گردوپیش:آصف جیلانی
یہ جنوری سن72ء کی بات ہے جب پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بچے کھچے ملک کی سربراہی سنبھالی تھی اور اس بحرانی دور میں مشرق وسطیٰ سے تجدید تعلقات کی خاطر ایران، ترکی، مراکش، تیونس، لیبیا، مصر اور شام کا طوفانی دورہ دمشق میں ختم کیا تھا اور اسے نشاۃثانیہ کا سفر قرار دیا تھا۔
میں انقرہ سے اس دورہ میں مرحوم بھٹو کے ساتھ تھا۔ وطن روانہ ہوتے وقت جب میں نے مرحوم بھٹو کو الوداع کہا تو انہوں نے پوچھا کہ میں کس راستہ سے لندن لوٹ رہا ہوں۔ میں نے جب انہیں بتایا کہ میں بیروت کے راستہ سے واپس جارہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ وہاں فلسطینی سربراہ یاسر عرفات سے ضرور ملنا اور ان سے میرا سلام کہنا۔
دمشق سے بیروت تک سڑک بالکل سیدھی ہے اس میں کہیں کوئی خم و پیچ نہیں اور اس زمانے میں شاہراہ کے دونوں جانب ویران اور بنجر میدان تھے۔ اس سارے منظر سے بے نیاز میں بیروت میں فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کے سربراہ اور فلسطینیوں کی آرزؤں اور تمناؤں کی علامت یاسر عرفات سے ملاقات کے امکان سے سرشار خود ایک بے وطن فلسطینی کی ٹیکسی میں سفر کر رہا تھا۔
چند گھنٹے کی تگ و دو کے بعد جب میں بیروت میں یاسر عرفات کے دفتر میں جو اس زمانہ میں غالباً اشرافیہ کے علاقہ میں تھا، پہنچا تو میں حیران رہ گیا کہ فلسطینی سربراہ نے فوراً اندر بلا بھیجا۔ سادہ سا کمرہ تھا ایک طرف میز تھی جس پر کتابیں کاغذات اور نقشے بکھرے ہوئے تھے اس کے بغل میں ایک پرانا سا صوفہ پڑا تھا اور سامنے کرسیاں۔ میں جب کمرے میں داخل ہوا تو قدرے ٹھٹھکا کیونکہ جو تصویر میرے ذہن میں یاسر عرفات کی تھی، کفایہ اور چار خانوں والے فلسطینی روایتی اسکارف میں، میں نے اپنے سامنے بالکل مختلف شخصیت کو دیکھا۔
ننگے سر اور سر کے بیشتر حصے سے بال اڑے ہوئے کھدری داڑھی اور بدن قدرے فربہ۔ وہ گہرے ہرے رنگ کے موٹے سے سوئیٹراور خاکی پتلون میں ملبوس تھے اور پیٹی میں پستول لگا ہوا تھا۔
یاسر عرفات سیاہ ستمبر کی خوں ریز معرکہ آرائی کے بعد اردن سے تازہ تازہ بیروت میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔ ستمبر سن 70 ء میں فلسطینی تین مسافر طیارے اغوا کر کے عمان لے گئے تھے جہاں انہوں نے انہیں بموں سے اڑا دیا تھا۔ اس پر طیش میں آکر شاہ حسین نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا تھا اور دو سو ٹینکوں سے فلسطینی کیمپوں پر چڑھائی کر دی تھی۔
یاسر عرفات کی باتوں سے صاف عیاں تھا کہ وہ اس معرکہ میں اس زمانہ میں اردن میں تعینات پاکستانی فوجی دستے اور اردن کی فوج کو تربیت پر مامور بریگیڈیر ضیاء الحق (جو بعد میں پاکستان کے صدر بنے) کے رول پر سخت ناراض تھے۔
وہ بار بار کہہ رہے تھے کہ اس معرکہ کی ساری منصوبہ بندی بریگیڈیر ضیاء الحق نے کی تھی اور انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ پاکستان جو کشمیریوں کی جنگ آزادی کا علم بردار بنتا ہے وہ بے وطن اور مظلوم فلسطینیوں کے خلاف لڑائی میں یوں شاہ حسین کا ساتھ دے گا۔
یاسر عرفات کاکہنا تھا کہ اردن میں فلسطینیوں کے خلاف اس معرکہ میں ایک طرف پاکستان نے شاہ حسین کا ساتھ دیا وہاں اسرائیل کی فوج بھی اردن کی اعانت کر رہی تھی اور امریکی بحری بیڑہ مدد کے لیے بحیرہ روم کے ساحل پر کھڑا تھا۔
