ذوالفقار علی زلفی
ہندی فلم انڈسٹری کو اگر بنگال کے بعد سب سے زیادہ کسی خطے نے سہارا دیا ہے تو وہ یقیناً پنجاب ہے….پنجاب سے تعلق رکھنے والے فنکاروں مثلاً کپور خاندان (فیصل آباد)،بلراج ساہنی (بھیرہ)، دت خاندان (جہلم) ،دھرمیندر (لدھیانہ)،دارا سنگھ (امرتسر) ،گووندا (گوجرانوالہ)، یش چوپڑہ (لاھور) ، پریم چوپڑہ (لاہور)،جتندر (امرتسر)، امریش پوری (جالندھر) وغیرہ نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا استعمال کرکے آج ہندی سینما کو ہالی ووڈ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی فلم انڈسٹری کا درجہ دلوایا ہے۔
پنجابی فنکاروں کے اس کہکشاں میں ایک چمکتا دمکتا ستارہ آج بھی جگمگا رہا ہے جسے دنیا کامنی کوشل کے نام سے جانتی ہے۔
فلمی دنیا کا عام اصول ہے کہ شادی شدہ خاتون ہیروئن نہیں بن سکتی کیونکہ فلم بین شادی شدہ ہیروئن کو پسند نہیں کرتے۔ اسی لیے مدھو بالا ، شرمیلا ٹیگور ، سادھنا ،مادھوری ڈکشت اور کاجول جیسی اداکارائیں پیا گھر سدھارنے کے بعد ہیروئن کی لسٹ سے بھی خارج کردی گئیں مگر جب بات کامنی کی ہو تو تمام اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔
کامنی کوشل وہ اداکارہ ہے جن کی فلمی زندگی شادی کے بعد عروج پر پہنچی….انہوں نے نہ صرف ایک بھرپور زندگی گزاری بلکہ گزار رہی ہیں ،وہ آج بھی 90 سال کی عمر میں،تیراکی کرتی ہیں، چہل قدمی کرتی ہیںگوکہ یادداشت ساتھ نہیں دیتی مگر کچھ نہ کچھ لکھتی ہیں۔
ان کی فنکارانہ زندگی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ 40 اور 50 کی دہائی میں وہ ہیروئن رہیں , 60 کی دہائی سے لے کر تاحال بطور کیریکٹر آرٹسٹ کام کیااور 90 کی دہائی میں ٹی وی سے جڑ گئیں…..انہوں نے ھندی سینما کو متعدد یادگار کرداروں سے نوازا جن میں اہم ترین “بہراج بہو” ہے۔
وہ 6 جنوری 1927 کو لاہور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں….والدین نے ان کا نام “اوما کیشپ” رکھا….ان کے والد شیورام کیشپ گورنمنٹ کالج لاہور میں باٹنی کے پروفیسر تھے اور اپنے شعبے میں کافی احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے….کامنی نے اپنی زندگی کا راستہ بچپن میں ہی منتخب کرلیا تھا جب انہوں نے کم سنی میں ہی ریڈیو میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ ان کے اہلخانہ کو گوکہ یہ پسند نہ تھا مگر ان کی ضد کے آگے انہیں بالآخر ہتھیار ڈالنے ہی پڑے.۔
جواں ہوتے ہوتے وہ دہلی کے تھیٹروں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے لگیں….انگریزی ادب میں گریجویشن کرنے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر ریڈیو کا رخ کیا ۔ ریڈیو میں کام کرنے کے دوران ان کی ملاقات وراسٹائل اداکار دیو آنند کے بڑے بھائی چیتن آنند سے ہوئی….چیتن آنند فلم بنانے کے خواہشمند تھے اور کامنی اداکارہ بننے کے شوق میں مبتلا دونوں کی منزل ایک تھی سو کامنی سب کچھ چھوڑ کر ان کے ساتھ ہولی۔
چیتن آنند نے کامنی کوشل، اپنی اہلیہ اوما آنند ، زہرہ سہگل اور دیگر کو لے کر 1946 میں “نیچا نگر” پیش کی…..چونکہ کامنی اور چیتن کی اہلیہ کا نام یکساں تھا اس لیے چیتن کے مشورے پر “اوما کیشپ” کامنی کوشل کے نئے نام سے سینما اسکرین پر جلوہ گر ہوئیں…..یہ فلم حیات اللہ انصاری کی اسی نام کی کہانی پر فلمائی گئی ہے جو درحقیقت روسی ادیب دوستوفسکی کے پلے لور ڈیپتھ سے متاثر ہے جبکہ اسکرین پلے معروف اردو ادیب خواجہ احمد عباس نے تحریر کیا….سماجی حقیقتوں کی اس ننگی تصویر کو فلم بینوں نے یکسر مسترد کردیا۔
