منیر سامی۔ ٹورنٹو
’’شنگرام ، شنگرام ، چولبے چولبے‘‘، ایک ایسا پر ارتعاش نعرہ تھا جسے جامعہ کراچی میں ، پاکستان کی دیگر جامعات ، اور بالخصوص سابقہ مشرقی پاکستان ، اور اب بنگلہ دیش میں ، طالب علم، مزدور، انسانی حقوق, اور انسانی مساوات کے عمل پرست اپنے جلسوں اور جلوسوں میں مسلسل لگاتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے تھے۔ اس نعرہ کے معنی ہیں، ’جدو جہد ، جدو جہد، جاری ہے، جاری ہے۔ پھر اس میں یہ نعرے شامل ہوتے تھے، اور ایک ترانہ سا بن جاتا تھا کہ، ’امادیر شنگرام، چولبے چولبے۔۔۔جناتر شنگرام ، چولبے چولبے‘۔یعنی‘ ہماری جدو جہد جاری ہے جاری ہے، جنتا کی جدو جہد جاری ہے جاری ہے‘۔
جب جلوس نکلتے تھے اور یہ نعرہ اٹھتا تھا تو ایک عجیب ولولہ ایک جذبہ بیدار ہوتا تھا، اور اس نعرہ کی گھن گرج سے مخالفین چند لمحہ کے لیے دنگ اور ششدر رہ جاتے تھے۔ ان مخالفین میں اسلامی جمیعت طلبا ، پولیس والے، اورطاقت وروں کے پالے ہوئے بدمعاش شامل ہوتے تھے۔ پھر مخالفین کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ، بندوقیں ، اسلحہ بڑھتا چلا گیا۔ بنگلہ دیش آزاد ہو گیا، اور پاکستان میں جنرل ضیا کے سیاہ دور میں ہر حق پرست، انسان دوست، اور مساوات کے عمل پرست کو ٹھکانے لگانے کے انتظامات مکمل ہو گئے۔ یہ دراصل اسی ظالمانہ نظام کا تسلسل ہی تھا جو قیام پاکستان سے ہی شروع ہوگیاتھا جس میں انسانی مساوات کے متوالوں کو بالخصوص نشانہ بنایا گیا تھا۔ عمل پرستوں کو مختلف سازشوں میں پھنسایا گیا تھا، اور انہیں وقتاً فوقتاً موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔
آج ہمیں یہ نعرہ یوں یادآیا کہ گزشتہ کئی دن سے بھارت کی ممتاز دانشور، صحافی ، عمل پرست، اور بھارت میں انسانی حقوق کی جدو جہد کی صفِ اول کی رہنما، ’نور ؔظہیر‘ کینیڈا ٓئی ہوئی ہیں۔ وہ آئیں تو یہاں کی Ryerson Universityمیں ہونے والی ایک مزدور کانفرنس میں شرکت کے لیے تھیں لیکن ان کی آمدکی خبر عام ہوتے ہی، کینیڈا ، اور کینیڈا میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی ترقی پسند، اور عمل پرست انجمنوں نے ان کی آمد کو ’نور کی ایک کرن ‘ جان کر اپنی محفلوں میں روشنی پھیلانے کے لیئے کینیڈا بھر میں ان کے ساتھ محفلیں کرنے کے انتظام کرلیے او ر ان کو مجبور کیا کہ وہ اپنے مختصر قیام کو طول دیں۔اور یوں مونٹریا ل سے وینکوور تک ان کے ساتھ ملاقاتوں، گفتگو، اور محافل کا سلسلہ جاری ہے۔
نورؔظہیر کا تعلق برِ صغیر کے اہم ترین اور عمل پرست علمی خانوادے سے ہے۔ ان کے والد سجادؔظہیر جنوبی ایشیامیں انسانی حقوق اور عمل پرستی کے لیے ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں، اور ان کی والدہ رضیہ ؔسجاد ظہیر کا شمار اردو کے اہم ترین ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
سجادؔظہیر برِ صغیر میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں تھے۔ اس انجمن اور اس تحریک کے اثرمیں بھارت کی تقریباًہر زبان میں تحریر اور تقریر کا مزاج تبدیل ہوا ، اور حسن کے معیار ایسے بدلے کہ ہر بیانیہ میں ادب اور سماج کے سمبندھ سے وہ جدید ادب پیدا ہوا جو اپنے ہر لفظ اور ہر سطر میں کمالِ فن کے ساتھ انسانی مساوات اور آزادی کے پر چم لہراتا ہے۔
پاکستان کے اولین دور میں سجاد ؔظہیر بھی وہاں آگئے تھے، پھر انہیں فیض احمدفیض اور دیگر کے ساتھ راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کر کے مقید کردیا گیا، اور بعد میں انہیں پاکستان بدر کر دیا گیا۔ وہ بھارت اور برِ صغیر میں کمیونسٹ پارٹی کے اہم ترین رہنمائوں میں شامل تھے۔ ان کی کتاب ’ روشنائی‘ اردو ادب میں ترقی پسند تحریک، بھارت کی آزادی کی جدو جہد ، اور انسانی حقوق کی عمل پرستی کی اہم کتا ب ہے۔