جس روز یہ معرکہ شروع ہوا اسی روز یاسر عرفات پی ایل او کے سالار اعلیٰ مقرر ہوئے تھے۔
پاکستان کے دو لخت ہونے پر یاسر عرفات کو بے حد تاسف تھا اور اس کا دوش انہوں نے پاکستانی فوج کی قیادت کو ٹھہرایا۔ لیکن انہیں اس بات پر خوشی تھی کہ اب پاکستان کی باگ دوڑذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جس طرح انہیں فلسطین کے بکھرے ہوئے عوام کو یک جا کرنے ان میں اپنے وطن کی سر زمین کو آزاد کرانے کا جذبہ پیدا کرنے اور نہ صرف اسرائیل بلکہ اس کے سرپرست امریکہ اور امریکہ کے زیر اثر عرب حکمرانوں کی مخالفت کے چیلنج کا سامنا ہے اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کو بھی چیلنج کا سامنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایک بکھری ہوئی قوم کو یکجا کرنے سے زیادہ شکست خوردگی کے احساس میں ڈوبی ہوئی ایک پژمردہ قوم کو بیدار کرنا بہت مشکل ہے۔
انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ میں نے فیض احمد فیض کے زیر ادارت اخبار امروز سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تھا تو بہت دیر تک فیض صاحب اور ان کی شاعری کی بات ہوتی رہی۔ اس زمانہ میں فیض صاحب ماسکو میں تھے اور یاسر عرفات انہیں پی ایل او کے جریدہ لوٹس کی ادارت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس میں وہ کامیاب رہے۔
بیروت کے قیام کے دوران یاسر عرفات کو چومکھی خطرات کا سامنا تھا اور ہر لمحہ انہیں اپنی جان کا خطرہ تھا لیکن اس ملاقات میں انہیں نہایت بے حد پر سکون دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی اور سب سے زیادہ ان کی رجائیت اور بلند حوصلہ پر۔
میری یاسر عرفات سے دوسری ملاقات لندن میں جون سن 96 ء میں اس ضیافت میں ہوئی جو اس زمانہ کے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے یاسر عرفات کے فلسطینی انتظامیہ کے صدر کی حیثیت سے ان کے لندن کے پہلے دورے پر دی تھی۔
اس ضیافت میں جب یاسر عرفات سے ملاقات ہوئی تو میں دنگ رہ گیا جب انہوں نے چوبیس سال پہلے بیروت کی ملاقات کی یاد دلائی۔ ان چوبیس برسوں میں وہ کتنے سنگین بحرانوں سے گذرے تھے۔ بیروت سے نکالے گئے۔ تیونس میں زندگی اور موت کے مابین پر خطر زندگی گزاری۔ اسرائیل سے اوسلو سمجھوتہ کی بھول بھلیوں سے گزرے اور پھر فلسطین کی انتظامیہ کے سربراہ کی حیثیت سے پینتالیس سال بعد پہلی بار ارض فلسطین پر قدم رکھا۔
اس ملاقات میں وہ اس بات پر تو خوش تھے کہ ان کے دوست ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی پاکستان میں بر سر اقتدار ہے لیکن وہ اس بات پر غمگین تھے کہ ان کے دوست مرحوم بھٹو ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ مرحوم بھٹو نے سن74ء میں لاہور کی اسلامی سربراہ کانفرنس میں اعلانیہ کہا تھا کہ انشا اللہ ہم دونوں یروشلم میں ساتھ داخل ہوں گے۔
ساری عمر انہوں نے فلسطینیوں کے اسی خواب کے حصول کے لیے جدوجہد کی لیکن ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ بلاشبہ وہ فلسطینیوں کا قومی تشخص بیدار کرنے اور ان میں اپنی سرزمین کی آزادی کا ایسا جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب رہے کہ کوئی اسے شکست نہیں دے سکتا۔
یاسر عرفات کے ساتھ فلسطینیوں کی جدو جہد آزادی کا ایک دور ختم ہو گیا ۔
♠