نیچا نگر , اپنے اچھوتے موضوع،جاندار اسکرین پلے،بہترین ہدایت کاری اور حقیقت سے قریب اداکاری کے باوجود باکس آفس پر بری طرح پٹ گئی غالباً اس کی وجہ اس زمانے میں متوازی سینما کی روایت کا نہ ہونا تھا کیونکہ بعد کے سالوں بالخصوص 70 کی دہائی کے بعد متوازی سینما کو ھندوستان کے ماتھے کا جھومر مانا گیا تاہم آج ایک بار پھر متوازی سینما جاں بلب ہے…….کئی سالوں بعد راج کپور نے اس فلم کی تلمیح استعمال کرتے ہوئے کہا , نیچانگر کے باسیوں نیچا نگر کو نیچا نہ ہونے دو۔
یہ فلم کامنی کوشل کیلئے جہاں اس لحاظ سے مبارک ثابت ہوئی کہ ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا فلمی صنعت میں ڈنکا بج گیا وہاں ان کی زندگی بھی طوفاں سے آشنا ہوگئی….ان کی بڑی بہن ایک کار ایکسیڈنٹ میں جاں سے گزرگئی۔ دو بن ماں کے بچے کامنی کوشل کی ذمہ داری میں آگئے…مجبوراً خالہ کو ماں بننا پڑا اور انہوں نے بہنوئی سے شادی کرلی….شوہر نے فلمی زندگی میں رخنہ نہ ڈالنے کی یقین دہانی کرائی سو فلمی سفر پھر شروع ہوا…..1947 کو ان کی دو فلمیں “جیل یاترا” اور “دو بھائی” جبکہ 48 کو “آگ” سینماؤں کی زینت بنی مگر فلم بینوں کی ستائش کی حقدار صرف “آگ” ٹھہری۔
آگ ، راج کپور کی ہدایت کاری میں بننے والی نہ صرف پہلی فلم ہے بلکہ یہ خوبصورت ترین فلمی جوڑے “نرگس راج” کی بھی پہلی رونمائی ہے…غالباً یہی وجہ ہے کہ فلم کی کامیابی کا سہرا صرف اور صرف راج کپور اور نرگس کے سر بندھا حالانکہ کامنی نے مذکورہ فلم میں ڈوب کر اداکاری کی ہے۔
آگ کی کامیابی نے گوکہ انہیں “ہیروئن” تو نہ بنایا مگر دادا منی اشوک کمار کی دوربین نے ان کو دیکھ لیا…..دادامنی نے ان کو بمبئے ٹاکیز کی فلم “ضدی” میں دیو آنند کے مقابل کاسٹ کرلیا….یہ دیو آنند کی دوسری مگر پہلی اہم ترین فلم ہے…..اسی فلم سے لتا جی نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ۔لتا جی یوں تو قبل ازیں بھی گانے گا چکی تھیں مگر پہلی دفعہ انہوں نے کسی مرکزی کردار کو اپنی آواز دی یعنی کامنی کو۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سنگیت کی آبرومندانہ آواز کشور کمار نے بھی اسی فلم سے دیو آنند کو اپنی آواز دے کر گلوکاری کی دنیا میں قدم رکھا….قلم سے نشتر کا کام لینے والی افسانہ نگار،عصمت چغتائی کی کہانی سے ماخوز فلم ضدی نے انڈسٹری میں ہلچل مچادی….1948 کی ضدی کو دیکھ کر آج بھی تازگی کا احساس ملتا ہے….اس فلم نے ہندی فلم انڈسٹری کو متعدد ایسے فنکار دیے جن کے نام اور کام پر آج بھی فن نازاں ہے،جیسے دیو آنند، کامنی کوشل، لتا منگیشکر ، کشور کمار اور ولنوں کا ولن پران۔
ضدی کے بعد جہاں کامیابیوں نے ان کا دروازہ دیکھ لیا وہاں چور دروانے سے کوئی دل پر نقب بھی لگا گیا….شادی شدہ عورت اور دو بچوں کی ماں کو چاہنے و چاہے جانے جیسے جذبات کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔سماج چلّاتا رہا مگر دل ان سنی کرتا رہا….نوبت بہ این جا رسید فلم “شہید” کی شوٹنگ کے دوران کامنی کے بڑے بھائی جو فوج میں تھے اسلحہ لے کر سیٹ پر آدھمکے اور انہیں “سمجھا دیا” کہ محبت وجہ مرگ بھی بن سکتی ہے۔
“شہید” کے نوجوان ہیرو ، دلیپ کمار پہلی محبت کے خمار میں چور موت کی دھمکیوں سے لاپرواہ کامنی سے قربتیں بڑھاتے رہے….شہید ہٹ ہوئی مگر محبت کا سورج سماجی بادلوں کی اوٹ سے نکلنے میں کامیاب نہ رہا۔
دلیپ کمار کے ساتھ ان کے اس جذباتی تعلق نے پردے پر بھی خوب دھوم مچایا بالخصوص “ندیا کے پار” ، “آرزو” اور “شبنم” جیسی فلموں میں ان کی رومانی اداکاری دیکھنے کی چیز ہے……تاہم پردے پر عشق و محبت کے فسانوں کے یہ کردار حقیقی زندگی میں یہ سلسلہ برقرار نہ رکھ پائے ۔ عورت نے خود کو ممتا پر وار دیا جبکہ مرد نے اپنے لیے خوبصورت مدھو بالا ڈھونڈھ لی۔
