچھ دنوں بعد دیکھیئے گا اس کمشن کے اختلافات اورآئنی شقوں پریا تو کیس عدالتوں میں جائیں گے یا پھرآئینی بحثیں کھلیں گی۔
اصل میں یہ علما بھی عورت کو ایک ذی روح انسان ماننے کے بجائے ایک شے ہی خیال کرتے ہیں۔ وہ عورت کو اپنی ملکیت قرار دیتےہیں اور اسی سے اپنی عزت، غیرت اور ناموس جوڑ لیتے ہیں۔ اس نکتہ نظر سے وہ سرمایہ داری نظام کا سب سے بڑا سہارا بنتے ہیں۔ جمہوری سرمایہ داری کو اپنے وجود اور جواز کے لئے ایسے اداروں کی ضرورت ہوتی ہےجو سرمایہ داری کی ڈھال بنیں۔ ہمارے جیسے سماج میں جمہوریت خود ہی ایسے اداروں کی آبیاری کرتی ہے۔
لیکن وقت بڑی ظالم چیزہے جو کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ کڑی سے کڑی حقیقت کو الٹ پھیر کے رکھ دیتا ہے۔ موجودہ حالات یہ تقاضاکررہے ہیں کہ اس سائنسی اور علمی دور میں ہمارے یہ علما جو جدید علوم سے عاری اورعصری تقاضوں سے قطعاً نابند ہیں سماج کی فلاح و بہود کے لئے کوئی اچھا کام نہیں کر سکتے۔ اس لئے وقت تقاضار کررہا ہے کہ اس ادارے کو غیر آئنی قرار دے کر اس کا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے۔
ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ آخر قانون سازی کے مطلوبہ نتائج حاصل کیوں نہیں ہو پارہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل تو اپنی کم علمی اور جہالت کی وجہ سے خود ہی موضوعِ بحث بن گئی ہے۔ ویسے ذرا یہ بھی سوچیئے کہ خواتین کے بارے میں اب تک جو قانون سازی ہوئی ہےجس پر سول سوسائٹی والے بڑے اتراتے بھرتے تھے، اُس قانون سازی سے کون سے حقیقی فوائد عوام تک پہنچے ہیں۔ کیا حالات پہلے سے دگرگوں ہوئے ہیں یا بہتر ہوئے ہیں۔
اگر حالات میں بہتری نہیں آرہی تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ قانون سازی سے پہلے لوگوں اور بالخصوص خواتین کو معاشی آزادی دیجئے۔ معاشی آزادی ہی سیاسی، سماجی اور ثقافتی آزادیوں کے حصول کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے اور معاشی آزادی نظام کی تبدیلی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔ نظام کی تبدیلی جیسے سوال پران دانش فروخت کرنے والے مرد و خواتین کی جان جاتی ہے۔
♠