منیر سامی۔ٹورنٹو
گزشتہ دنوں ، نہ صرف برطانیہ بلکہ دنیا کے اہم شہر لندن کے انتخابات میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان ، صادقؔ خان ، کا منتخب ہونا بلا شبہہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ان انتخابات کے دوران اور ان کی جیت کے بعد سے بہت زیادہ زور صادق خان کے مسلمان اور پاکستانی نژاد ہونے پر دیا جارہا ہے۔ یہ رویہ اس نسل پرستانہ اور قبائلی ذہنیت کاغماز ہے جو مغرب اور مشرق میں عام ہے۔
صادق خان کا تعلق برطانیہ کی لبرل جماعت سے تھا، اور ان کے اہم یہودی نژاد مخالف ’زیک گولڈ اسمتھ ‘ Zac Goldsmith کا تعلق برطانیہ کی قدامت پرست جماعت کنزرویٹوConservative ، پارٹی سے تھا۔
انتخابات کے دوران، صادق خان مخالف، برطانوی قدامت پرست وزیرِ اعظم سے لے کر ہر سفید فام نسل پرست ، صادق خان کو پاکستانی، مسلمان، اور اسلامی شدت پرستوں کا حمایتی ثابت کرنے پر تُلا ہوا تھا، اور اس ضمن میں ان پر شدید رکیک الزام بھی لگائے جاتے رہے۔ یہ وہ تلخ نسل پرستانہ رویہ بھی ہے جو مغرب میں عام ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جہاں دھواں اٹھتا ہے، وہاں آگ تو ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہی ہے کہ ایک شاطر سیاست دان ہونے کے ناطے ، صادق خان جو کم ازکم گیارہ سال تک لندن کے ایک علاقہ سے پارلیمان کے رکن رہے ہیں،خود بھی شاید ووٹ حاصل کرنے کے لیئے مسجدوں ، اور اسلامی شدت پرستوں کے قریب رہے ہیں، اور اپنی پاکستانیت اور اسلامی شناخت کو استعمال کر کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اُن کے اپنے برادرِ نسبتی مقبول جاوید ، برطانیہ کے بدنامِ زمانہ اسلامی شدت پرست ‘انجم ؔچودھری کے نمائندے رہے ہیں۔
صادقؔ خان کے حمایتی ان کے دفاع میں یہ کہتے ہیں کہ چونکہ وہ انسانی حقوق کے وکیل رہے ہیں ، سو وہ ان لوگوں کے قریب ہو سکتے ہیں جن کو اپنے قانونی حقوق کے دفاع کی ضرورت ہو۔لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی سیاست اور انتخابات کی ضروریات کے تحت جب موقع ملا ، اپنے مخالف ناصر بٹ کے احمدی ہونے کا چرچا کر کے مسلم ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس پس منظر میں یہ لازم تھا کہ موجودہ انتخابات میں ان کے مخالفین نے ان کا چہرہ سیاہ کرنے اور ان کو شکست دینے کے لیئے ہر حربہ اختیار کیا اور پھر بھی ناکام ہوئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کی صادق خان ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ ان کی جڑیں اپنے ہم قوموں اور ہم مذہبوں میں تو گہری تھیں، لیکن ان انتخابات میں اور شاید اپنے ہر انتخاب میں انہوں نے سفید فاموں، غیر مسلموں، ہندوئوں، سکھوں، یہودیوں، حتیٰ کے اپنے مخالف قدامت پرستوں سے بھی بہتر تعلقات قائم کیے، اور ان سے ان کے مقامی مسائل کی بنیاد پر ووٹ حاصل کیے۔
ہمیں یہ حقیقت کبھی نہ بھولنا چاہیئے کہ وہ برطانیہ کے سیاسی نظام پر عبور رکھتے ہیں۔ وہ گزشتہ لبرل حکومت میں ٹرانسپورٹ کے وزیر بھی تھے۔ موجودہ لبرل جماعت میں ان کی اہمیت کا ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ ان لوگوں میں پیش پیش تھے جنہوں نے موجودہ اہم لبرل رہنما ، جیریمی کوربن کو لبرل پارٹی کی رہنمائی کے لیئے نامزد کیا۔ ہم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے جب جب ضرورت پڑی ہے اپنے رنگ، نسل، اور مذہب کو اپنی کامیابی کے لیئے استعمال کیا ہے۔