نور ؔظہیر بھارت میں کمیونسٹ پارٹی کے اہم اراکین میں شامل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بھارت میں بھارت کے اولین باشندوں کے قدیم فن پاروں کی ایک اہم دانشور بھی ہیں۔ان کی کوششوں سے قدیم فن پاروں کو جو دیواروں پر نقش ہیں ، محفوظ کرنے کا عمل جاری ہے۔اس ضمن میں وہ کئی سال سے ہماچل پردیش کے کنّور ، کولو، اور لاحول اسپتی ضلعوں کے ٓآدی واسیوں کے درمیان متحرک رہی ہیں۔اس دوران انہوں نے ان کے رقص ، موسیقی، اور بنیادی روایتوں پر بھی تحقیقی کام کیا ہے۔
کینیڈا کے ادبی حلقوں سے ان کا تعارف ان کی اہم کتاب ’میرے حصہ کی روشنائی ‘ سے ہوا تھا۔ جس کی تقریب رو نمائی اب سے چند سال پہلے رائٹرز فورم کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی،جس کی خاصیت یہ تھی کہ نور ؔظہیر نے اس سے خطاب، بھارت سے اسکائپ ؔپر کیا تھا، اور ان کی کتاب کینیڈا میں ہاتھوں ہاتھ لی گئی تھی۔
یہ کتاب ان کی اپنے خاندان کی ایک مختصر یاد داشت ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ، انسانی حقوق اور اقدار کے سچے اور صادق عمل پرست کس طرح ، ستائش کی تمنا اور صلے کی پرواہ کیئے بغیر، اپنا تن من دھن ، کمزور انسانوں کی سر بلندی کے لیئے تج دیتے ہیں۔ اور اس کے لیئے ان کے ساتھ ساتھ خود ان کے خاندان قربانیاں دیتے ہوئے انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نور ظہیر بھارت میں خواتین کے حقوق کے اہم ترین عمل پرستوں میں شامل ہیں۔ وہ بالخصوص بھارت کے سیکولر نظامِ حکومت میں بھارت کی مذہبی اقلیتوں کی خواتین پر ان کے اپنے مذاہب کے جبر کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی صفِ اول میں شامل ہیں۔
ان کی ایک اہم کتاب My God is Woman، بھارت کے اس مشہورِ زمانہ مقدمہ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے، جس میں شاہ بانو نامی ایک مسلم خاتون نے بھارت کے سیکولر خواتین کے تحت طلاق کے بعد نان نفقہ کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ مطالبہ بھارت میں Muslim Family Law کے بجائے عام قوانین کے تحت کیا گیا تھا ۔ یہ مقدمہ بھارت کی سپریم کورٹ تک گیا تھا، اور حتمی فیصلہ شاہ بانو کے حق میں کیا گیا تھا۔
اور حیران کن طور پر مسلمانوں کے دبائو میں آکر بھارت کی پارلیمان نے قانون میں ایک بدنامِ زمانہ تبدیلی کے تحت اس فیصلے کو منسوخ کر دیا تھا۔ جب سے اب تک نورؔ ظہیر اور ان کے ساتھی بھارت میں بڑھتی ہوئی مذہبی شدت پرستی اور سیکولر نظام پر مذہبوں کے بڑھتے ہوئے غلبہ کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی حقوق کے عمل پرست اس ضمن میں ان سے رہنمائی اور مشاورت کے لیئے کوشاں رہتے ہیں۔
کینیڈا میں ان کی آمد سے استفادہ کرتے ہوئے ان سے درخواست کی گئی کہ وہ، ’مودی ؔکے بھارت: سیکولرازم ، مزدوروں، اور خواتین کے حقوق ‘ کے بارے میں گفتگو کریں۔ ان کی مختلف تقاریر کا خلاصہ یہ ہے کہ مودیؔ کے غلبہ کے بعد بھارت میں سالہا سال سے قائم سیکولر نظام محصور تر ہوتا چلا رہا ہے۔ مودی کے مذہبی شدت پرست حمایتی صرف مسلمانوں ،یا دیگر مذہبی اقلیتوں پر مختلف طریقوں سے جبر نہیں کر رہے ، بلکہ سارے روشن خیال اور ترقی پسند ہندو بھی ان رجعت پرستوں کا نشانہ ہیں، اور بھارت میں تحریر اور تقریر پر قدغن بڑھتی جارہی ہے۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ گزشتہ دنوں، رجعت پرست غلبہ کی بڑھتی ہوئی زیادتیوں کے بعد جب بھارتی اہلِ فکر نے احتجاجاًاپنے اعزاز واپس کیے تھے تو ان میں بڑی اکثریت ہندو نژاد دانشورو ں کی تھی جنہیں مذہبی قدامت پرستوں نے دشنام طرازی کا نشانہ بنایا ۔
