بونے معاشرے کا بونا دانشور

مہرجان

0, 23178,222

جیک لنڈن کبھی بھی خودکشی نہ کرتا اگر وہ پاکستانی دانش کی مخمور فضاوں میں جنم لیتا اور نہ ہی ہرنیسٹ ہیمنگوے کرب کی اس کیفیت سے گذرتا گر اسے پاکستانی دانشوروں کی کائناتی سچائیوں کی اک جھلک بھی نظر آتی۔

ہر ایک نے یہاں اک بت تراشاہوا ہے اس بت کی پوچا پاٹ کو سچائی کا نام دینے والے نہ اس کیفیت سے گذرے ہیں اور نہ ہی وہ اس کرب کے خواہاں ہیں جو سچ کی تلاش میں انہیں مرگ و زیست تک لے آتی ہو۔دلیل یہاں پہ موت ہےاور لفاظی یہاں پہ زیست۔۔ ہر اک نے اپنا اپنا اک سچ اور اک راگ الاپا ہوا ہے،۔

کیا جمہوریت کے پاسباں کیا آمریت کے نغمہ خواں اور کیا مذہبی دانشور۔۔۔۔۔ سننے میں آیا ہے کہ دانشگاہوں سے قوموں کی تعمیر ممکن ہے لیکن لاہور کے اک ایلیٹ کلاس کی دانشگاہ کے کمرہ جماعت میں اگر آپ اسی ادارے سے منسلک اک پایہ کے دانشور ( متعدد کتابوں کے مصنف )کو جب یہ کہتے ہوے سنیں  کہ گاندھی جی تو اک بابو تھے اور اس کے مدمقابل لوگ لیڈر تھے تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔

  یہی لوگ اس معاشرہ کی تعمیر میں لگے ہوے ہیں اور سیاسی تاریخ کو سیکولر ثابت کرنے میں دن رات اک کیے ہوئے ہیں۔ کیا کبھی یہ ممکن ہے کہ یہ لوگ کسی عصبیت کے بغیر سچائی کو فقط سچائی سمجھ کر آگے لائیں؟ بقول ایرک فرام انسان کی کمزوری اسے اک مصنوعی حقیقت تخلیق کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ 

مصنوعی سوچ، مصنوعی احساس اور مصنوعی کردار ہی مصنوعی حقیقت کی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں ہر دانشور اپنی اپنی مصنوعی سچ کے ساتھ اک مصنوعی معاشرہ تخلیق کرتا ہے اور اسی معاشرہ کو جون ایلیاء اک بونا معاشرہ قرار دے کر اپنے آپ کو اک اس بونے معاشرہ کا بونا شاعر کہتا ہے۔

جون ایلیاء جہاں رسل اور سارتر کو معلومات کی دنیا کا شوقین بوڑھا کہتا تھا وہیں اپنی کم مائیگی اور چھوٹا پن کا اظہار برملا کرتا تھا وہ اپنے آپ کو نہ صرف جاہل مطلق گردانا بلکہ اپنے آپ کو بڑا نہ ہوتے دیکھ سکا لیکن یہاں اہل علم  وہ ٹھہرا جس کی نظر مارکیٹ (جمہوری و غیر جمہوری ایسٹیبلشمنٹ )پہ ہو، جسے یہ ہنر بخوبی آتا ہو کہ کب، کیا اور کیسے لکھناچاہیے۔

یہاں جمہوریت کی راگ میں آمریت کی تقویت بھی ہوتی اور آمریت کے ساز میں جمہوریت بھی پلتی پھولتی ہے۔  یہاں سچائی کی اتنی بہتات ہے کہ جیک لنڈن سے لےکر ہرنیسٹ ہیمنگوے تک اگر اس معاشرے کا حصہ ہوتے تو کبھی بھی سچ کی تلاش میں خودکشی نہ کرتے۔

مابعد جدیدیت کی اگر کسی نے بے بسی دیکھنی ہو تو اس معاشرہ کے دانشوروں کی لکھی ہوئی تحریروں میں دیکھیں کہ سچ کی کتنی بہتات ہے۔  کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ دانشور حضرات آزادی سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اپنے نظریات کے حصار سے کیوں کوئی بھی باہر نکلنے کو تیار نہیں ؟کیوں واہمہ پرستی کو واہمہ شکنی پہ ترجیح دی جاتی ہے کیا ان سوالات  پہ غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟

کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ یہاں جمہوریت بھی دو نمبر ہے آمریت بھی ۔ لیکن معذرت کے ساتھ بالکل اسی طرح رجعت پسند دانشوروں سے گلہ ہی کیا  یہاں تو ترقی پسند بھی مکمل سچ نہیں کہتے۔ ان کے قلم بھی فیض احمد فیض کی طرح اک نسل کی تباہی کے بعد اس پورے عمل کو خون کے دھبوں سے تشبیہ  دیتے رہ جاتے ہیں۔۔۔

فقیہ شہر نے کہا بادشاہ سے  بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا اسے مصلوب ہی کرنا پڑے گا کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے۔

Comments are closed.