حفیظ الرحمٰن
انیسویں صدی میں کابل سے پنجاب(دریائے ستلج ) تک پھیلی ہوئی سکھ حاکمیت کا حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا، جس پر تاریخ میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان مطبوعات میں رنجیت سنگھ کے نہ صرف انگریزوں کے ساتھ بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقاّت پر بھی تذکرہ ملتا ہے۔ مگر فینی ایڈن کی مہاراجہ کے بارے میں رائے پڑھ کر کافی محظوظ کن واقعات ملتے ہیں۔
فینی اور ایملی ایڈن آک لینڈکے بادشاہ جارج کی غیر شادی شدہ بہنیں تھیں۔جارج کلکتہ میں بحیثیت گورنر جنرل بھی تعینات رہا۔ جارج بادشاہ خودبھی غیر شادی شدہ تھا اور یہ دونوں بہنیں ہی گھر داری کرتی تھیں۔دونوں بہنیں اکثر ہندوستان میں اپنی طرز زندگی کے علاوہ دیگر واقعات بھی لکھتی رہتیں۔ یہاں پر فینی ایڈن کی کتاب’’ چیتے ، دربار اور بادشاہ‘‘
(Tigers, Darbars & kings)
میں سے چند اقتباسات درج کئے جارہے ہیں۔
رنجیت سنگھ سے متعلق سوانحی خاکے کتاب کے اس حصے سے لئے گئے ہیں جس میں آک لینڈ کے بادشاہ کا پنجاب میں 1839ء میں داخل ہو کر انگریز سکھ تعلقات کو مضبوط کرنا تھا۔پہلا حصہ جو کہ رنجیت کی شخصیت سے تعلق رکھتا ہے وہ فیروز پور سے شروع ہوتا ہے فینی ایڈن لکھتی ہے کہ ہمارا واسطہ یہاں پر خوفناک سڑکوں سے پڑتا ہے۔ مزید آگے لکھتی ہے کہ’’ اگرچہ رنجیت سنگھ سڑکیں تعمیر کرنا انگریزوں کا احمقانہ رواج خیال کرتا ہے مگر امید ہے کہ وہ ان سے بہتر سڑکیں ہی تعمیر کرائے گا۔ رنجیت سنگھ کے خیال میں سڑکیں دشمنوں کو اپنے ملک میں داخل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ روزانہ اپنے غلاموں، نوکروں کو مٹھائی کے بھرے سینکڑوں برتن بھجواتا جنہیں پا کر نوکر بے تحاشہ مسرور ہوتے‘‘۔
ان دنوں میں بادشاہوں کے عیاشانہ طرز زندگی کوفینی نے بہت خوبصورتی سے بیان کیاہے۔’’ جب رنجیت سنگھ نے گورنر جنرل اور اس کے مصاحبین سے ملاقات کی غرض سے آناتھا تو رنجیت نے اپنے خیمے کے اردگرد خوبصورت باغ بنوانے کے لئے چھ سو(600)مالی بھیجے، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے یہاں پر کوئی دس دن گزارنے ہیں‘‘۔
رنجیت سنگھ سے رسمی ملاقات سے کچھ روز قبل، اس کے بیٹے کھڑک سنگھ کو آک لینڈ کے بادشاہ اور بہنوں سے ملاقات کی غرض سے بلایا گیا۔ رنجیت سنگھ کو اپنا وارث ، یعنی اپنا بیٹا کھڑک سنگھ ناپسند تھا۔شہزادہ کھڑک سنگھ سے متعلق ایک قصّہ بھی ہے جو کہ ایڈن کی تحریروں میں نہیں بلکہ ویسے ہی مشہور ہے۔ کھڑک سنگھ گھوڑوں کے اصطبل کا معائنہ کر رہاتھا۔ وہ جونہی ایک خاص گھوڑے کے قریب آیا تو اس نے وہاں پر موجود نگہبان سے پوچھا، کیا یہ وہی گھوڑا نہیں ہے جو کہ نوشہرہ کی لڑائی میں مارا گیا تھا۔ اس آدمی نے سپاٹ چہرے سے جواب دیاکہ نہیں سرکار وہ تو کوئی اور گھوڑا تھا ۔