محبت میں ہاری کامنی فن میں مزید طاق ہوگئی جس کا ثبوت 1954 کی فلم “بہراج بہو” ہے…..معروف بنگالی ادیب پنڈت شرت چند چٹرجی کے ناول “بہراج لو” کو فلمی روپ دیا لیجنڈ ہدایت کار بمل رائے نے جبکہ “بہراج” کے رنگارنگ اور مضبوط کردار کو زندہ جاوید بنایا کامنی کوشل نے۔
اگر اس کردار کو کامنی کی پوری فلمی زندگی کا یادگار ترین کردار قرار دیا جائے تو شاید ہی غلط ہو ، زندگی سے ،سماج اور اس سے منسلک عورت دشمن روایات سے لڑتی عورت کے اس کردار کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ وہی کامنی ہیں جو کل تک “شبنم” بنی عشق کے پھولوں پر قربان جاتی رہیں…ہر چند بعد ازیں انہوں نے “رادھا کرشنا” ، “بڑے سرکار” اور “نائٹ کلب” جیسی خوبصورت فلمیں دیں مگر مانے بغیر چارہ نہیں ، وہ دوبارہ فن کی اس بلندی کو چھونے میں ناکام رہیں۔
ڈھلتی عمر کے سائے دراز ہوئے تو وہ “منوج کمار” کی ماں بن گئیں۔
کامریڈ بھگت سنگھ کی بے مثال جدوجہد کی کہانی ، 1965 کی “شہید” میں وہ منوج کمار کی ماں کے کردار میں نظر آئیں….منوج کمار نے مذکورہ فلم میں بھگت سنگھ کے کردار سے مکمل انصاف کیا ہے اور ٹھیک اسی طرح کامریڈ کی والدہ بننے میں کامنی نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی….شہید کے بعد “پورب اور پچھم” ، “،شور“،“روٹی کپڑا اور مکان” ،“سنیاسی” اور “دس نمبری” میں وہ مسلسل منوج کمار کی ماں کے کردار میں آتی رہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چالیس کی دہائی کے اواخر اور پچاس کی دہائی کے اوائل میں دلیپ کمار کے مقابل ہیروئن کے کرداروں میں ان کی اداکاری سے متانت اور ٹھہراؤ کا جو احساس جھلکتا ہے وہی احساس دلیپ کمار کے سب سے بڑے پرستار بلکہ ان کو مشعل راہ سمجھنے والے منوج کمار کی ماں کے کرداروں میں بھی جھلکتا ہے۔
منوج کمار کے ساتھ ان کی کیمسٹری اس حد تک خوبصورت ہے کہ وہ عین ماں بیٹے لگتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ تعلق پردے کے پیچھے بھی قائم تھا…..اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کامنی نے خود بھی اعتراف کیا کہ انڈسٹری میں میرا حقیقی دوست، بیٹا اور غمگسار صرف اور صرف منوج کمار ہے۔
اس زمانے میں ان کی ایک بہترین فلم 1973 کی فلم “انہونی” کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے مسز رائے بہادر سنگھ کے نام سے ایک ویمپ کا کردار نبھایا….یہ کردار ان کی سابقہ فلموں سے یکسر مختلف اور منفرد ہے۔
عمر کے آخری حصے میں بھی انہوں نے اپنے کیریئر میں ایک اور قابل ذکر فلم کا اضافہ کیا اور وہ ہے 2003 کی “ہوائیں” ، اس میں ان کا کردار مختصر مگر جاندار ہے….افسوس ہوائیں بھارتی حکومت کے عتاب کا شکار بن کر سینما کے پردے پر پیش نہ کی جاسکی کیونکہ مذکورہ فلم 1984 کے سیاہ ترین واقعات کی راوی ہے….وہ واقعہ جو ھندوستانی جمہوریت اور سیکولرازم کے دامن پر بدنما داغ ہے….فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ کیسے پوری ریاستی مشینری سکھوں کے قتل عام میں استعمال کی جاتی ہے۔
تاحال ان کی آخری فلم 2013 کی “چنائی ایکسپریس” ہے جس میں انہوں نے شاہ رخ خان کی دادی کا رول نبھایا لیکن اس فلم میں ان کا کردار انتہائی مختصر رہا….ویسے بھی اب , وہ شب و روز , وہ ماہ و سال کہاں.۔
ان کی کمزور یادداشت کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور کی اوما کیشپ کا فلمی سفر اب اختتام کو پہنچا….تاہم ان سے کچھ بعید نہیں۔
♠