اُن کی سیاست کی دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ انہوں نے خود کو ایک مکمل ’سیکولر‘ سیاست دان کے طور پر بھی پیش کیا ہے اور قبول کروایا ہے۔ سیکولر سیاست دان وہ ہوتا ہے جو چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھے، اپنے عقائد کو ریاستی نظام اور دوسروں پر مسلط نہیں کرتا۔ صادق خان ہم جنس پرستوں کے حقوق کے حمایتی ہیں، اوریہودی اور ہندو عبادت گاہوں کی تقریبات میں شرکت بھی کرتے ہیں۔ وہ حال ہی میں برطانیہ میں ’یہودی نسل کشی ‘ کی یاد میں منائی گئی ایک تقریب میں بھی شریک تھے ، بلکہ ایسی تقریبات میں شریک ہو تے رہے ہیں۔یہ خبریں آنے پر شدت پرست مسلمان ان سے نالاں ہونا شروع ہو رہے ہیں۔
صادق خان کی فتح کے بعد ،پاکستان میں اور دنیا بھر کے پاکستانی نژاد لوگو ں میں ان کے مسلم اور پاکستانی نژاد ہونے کا غلغلہ اٹھا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم پاکستانی مسلمان جو عموماً شکستہ خوردہ اور ناکام ہیں، مغرب میں اپنے جیسے کسی ہم قبیلہ کی کسی قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرنے والے کو اہلِ مغرب اور غیر مسلموں کے خلاف ، محمود غزنوی، صلاح الدین ایوبی، یا طارق بن زیاد جیسا کوئی فاتح گرداننے لگتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی کامیاب ہم قبیلہ ، پروفیسر عبدالسلام ، ملالہ یوسف زئی جیسا ہو تو اس کی مقبولیت اور کامیابی میں اہلِ مغرب ، اور یہودیوں کی سازشیں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
ہم پاکستانیوں کو یہ تلخ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اگر صادقؔ خان پاکستان میں ہوتے تو صرف اس بنا پر کہ وہ ہم جنس پرستوں کے حمایتی ہیں، یہودی تقریب میں شرکت کرتے ہیں ، یا کسی ہندو مندر میں ماتھے پر تلک لگا کر جاتے ہیں، ان کا سر قلم کر دیا جاتا۔ بالکل اسی طرح ، جس طرح کہ ہم پروین رحمان، سبین محمود ، اور خرم ذکی جیسے انسانی حقوق کے عمل پرستوں کو موت کے گھاٹ اتارتے رہتے ہیں۔
ایک طرف تو مغرب میں کسی بھی غیر عیسائی یا غیر سفید فام کے خلاف ، اسے سیاہ فام یا اسلامی شدت پرست بنا کر پیش کرنا ایک نسل پرستانہ رویہ ہے، اسی طرح مسلمانوں اور پاکستانیوں کا بھی اپنی شناخت کے جھنڈے بلند کرنا بھی منافقانہ ہے۔ اس منافقت کی صریح اور رکیک مثال ، بعض حلقوں کے ہیرو سیاسی رہنما ’عمران خان ‘ کی ہے ۔ جو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہر طرف یہودی، مغربی، اور اسلام دشمن سازشیں دکھاتے پھرتے ہیں، لندن کے انتخابات میں اپنے یہودی نژاد سابق برادرِ نسبتی، زیکؔ گو لڈ اسمتھ کی مسلم صادق خان ، کے خلاف مہم چلانے کے لیئے لندن گئے تھے۔ کیا تحریکِ انصاف کے حمایتیوں کو یہ منافقت نظر نہیں آتی۔ ’کعبہ کس منہ سے جائوگے غالب۔۔شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔
تمام تر معروضی مشاہدات کے بعد حقیقت یہی ہے کہ ، گو صادق خان کی کامیابی ان کی سیاست پر مہارت اور مقامی مسائل پر ان کی توجہ پر مبنی ہے، ابھی سالہا سال تک دنیا کے ہر اس قسم کے انتخاب میں ’شناخت‘ پر مبنی نسل پرستانہ اور منافقانہ رویئے دیکھنے میں آتے رہیں گے۔ خصوصاً مغرب کے ان شہروں اور ان علاقوں میں جہاں غیر سفید فام اکثریت حاصل کرتے جایئں گے۔،کہیں غیر سفید فاموں کی کامیابی کو سفید فاموں کی کشادہ دلی قرار دیا جائے گا ، اور کہیں ان کی کامیابی کو سفید فامیت کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر اجاگر کیا جاتا رہے گا۔
دوسری جانب غیر سفید فام اور غیر عیسائی ایسی کسی کامیابی کو پنی فتح تصور کرکے خوش ہوتے رہیں گے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ کہیں بھی، اور بالخصوص مغرب میں سیاسی مقابلوں کو رنگین عدسوں سے نہ دیکھا جائے ، لیکن ایسا جلد ہونا اتنا آسان نظر نہیں آتا۔
♠