29نومبر کو ، آک لینڈ کے بادشاہ نے مہاراجہ کے اعزاز میں ایک دربار لگوایا۔ فینی لکھتی ہے ہم نے مہاراجہ کا بیرونی خیمے سے استقبال کیا۔ اور وہ صوفے پر ہمارے درمیان آلتی پالتی (چوکڑی ) مار کر بیٹھ گیا۔ وہ ایک پستہ قد کا آدمی تھا جس کی سفید رنگ کی لمبی داڑھی تھی۔ اس نے کوئی بھی جڑاؤّ زیور نہ پہن رکھا تھا۔ ایملی نے ملکہ وکٹوریہ کی ایک تصویر بھی بنائی جس میں ملکہ نے تخت نشینی کا مخصوص لباس پہن رکھا تھا۔ اور یہ تصویر رنجیت سنگھ کو بھی دی گئی۔ رنجیت سنگھ نے حکم دیا کہ جب وہ یہ تصویر اپنے کیمپ میں لٹکائے گا تو سو توپوں کی سلامی اس کوپیش کی جائے۔
دودسمبرکو ، گورنر جنرل اور اس کے مصاحبین نے مہاراجہ کے اعزاز میں تعظیماً ایک ملاقات دریائے ستلج کے کنارے رکھی جہاں مہاراجہ کا پڑاؤ تھا ۔دریا کو ہاتھیوں پر سوار ہو کر پار کیاگیا فینی یاد کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ خیموں تک کا راستہ انتہائی دلکش اور خوبصورت تھا۔خیمے کشمیری کڑھائیوں اور شال سے بنائے گئے تھے۔ اور تمام بڑے لوگ جڑاؤ زیورات اور اسلحے اور سلوٹوں والے قیمتی کپڑے پہنے ہوئے تھے۔
فینی لکھتی ہے کہ میں پہلی دفعہ جب ایک سکھ خاندان سے ملی تو کافی جھجھک رہی تھی۔تاہم ، ھیرا سنگھ ، رنجیت سنگھ کا بیٹا بہت خوش گو تھا ۔اس کا رنجیت اور شیر سنگھ (جو کہ رنجیت کے مرنے کے بعد تخت و تاج پر آنکھ رکھے ہوئے تھا اور بڑا سپاہی تھا) پر کافی رعب و دبدبہ تھا۔ مجھے چاندی کی ایک کرسی کی طرف لے جایاگیا جہاں جارج اور رنجیت سنگھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم ایک طرح سے کھلے احاطے میں ہی تھے جو کہ صرف چاندی کے ستونوں سے بنایا گیا تھا ۔ یہاں فوراً ہی افسر اور ناچنے گانے والی لڑکیاں اکٹھی ہو گئیں مجھے ان لڑکیوں کو دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی کیونکہ یہ ذرا خوبصورت نہ تھیں۔
اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے فینی کہتی ہے کہ رنجیت کے سامنے چاندی کی مضبوط میز پڑی تھی اور ساتھ ہی فرش پر دو بڑی موم بتیاں پڑی تھیں۔ میز سونے کے کپ اور بوتلوں کے علاوہ کچھ سکھوں کے مخصوص کھانوں سے بھری پڑی تھی۔رنجیت سنگھ شراب کو جلتی ہوئی آگ کے طور پر بیان کر رہا تھا ، جو کہ برانڈی سے زیادہ طاقتور اور پر اثر ہے۔ اور اس کو مزید خوشی اس وقت ہوتی جب وہ لوگوں کو اس شراب کو پینے پر آمادہ کرتا۔
آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ مہاراجہ مہمانوں کو شراب پینے پر کتنے شریرا ورشیطانی انداز میںآمادہ کرتا تھا اور مجھے یعنی (فینی) کو بھی اسنے ایسے ہی کیا۔ وہ مجھیشراب سے بھرا جام پینے کو کہتااور پر اصرار کرتا رھا۔ میں اس کوپئے بغیر ہی رکھ دیتی اور تاثر دیتی کہ میں نے اس میں سے تھوڑی سی پی لی ہے۔ مگر مہاراجہ کو شک ہو گیا، اس نے کپ کو اچھی طرح سے دیکھا اور اپنے سر کو زور سے ہلا کر مجھے واپس وہ پیالہ کپ دے دیا۔ اگلی دفعہ اس نے اندازہ کرنے کے لیے اپنی انگلی کو پیالے میں ڈال کر دیکھا کہ میں نے کتنی شراب پی ہے۔
