پاکستانی قوم ابھی آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کا چرچا سن رہی تھی کہ طالبان کے امیر مُلا منصور پاکستانی علاقے میں امریکی ڈورن حملے میں مارے گئے۔
اسامہ بن لادن اور مُلا عمر کے بعد مُلا منصور کی پاکستانی علاقے میں ہلاکت نے نہ صرف پاکستانی ریاست کی ترجیحات کو بے نقاب کیا ہے بلکہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی کارگردگی پر بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔ مُلا منصور کی ہلاکت سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستانی ریاست بدستور دہشت گردوں کی حمایت کر رہی ہے۔
بین الاقوامی ذرائع مختلف حوالوں سے مُلا منصور کی ہلاکت پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نائن الیون کے بعد پاکستانی ریاست طالبان سے متعلق ایک دوغلی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ایک جانب وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے امریکہ سے فوجی امداد لیتی ہے تو دوسری طرف مسلسل دہشت گردوں کی حمایت بھی کررہی ہے۔یاد رہے کہ امریکی کانگریس نے پچھلے ہفتے دہشت گردوں کی حمایت کی وجہ سے ہی پاکستان کی فوجی امداد پر پابندی لگائی ہے ۔
پاکستانی حکومت پہلے تو اس ہلاکت پر خاموش رہی لیکن بعد میں ایک روایتی بیان دے دیا کہ ڈرون حملے پاکستانی کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف ہیں ۔لیکن کوئی پاکستانی صحافی یہ جرأت نہیں کرسکتا کہ وہ پاکستانی حکام سے یہ سوال پوچھے کہ پاکستان کے مسلسل انکار کے باوجود دہشت گرد پاکستان میں کیاکر رہے ہوتے ہیں؟ کیا ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ناکام ہو چکی ہیں؟
امریکہ اور افغانستان کی طرف سے پاکستان پر باربار یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ پاکستانی ریاست طالبان کی پشت پناہی کر رہی ہے لیکن پاکستان اسے تسلیم کرنے کی بجائے الٹا افغانستان پر الزام دھرنا شروع کر دیتا ہے۔
مُلا منصور گذشتہ سال مُلاعمر کی ہلاکت کی خبر آنے کے بعد جولائی 2015 میں طالبان کے امیر بنے۔ تاہم طالبان کے بعض دھڑوں نے انھیں اپنا امیر ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے ایک بیان میں کہا کہ مُلا منصور ’طالبان کے سربراہ رہے ہیں اور وہ کابل اور افغانستان بھر میں تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی میں فعال طریقے سے حصہ لیتے رہے ہیں۔ وہ افغان شہریوں، سکیورٹی فورسز اور ہمارے عملے کے ارکان اور اتحادیوں کے لیے خطرے کا باعث بنے رہے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’منصور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن اور مصالحت کی راہ میں رکاوٹ رہے، اور انھوں نے طالبان رہنماؤں کو افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لینے سے روک رکھا ہے‘۔مبصرین کے مطابق پاکستانی ریاست ابھی اس خطے میں امن کے لیے سنجیدہ نہیں ہے اور وہ مذاکرات کی آڑ لے کر وقت گذاررہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس حملے کی منظوری امریکی صدر براک اوباما نے دی تھی اور اس میں ایک اور جنگجو بھی ہلاک ہوا ہے۔
مُلا منصور کی ہلاکت سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان ابھی بھی گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی پر قائم ہے۔ آپریشن ضرب عضب کا مقصد پاکستان میں طالبان کی سرگرمیوں کو ختم نہیں صرف کنٹرول کرنا تھا۔ ایسے طالبان جو پاکستانی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے لگے تھے آپریشن ضرب عضب کی نذر ہو گئے ہیں جبکہ وہ طالبان جو آئی ایس آئی کی منصوبہ بندی کے مطابق کام کر رہے ہیں وہ زندہ سلامت اندورن ملک اور بیرون ملک اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے گروہ افغانستان میں جبکہ حافظ سعید ، مولانا مسعود اظہر ہندوستان میں دہشت گردی کے ایجنڈے پر کام رہے ہیں ۔افغانستان باربار پاکستان پر الزام لگا رہا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔
دوسری طرف بھارت الزام لگاتاہے کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد بھارت میں دہشت گردی میں ملوث ہیں ۔ ممبئی حملوں اور پٹھان کو ٹ پر حملوں کے ذمہ دار پاکستانی ریاست کی حفاظتی حراست میں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
News Desk
One Comment