اس بڑھتی ہوئی مذہبی بنیاد پرستی اور رجعت پرستی کے زیرِ اثر بھارت کی خواتین، مزدور، اور دیگر مظلوم طبقہ خود کو حاصل معدودے چند حقوق کی جدو جہد کے دباومیں ہیں۔ کشمیر کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کمیونسٹ پارٹی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارت کو اپنے زیرِ انتظام کشمیری علاقہ سے فوجی تسلط ختم کر دینا چاہیے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کشمیر بھارت کا علاقہ ہے تو وہاں فوج کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر کشمیر بھارت کا علاقہ نہیں ہے تو وہاں بھارتی فوج کی موجودگی منطقی طور پر غیر قانونی سمجھی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے بعض دیگر علاقے بھی فوجی تسلط کا شکار ہیں۔
بھارت میں مودی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ان تعلیمی مراکز میں جہاں انسانی فکر اور اذہان کی تشکیل اور نشوونما ہو تی ہے، اور جہاں آزادی کے بعد سے سیکولر فکر پروان چڑھی ہے، طالبِ علموں اور اصحابِ فکر پر رکیک الزامات کے تحت مقدمے قائم کیے گئے، اور معروف طلبا رہنمائوں کو جامعات سے نکالا گیا۔ اس زیادتی کے بعد دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں طلبا نے احتجاجی بھوک ہڑتالیں، یا مرن برت شروع کیے تو اس کی صفِ اول میں خود نو ر ظہیر کی بیٹی ’پنکھڑی ؔظہیر‘ دس روز تک ثابت قدمی کے ساتھ بھوک ہڑتا ل کرتی رہیں۔
وہ بھارت میں رقص اور ڈارمہ کے فن میں بالخصوص شریک ہیں۔ وہ ایک ماہر بھارتی کلاسیکل کتھک رقاصہ ہونے کے ساتھ بھارتی تھیٹر میں بھی امتیاز رکھتی ہیں۔ آج کل وہ IPTAیا Indian Peoples Theatre Association کی دہلی شاخ کی صدر اور National Federation of Indian Women کی بھی صدر ہیں۔
ان کے اردو افسانوں کا مجموعہ، ریت پر خون ، پاکستان میں سانجھ سے، اور عصمت چغتائی پر ان کی کتاب ’کاغذی پیراہن‘ ، آکسفورڈ پریس پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔ ان کی دیگر اہم کتابوں میں Denied by Allah بھی شامل ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی قوانین کو کس طرح مسلمان عورتوں کو حقوق سے محروم کرنے کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔
وہ واضح کرتی ہیں کہ ان کی کتاب قرآن کی کوئی نئی تفسیر نہیں پیش کرتی، بلکہ یہ بتاتی ہے کہ قرآنی کی مردانہ تفاسیر کو کس طرح تاریخی طور پر ایک پدرانہ معاشرہ قائم کرنے اور عورتوں کے حقوق کو شریعت کے نام پر سلب کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
ان کے مجموعہ ’ریت پر خون‘ میں شامل افسانے پڑھ کر قاری بے ساختہ کہتے ہیں، کہ یہ ادب کی ترقی پسند فکر اور ادب کی ‘اسطورہ آزادی ‘کی نمائندہ کہانیاں ہے، جو ثابت کرتی ہیں کہ وہ ادیب جو ادب اور سماج کے اٹوٹ سمبندھ پر یقین رکھے ہیں، کس طرح اعلیٰ جمالیات اور ادبی حسیات کے ساتھ اپنے بیانیہ میں انسانوں کے دکھ درد ، اور انسانی مساوات کے بیانیہ کو کمال ِ فن سے قلم بند کرتے ہیں۔ یہی ترقی پسند فکر کا رس اور خاصہ ہے۔ ان کا افسانہ ’ریت پر خون ‘ پڑھ کر جو ان کے مجموعہ کا عنوان بھی ہے ، قاری بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ، ’نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا۔۔ یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا۔‘
نور ظہیرؔ ، بھارت اور جنوبی ایشیا کے ان چنیدہ عمل پرستوں میں شامل ہیں ، جو ’وفاداری بشرطِ استواری، اصلِ ایماں ہے‘ کے اصول پر قائم ، انسانی حقوق کی جدو جہد کی راہ پر گامزن ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ، وہ صبح کبھی تو آئے گی‘۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی ہم قدمی میں ہم سب ، شنگرام شنگرام ، چولبے چولبے، کے مستانہ نعرے لگاتے رہیں گے۔
♣