اس وقت فینی نے اپنے اے ۔ڈی ۔سی میجر ویڈ سے کہا کہ مہاراجہ کو واضح کر دے کہ انگلستان میں عورتیں اتنی شراب نہیں پیتیں۔ مہاراجہ نے چھپا کر اپنے بازو کے نیچے سے مجھے شراب کا پیالاپکڑایا۔ اس کے خیال میں میرا بھائی ظالم ہے جو مجھے شراب پینے سے منع کرتاہے۔ اس لئے جب جارج کا دھیان ادھر ادھر ہوا تو اس نے مجھے یوں فوراً شراب دینے کی کوشش کی۔
ایک شام رنجیت سنگھ نے فینی کو ہیرے کے کنگن، ایک بڑے ہیرے کی انگوٹھی اور موتیوں کی لڑی پیش کی۔ وہ بہت چالاک اور ہوشیار لگ رہا تھا۔ اگرچہ وہ اکثر بوڑھے مجسمے کی طرح بیٹھا رہتا۔ ہم رخصت ہونے لگے اور وہ ابھی تک پی رہا تھا لڑکیاں(طوائفیں) ناچ رہی تھیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سکھ کوئی سخت مذہبی اور اخلاقی زندگی نہیں گزارتے۔
چاردسمبر کو مہاراجہ اور گورنر جنرل نے کابل جانے والے دس ہزار فوجی دستوں کا معائنہ کیا۔ رنجیت سنگھ کو یہ سب دیکھنے میں صرف دلچسپی ہی تھی۔ اس کے سوال جواب سن کر میں بہت حیران ہوئی کہ وہ کافی ہوشیار تھا۔ اور میں نے اس کو پہلے کبھی ایسا نہ پایاتھا۔ جونہی وہ دستوں کے قریب ہوتا وہ بچوں کی طرح فوجی دستوں کو دیکھتا جاتا جیسا کہ کوئی نئی کھیلنے کی چیز ہو۔ اس نے پوری قطار جو کہ تقریباً 3میل پر محیط تھی، کا معائنہ کیا۔
اگلی شام کو آک لینڈ کے بادشاہ جارج نے بھی جواباً ایک ناچ گانے والی پارٹی مہاراجہ کے اعزاز میں دی۔ جہاں اس نے بیٹھنا تھا وہاں پر ایک روشنیوں کا باغ تھا۔ایک ماتحت کیپٹن کننگھمنے اس کا سارا انتظام سنبھالا تھا۔ کیپٹن نے بتایا کہ کچی مٹی کے بنے ہوئے یہ لیمپ (دئیے) ناکافی ہونگے جو کہ صرف (51,000)اکیاون ہزار تھے۔ اس پارٹی کا اپنا الگ بینڈ تھا مگر مہاراجہ نے اس کو بند کروا کے طوائف لڑکیوں کو گانے کے لئے کہا۔
فینی کے اقتباسات پڑھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مہاراجہ کی فوج کیسی تھی، اس فوج کی تربیت کی حالت اور مستعدی وغیرہ کس انداز کی تھیں۔ ہمارے سب لوگ ان لوگوں کے نظم و ضبط کی حالت پر کافی حیران تھے اور کافی متجسّس بھی۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گورنر جنرل کی پارٹی کاتمام اہتمام اور ہزاروں کی تعداد میں فوجی دستوں کی فراہمی مہاراجہ نے ہی کرکے دی تھی۔ فینی اس شاہانہ اور عیاشانہ انداز مہمانداری پر کافی حیران ہوئی ۔مگر جیسا کہ وہ لکھتی ہے کہ یہاں کا یہ رواج تھا کہ جو ساتھی سلطنت میں آتے تھے ان کو کھلایا جاتا اور جو ایسا نہ کرتا اس کو قومی شرمندگی سمجھا جاتا۔
