پاکستانی ریاست ایک فلاحی ریاست کی بجائے جنگی جنون رکھنے والی ریاست ہے۔ ریاست کے وسائل عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے جنگی جنون کی نذر ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم، صحت اور روزگار کے کوئی مواقع نہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
اور یہ مزدور خوش قسمت ہیں کیونکہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد، بیرون ملک جانے کے لیے لاکھوں روپیہ خرچ کرکے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز صورتحال کو بہتر بنانے کی بجائے وسائل مسلسل جنگی جنون کی نذر کررہے ہیں۔
گزشتہ برس ایک ملین کے قریب پاکستانیوں نے بہتر مستقبل اور روزگار کے لئے مختلف ممالک کا رخ کیا۔ سینٹ کے ایک پینل کو بتایا گیا کہ 1971ء سے اب تک 90 لاکھ سے زائد پاکستانی شہری روزگار کی تلاش میں بیرون ممالک گئے۔
اپنے پیاروں سے دور یہ محنت کش پاکستانی دن رات ایک کر کے انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور پاکستان کی معیشت کو چلانے کے لئے زرمبادلہ کا ایک بڑا حصہ بھیج رہے ہیں۔ مالیاتی سال برائے 2014-2015 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 18.4بلین ڈالرز پاکستان بھیجے۔ زرمبادلہ کا سب بڑا حصہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں نے بھیجا، جو 5.6 بلین ڈالرز سے زیادہ تھا۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ خون پسینے سے کمانے والے ان پاکستانیوں کا کوئی پر سانِ حال نہیں ہے۔ نیشنل ٹرید یونین فیڈریشن پاکستان کے رہنما ناصر منصور نے ان مزدوروں کی حالتِ زار کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے حال ہی میں قطر کا دورہ کیا ہے۔ ایک ایک کمرے میں 10 سے 12 پاکستانی مزدور رہے ہیں۔ وہ ان کمروں میں شفٹوں میں رہتے ہیں۔ اگر کوئی بیمار پڑ جائے تو ایک عذاب کھڑا ہوجا تا کیوں کہ جراثیم دوسرے لوگوں کو بھی لگ سکتے ہیں۔ ان مزدوروں کے پاس نہ کوئی صحت کی سہولت ہے اور نہ کوئی سوشل سیکیورٹی‘‘۔
ناصر منصور کا مزید کہنا تھا، ’’غیر ہنر مند مزدور، جس میں ایک بڑی تعداد پختونوں کی ہے، تیس سے چالیس ہزارکما رہے ہیں جب کہ ڈرائیور کی تنخواہ اسی سے نوے ہزار پاکستانی روپیہ ہے۔ پاکستان میں اِن کو اِتنے پیسے کون دے گا؟ اِس لئے بے چارے وہاں کام کرتے ہیں۔‘‘
سینٹ کے پینل کو بتایا گیا تھا کہ خیبر پختونخواہ پاکستان کی آبادی کا بارہ فیصد ہے لیکن بیرون ملک مزدورں میں ان کی شرح 26 فیصد ہے۔ عوا می نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ صوبے میں روزگار کے وسائل محددو ہیں اس لئے پختون مزدوروں کو دوسرے ممالک جانا پڑتا ہے۔
افراسیاب خٹک کا کہنا تھا، ’’ہمارے صوبے کے ہر ضلع سے لوگ محنت مزدوری کے لئے باہرگئے ہوئے ہیں۔ چند ایک اضلاع، جہاں زراعت زیادہ ہے، وہاں سے باہر جانے والوں کی تعداد کم ہے۔ گزشتہ چار دہائیوں میں سرحد کے دونوں اطراف پختون جنگوں سے بہت متاثر ہوئے ہیں، جس سے ان کی معیشت اور معاشرت بری طرح تباہ ہوئی ہے۔ اس صورت حال نے بھی پختونوں کو دوسرے ممالک کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔خلیج میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے کفیل کا نظام بہت استحصالی ہے۔ مزدور کم و بیش کفیل کے غلام بن کے رہے جاتے ہیں۔ حکومت کو اس مسئلے کا بہت سنجیدگی سے حل نکالنا چاہیئے‘‘۔
بلوچوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین چھوڑ کر نہیں جاتے، لیکن اس صوبے سے بھی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد دیارِ غیر میں ہے۔
سینیٹر حاصل بزنجو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مکران ڈویژن میں زراعت نہ ہونے کے برابر ہے، اس لئے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں سے خلیجی ممالک گئی ہے۔ ہمارے لوگ زیادہ تر مسقط، بحرین، دوبئی اورسعودی عرب گئے ہوئے ہیں۔ مسقط کی فوج میں تو ایک وقت میں چالیس فیصد کے قریب بلوچ تھے۔ مسقط کی فوج میں بلوچ میجر کے عہدے تک جا سکتے تھے جب کہ اعلیٰ عہدے مقامی لوگوں کے لئے مختص تھے۔ کیوں کہ زیادہ تر بلوچ سنی ہیں، اس لئے اب بحرین بھی انہیں بلارہا ہے اور کئی لوگوں کو شہریت بھی دے رہا ہے۔‘‘
شمالی اور وسطی پنجاب سے بہت سارے لوگ یورپ، امریکا اور مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ جب کہ جنوبی پنجاب سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کر رہی ہے۔
حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے پروفیسر صلاح الدین کا کہنا ہے کا زیادہ تر چھوٹے کسان، جن کی تین یا چار ایکٹرز زمین ہوتی ہے، باہر جانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ’’باہر جانے کے لئے پیسہ درکار ہوتا ہے، جو بے زمین کسان کے پاس تو نہیں ہے۔ پنجاب سے چھوٹے کسانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی زمین بیچ کر بیرون ملک جاتی ہے۔ باہر جانے کا یہ رجحان بھٹو صاحب کے دور میں شروع ہوا تھا، جب مشرقِ وسطیٰ میں افرادی قوت کی بہت ضرورت تھی۔‘‘
اکنامک افیئرز ڈویژن کے سابق سیکریٹری سلیم سیٹھی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’کسی بھی ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ کے تین ذرائع ہوتے ہیں، برآمدات سے آنے ولا پیسہ اور سرمایہ کاری کی مد میں لگایا جانے والا پیسہ۔ لیکن پاکستان جیسے ممالک میں رقوم بھی اس کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کے بغیر معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگ سکتا ہے‘‘۔
DW