افغانستان کے جنوبی گاؤں میں جشن کا سماں ہے۔ اس مرتبہ پوست کی شاندار فصل ہوئی ہے۔ پشتون خطے کا دل قرار دیے جانے والے اروزگان صوبے میں کئی سو کسان جن میں بہت سے طالبان ہیں گزشتہ ماہ پوست کی فصل کی کٹائی کے لیے جمع ہوئے تھے۔ شدید گرمی میں فصل کی کٹائی اور پوست کے پھولوں میں سے سفید مادہ نکالنے کے بعد کسان رسی کے روایتی کھیل کے ساتھ جشن منا رہے ہیں۔ افضل محمد قندھار سے صرف پوست کی فصل کی کٹائی کے لیے یہاں آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’یہاں لوگ 15 دن تک کام کرتے ہیں اور اس کے بعد پورے سال ان کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا‘‘۔
ایک دہائی سے زیادہ امریکی اور نیٹو افواج کے جنگی مشن کے باوجود افغانستان میں پوست کی کاشت میں کمی نہیں آسکی ہے۔ جنگ زدہ ملک میں پوست کی کاشت طالبان سمیت کئی خاندانوں کے لیے ایک بڑا ذریعہ معاش ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پوست کی اچھی فصل کے ساتھ جڑی کسانوں کی خوشی ظاہر کرتی ہے کہ پوست جس سے افیون تیار کی جاتی ہے، بے روزگار لوگوں کے لیے کتنی بڑی معاشی مدد ہے۔ پوست کی بڑھتی کاشت یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ مغرب منشیات کے خلاف کئی ارب ڈالر کی جنگ ہار گیا ہے۔
افغانستان جو دنیا میں پوست کی سب سے زیادہ پیداوار دینے والا ملک ہے، یہاں سن 2002 کے بعد سے سن 2014 میں پوست کی ریکارڈ پیداوار دیکھی گئی تھی۔ واضح رہے کہ سن 2014 کے آخر میں ہی نیٹو افواج نے افغانستان میں اپنا جنگی مشن ختم کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات کے مطابق گزشتہ برس پوست کی پیداوار میں کمی ہوئی تھی لیکن اس کی وجہ خشک سالی تھی نہ کہ پوست کی کاشت کو ختم کرنے کی کوئی مہم۔
افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان چارلز کلیولینڈ نے اے ایف پی کو بتایا، ’’پوست کی فصل کی کٹائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد افغان افواج پر طالبان کے حملے بڑھ جائیں گے۔‘‘ کیلولینڈ کو خدشہ ہے کہ اس مرتبہ پوست کی زیادہ پیداور کی وجہ سے طالبان اپنی جنگی کاروائیوں میں اضافہ کریں گے۔
افغانستان کے صوبے اروزگان میں پوست کے کھیتوں کا پھیلاؤ حیران کن ہے۔ اروزگان کے دارالحکومت ترین کوٹ میں صوبے کے گورنر کے دفتر کے قریب ہی پوست کا کھیت ہے جس کی وجہ سے یہ الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ نہ صرف طالبان بلکہ سرکاری اہلکار بھی پوست کی کاشت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
نکیل، ترین کوٹ کے قریب واقعہ علاقہ ہے جو پوست کے کسانوں، افیون بیچنے والے گروہوں، طالبان اور نشے کے عادی افراد کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ حکومت کے کنٹرول میں ہے لیکن انتظامیہ یہاں جانے سے گھبراتی ہے۔ اروزگان کے گورنر محمد نذیر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’زبردستی پوست کی کاشت کو رکوانے سے اقتصادی مشکلات بڑھیں گی اور لوگ طالبان کے حامی ہوجائیں گے اور انہیں اپنے گھروں میں پناہ دیں گے‘‘۔
قبائلی سردار عبدالباری توخی کا خاندان نکیل میں کئی سو ایکڑوں پر محیط زرعی زمین کا مالک ہے۔ توخی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ افغانستان جنگ زدہ ملک ہے، یہاں بہت زیادہ بے روزگاری ہے، لوگ یہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں اگر پوست نہیں ہوگی تو یہاں کوئی جنگ نہیں ہوگی لیکن ہمارے لیے اگر یہاں پوست نہیں ہوگی تو نہ روزگار ہوگا اور نہ لوگوں کو کھانے کے لیے کچھ ملے گا‘‘۔
DW
♠