گیارہ دسمبر کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ مجھے نہیں اندازہ کہ کتنے سینکڑوں قسموں کے پھل اور سبزیوں کی ٹوکرے اس دن ہمارے کیمپ میں رنجیت نے بھیجے۔دونوں بہنیں ، فینی اور ایملی تصویریں بہت اچھی بناتی تھیں۔ اور ان کی کتاب میں بے شمار تصویری خاکے موجود ہیں۔ دو اکالیوں کے بارے میں اس نے چند الفاظ جو کہ اس کے تصویری صورت میں بیان کئے ہیں۔ وہ مزاحیہ اور معلوماتی ہیں۔ مثال کے طور پر فینی کہتی ہے۔
“وہ سب سے زیادہ قانون شکن لوگ تھے۔ ایک وقت تھا کہ وہ ہر طریقے سے رنجیت کو بے عزت کرتے اور رنجیت یہ سب کچھ برداشت کرتا کیونکہ وہ اکالی اس کی نظر میں مبلغ بھی تھے۔ اگرچہ وہ بدمعاش جھگڑالو قسم کے سپاہی بھی تھے۔ رنجیت نے کئی لوگوں کی تربیت کی اور یہ دو اکالی بھی لوگوں میں سے تھے۔ اور رنجیت کی فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر وہ ابھی تک وہی معمولی اور گھٹیا لباس پہنتے اور اپنا اسلحہ نیزے ، تلواریں اور پستول وغیرہ ساتھ رکھتے۔ بہت ہی عجیب الخلقت لوگ تھے اور عموماً ہر ایک کی توہین اور بے عزتی کرتے۔
سولہ دسمبرکو رنجیت سنگھ نے گورنر جنرل کے اعزاز میں ایک اور ناچ پارٹی کا اہتمام کیا۔ پارٹی/دعوت کا انتظام بالکل پہلے جیسا ہی رکھا گیا تھا۔ سوائے اس کے کہ رنجیت پہلے سے زیادہ پی رھا تھا اور خوب مدہوش ہو رہا تھا اور کوشش کر رھا تھا کہ آک لینڈ کا بادشاہ بھی اس کی رفتار کو تھامے رکھے۔
وہ (رنجیت) پیتا جاتا او رکہتا چلاجاتا کہ جب آدمی شراب پیتا ہے تو اس کا نشہ دل خوش کر دیتا ہے اور انسان ہر قسم کی بیہودہ بات کر تا جاتا ہے۔ پھر وہ پوچھتا کیا یہ درست ہے کہ انگلستان میں شراب کے خلاف کتابیں لکھی گئی ہیں۔ پھر وہ اپنا سر جھٹکتا اور کہتا کہ کتنی احمقانہ اور جا ہلانہ کتابیں وہ ہوں گی!!۔
بیس دسمبر کو شالیمار باغ میں دعوت کا انتظام کیا گیا۔ فینی کے بقول یہ شاندار آثار قدیمہ تھا مگر اس کی ہر چیز زوال پذیر اور ختم ہوتی ہوئی لگتی تھی۔فینی اپنے بھائی کی، رنجیت سنگھ کی طرف سے دی جانے والی شرابی دعوتوں کاکافی شوقین ہونے پر کافی متعجب تھی۔ رنجیت سنگھ جارج بادشاہ کو اکساتا اور کہتا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ تمہاری ایک بھی بیوی نہیں۔ کیونکہ یہاں تو سکھوں کی، اکثر 25، 25بیویاں بھی ہوتی ہیں۔ “جارج جواباً کہتا کہ انگلستان میں لوگ ایک آدھ اور شادی بھی کر لیتے ہیں وہ بھی اس صورت میں کہ دوسری بیوی کے حقوق ادا کیے جا سکیں۔” جس پر رنجیت کہتا کہ اگر اس کی بیوی اس کے لئے پریشان کن ثابت ہو تو وہ اس کو مار پیٹ بھی کر لیتاہے۔
