پاکستان میں خواجہ سراؤں کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اگر چہ کاغذوں کی حد تک انکا ووٹ بھی ہے اُن کے لیے ملازمت میں کوٹہ بھی مختص ہے لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے۔
نہ تو انہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ہی اُن کے مرنے کے بعد دفن کرنے کے لیے عام قبروں میں جگہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ سرا رات کے اندھیرے میں اپنے مردوں کو دفن کرتے ہیں ۔ سرکاری طور پر پاکستان میں خواجہ سرؤاں کی تعداد معلوم نہیں لیکن ایک غیر سرکاری ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ خواجہ سرا ہیں ۔
گذشتہ دور حکومت میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ’شی میلز‘ کو قومی شناختی کارڈ فراہم کرنے اور انہیں صحت، تعلیم اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کا حکم جاری کیا تھا۔ چار سال قبل خواجہ سراؤں کے لیے سرکاری ملازمت میں دو فیصد کوٹہ مختص کرنے کا اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد اس پر عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا۔
ویسے تو پاکستان بھر میں خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی سلوک اور اُن کی تضحیک کی جاتی ہے لیکن خیبر پختونخوا میں یہ لو گ گذشتہ کئی سالوں سے معاشرتی ناانصافیوں سمیت بے پناہ مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔
صوبے کے مختلف علاقوں میں دو سال کے دوران چھیالیس سے زیادہ خواجہ سراؤں کو قتل کیا گیا۔ پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں حال ہی میں علیشاہ اور عدنان نامی دو خواجہ سراؤں کو گولی ماردی گئی جن میں علیشا کو شدید زخمی حالت میں پشاور کے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال پہنچایا گیا۔ علیشاہ کو اٹھ گولیاں لگی تھیں لیکن ڈاکٹر اس تذبذب میں مبتلا تھے کہ انہیں مردانہ یا زنانہ وارڈ میں رکھا جائے ۔
علیشا کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ان سے بھتہ مانگنے کے ساتھ ساتھ دیگر ناجائز کاموں کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے۔ پانچ دن تک موت و حیات کے کشمکش میں رہنے کے بعد علیشا جانبر نہ ہوسکی۔ شی میل ایسوسی ایشن کی سربراہ فرزانہ کا کہنا تھا کہ ’’ ہسپتال انتظامیہ اُس کا علاج کرنے کی بجائے اُس سے عجیب و غریب سوالات کرتے رہے اور اُس کی تضحیک کرتے تھے ۔ انہوں نے بروقت زخمی علیشا کو ہسپتال پہنچایا تھا لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں تھا جسکی وجہ سے اُس کی موت واقع ہوئی۔ اگر علیشا کو بروقت طبی سہولیات قراہم کر دی جاتیں تو شاید اُس کی زندگی بچ جاتی۔‘‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پختونخوا اب خواجہ سراؤں کیلئے محفوظ نہیں بھتہ مانگنے کے علاوہ انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن پولیس انکی شکایت سننے کے لیے تیار نہیں۔علیشا کے انتقال کے بعد اُس کی نعش اٹھا کر پولیس اسٹشین کے سامنے احتجاج کیا گیا۔ جب سٹی پولیس آفیسر سے اس سلسلے میں بات کی گئی تو انکا کہنا تھا ’’ تین افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا ہے جس میں ملوث دو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک تیسرے شخص کی گرفتاری کے لیے تلاش جاری ہے۔‘‘
غیر سیاسی تنظیموں اور بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے تعاون کی وجہ سے خواجہ سرا علیشا کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ اس دوران غیر سیاسی تنظیم کے سربراہ قمر نسیم کا کہنا تھا ’’ایسا لگتا ہے کہ یہ انسان ہی نہیں جو رویہ انکے ساتھ روا کیا جاتا ہے اس سے دکھ ہوا ہے مصیبت زدہ لوگوں کا دکھ بانٹنے کی بجائے بعض لوگوں نے انکی تضحیک کی ان پر آوازیں کسیں۔ ایسا لگا جیسے یہ لوگ اس دنیا کی مخلوق ہی نہیں ۔
جب اس سلسلے میں صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی سے بات کی گئی تو انکا کہنا تھا ’’شی میلز کا تعلق معاشرے کے انتہائی کمزور طبقے سے ہوتا ہے ہم انکے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کررہے ہیں اگلے سال کے بجٹ میں انکے لیے رہائش، روزگار اور صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے رقم مختص کررہے ہیں ۔ انہیں ہیلتھ انشورنس اسکیم میں شامل کریں گے تاکہ انہیں جلد از جلد صحت کی سہولت میسر ہو انکا کہنا تھا کہ قتل میں ملوث دو افراد گرفتار کیے گئے جبکہ ایک تیسرا بھی جلد گرفتار کیا جائیگا۔‘‘
دوسری جانب اس واقعے کے بعد لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں شی میلز کے لیے ایک الگ کمرہ مختص کیا گیا ہے جنہیں طبی امداد کی فراہمی کے وقت اسی کمرے میں رکھا جائے گا۔
DW