فینی 23دسمبر کے حوالے سے لکھتی ہے کہ “کل ہم نے رنجیت سنگھ کے حفاظتی دستے کو (لاہور میں)دیکھا۔ وہ ہمارے قریب سے گزرے۔ رنجیت کا ذاتی گھوڑا سب سے آگے تھا، رنجیت کے پسندیدہ گھوڑے درمیان میں تھے جن پرزمرد (قیمتی پتھر) کے انبار تھے جن کی مالیت تقریباً 36لاکھ روپے یا 3لاکھ پاؤنڈ اسٹرلنگ تھی ۔درمیان میں اس نے آکر جارج کو درخواست کی کہ اگر اس کو کوئی بھی گھوڑا پسند آجائے تو وہ لے جا سکتا ہے۔ مگر جارج نے ایسا نہ کیا۔“
فینی کے کچھ اقتباسات میں رنجیت سنگھ کی ہر نئی اور غیر ملکی چیزوں میں غیر معمولی دلچسپی کا ذکر موجود ہے۔مثال کے طور پر اس نے اپنا ایک پرانا فقیر مسٹر ومبرلے کی طرف بھیجا۔ ومبرلے جو کہ ایک پادری تھا۔ رنجیت ومبرلے سے چرچ کے دو وعظوں کا ترجمہ فارسی میں کرانا چاہتا تھا۔ دراصل رنجیت اتوار کے دن ہماری مصروفیات کے بار ے میں جاننے کے لئے بے چین تھا۔
آخر میں 28دسمبر کے حوالے سے ایک تذکرہ موجود ہے کہ “آج ہم محل میں رنجیت کی ایک بیگم سے ملنے گئے محل کا اندرونی راستہ انتہائی خوبصورت تھا۔ جارج ہم سے پہلے اندر داخل ہوا۔ ہم نے جارج اور رنجیت کو ایک الگ تھلگ دربار میں بیٹھے دیکھا۔ رنجیت بہت کمزور و ناتواں اور بیمار دکھائی دے رہا تھا۔ بیماری کے دوران رنجیت ہمارے ڈاکٹر ڈرمونڈسے دوائی لیتا تھا اور بتائی گئی دوائی کا صرف ایک چوتھائی حصہ ہی لیتا۔کھڑک سنگھ اور ھیرا سنگھ ہمیں زنان خانے کی طرف لے گئے۔ دو نوکرانیاں دروازے پر آئیں اور ہم دونوں کو عطر ملنے لگیں۔
تمام رانیاں نوجوان تھیں۔ ان میں سے ایک حقیقت میں خوبصورت تھی اور کافی سفید رنگت کی حامل تھی۔ باقی اوٹ پٹانگ اور عجیب الخلقت دکھائی دیتی تھیں اور ان سب سے جو بڑی تھی وہ دیوھیکل تھی اور کافی موٹی تھی۔ انہوں نے ناک میں نتھلیاں پہنی ہوئی تھیں۔ ان کی پیشانیاں جڑاؤ زیورات سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ ان کے چہروں پر باریک جالی دار نقاب ہوتے، بھڑکیلے چغے اور چست پاجامے ان سب نے پہنے ہوئے تھے۔ کھڑک سنگھ نے ہمیں تین مرتبہ اپنی ماں کی موت کے بارے میں بتایا اور ھیرا سنگھ نے ہمیں بتایا کہ قانونی طور پر ہماری بہت ساری بیگمات اندر کمروں میں ہیں۔ وہ ہم سے بڑے بچگانہ قسم کے سوالات پوچھتے اور زور زور سے بے تحاشا ہنستے۔ ہمیں تو ان کی ہنسی کی بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اتنا کیوں ہنسی جارہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ زیادہ تر سوئے ہی رہتے تھے۔
اکتیس دسمبر 1839ء کو گورنر جنرل کے ہمراہیوں نے لاہور کو الوداع کہا اور پانچ روز میں ہی وہ رنجیت سنگھ کے تسلطّ سے آزاد تھے۔ شیر سنگھ نے ان کی سرحد تک راہنمائی کی۔ایک بات کی میں مزید وضاحت کرنا چاہو ں گی کہ 1840ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد ریاست بد نظمی اور افراتفری کا شکار ہو گئی ۔ شیر سنگھ، ھیرا سنگھ اور کھڑک سنگھ باہمی لڑائیوں میں ہی مارے گئے۔ اور ریاست کو 1849ء میں برٹس انڈیا میں ضم کر دیا گیا۔
♣