اپنے ایک اور مضمون ’’انسان اور آدمی‘‘ میں عسکری کہتے ہیں:۔
۔’’آدمی کو سمجھنے کی کوشش دو قسم کے لوگ کرتے ہیں، ایک تو حکمران اور دوسرے فن کار۔۔۔ حکمرانوں سے میری مراد صرف بادشاہ یا آمر نہیں ہیں بلکہ جمہوری رہنما، سماجی مصلحین، اجتماعی زندگی کے متعلق سوچنے والے فلسفی، ان سب کو میں نے حکمرانوں میں شامل کیا ہے، یعنی وہ تمام لوگ جو چاہتے ہیں کہ آدمی ایک خاص طریقے سے زندگی بسر کریں۔ جب یہ لوگ آدمی کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ان کے سامنے ایک خاص مقصد ہوتا ہے۔ ان کی تفتیش ایک مخصوص اور واضح افادیت پر مبنی ہوتی ہے۔ حکمران تو آدمیوں کو خام مواد سمجھتے ہیں۔۔۔ آدمی اور حکمران کے درمیان مقصد حائل ہو جاتا ہے، اس لیے حکمران کو انسان ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ یہ حکمران کی ضرورت ہے ۔۔۔ انسان حکمرانوں کی اس حسرتناک خواہش کا نام ہے کہ اگر آدمی اس قسم کا ہوتا تو ہمیں اس کی ترتیب وتنظیم میں بڑی آسانی رہتی“۔
کچھ عرصے بعد، یعنی اکتوبر ۱۹۴۹ میں، پاکستانی حکمرانوں کو آسانی فراہم کرنے کے لیے عسکری صوبہ سرحد کا سفر کر کے یہ خبر لانے والے تھے کہ وہاں قیوم خاں کی کوششوں سے ایسا انسان پیدا ہو چکا ہے جس کی ترتیب وتنظیم فوری طور پر شروع کی جا سکتی ہے۔ بہرکیف، روس کی مثال لے کر حکمرانوں کے اس قسم کے منصوبے کو روبہ عمل لانے کی دشواریاں کا جائزہ لیتے ہوے عسکری کہتے ہیں:۔
۔’’آدمیوں کی داخلی زندگی کو قابو میں رکھنے کے لیے روس کی اجتماعیت کے پاس ایک ہی آلہ ہے، جبرواحتساب۔۔۔ حکومت کی خواہشات سے منحرف ہونے والوں کو پکڑنے دھکڑنے سے نیا انسان پیدا ہونے کی زیادہ امید نہیں ہے۔۔۔ جو لوگ معقول ادب پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یا تو تھوڑے دن بعد خودکشی کر لیتے ہیں یا ان کی تحریروں کی اشاعت حکماً بند کر دی جاتی ہے۔ یہ بڑی عجیب وغریب صورتِ حال ہے۔ اگر روس میں ایک نئی تہذیب پیدا ہو چکی ہے اور ملک والوں کی غالب اکثریت اس کی اقدار سے پوری طرح مطمئن ہے تو دو چار آدمیوں کے منحرف ہو جانے پر اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر اس بات کا اندیشہ ہے کہ یہ دو چار آدمی اکثریت کو بہکا کر غلط راستے پر ڈال دیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ اکثریت اس تہذیب کی اقدار سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے اور اس میں کمی محسوس کرتی ہے‘‘۔
اس اقتباس میں روس کا نام حذف کر دیجیے تو صورت حال خاصی جانی پہچانی دکھائی دینے لگے گی۔ اسی مضمون میں آگے چل کر عسکری کہتے ہیں:۔
۔’’پاکستان چونکہ اسلامی تصورِ حیات کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے اس لیے بیسویں صدی کے موجودہ حالات میں ہمارا ایک خاص فرض ہے، وہ یہ کہ ہمارے تصور حیات میں جو ممکنات ہیں انھیں ہم اپنے فکروعمل اور اپنی شخصیت میں منتقل کردیں۔ اسلامی کردار کی تخلیق بیسویں صدی کی انسانی تہذیب میں انقلابی واقعہ ہو گا۔۔۔ ہمارے ادب میں بھی صرف سای طریقے سے جان آ سکتی ہے ورنہ اسی طرح بےاثری اور ناتوانی کی خلاؤں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے گا‘‘۔
یہ اقتباس نہ صرف تبصرے کی احتیاج سے ماورا ہے بلکہ خود عسکری کے ’’انسان اور آدمی‘‘ والے نظریے پر ایک تبصرہ معلوم ہوتا ہے۔
فسادات کا ذکر عسکری کی تحریروں میں پہلی بار دسمبر ۱۹۴۶ کی ’’جھلکیاں‘‘ میں آتا ہے جب وہ ترقی پسندوں کو اس بات پر لعنت ملامت کرتے ہیں کہ انھوں نے فسادات کے خلاف دستخطی بیان جاری کر کے اپنی سماجی ذمے داری نبھانے کی کوشش کیوں کی۔ وجہ ظاہر ہے، وہ کالا لوگ ہیں اور چلے ہیں فرانسیسیوں کی نقل کرنے۔ کوے کے ہنس کی چال چلنے پر عسکری کی تلملاہٹ دیکھنے کی چیز ہے:۔
۔’’انسانیت کے درد سے مجبور ہو کر بچاروں نے فوراً ایک بیان مع دستخطوں کے جاری کر دیا جس میں وحشت و بربریت، درندگی اور دوسرے ہولناک لفظوں کے خلاف، اور محبت، اخوت، انسانیت جیسی ترقی پسندانہ نیکیوں کے حق میں اپیل کی گئی ہے۔۔۔ اس بیان سے اپنے آپ کو متعلق کرنے میں اتنا بھی تو فائدہ نظر نہیں آتا کہ چلو، اور کچھ نہیں تو ’پانیر‘ میں نام ہی چھپ جائے گا۔ آپ رجعت پسند ہوں یا ترقی پسند، رگِ گل سے بلبل کے پر باندھنے میں مصروف رہتے ہوں یا اب تک قلیوں کی دو چار ناکامیاب ہڑتالوں کی لیڈری کر چکے ہوں، جب تک آپ ادیب ہیں ہندوستان میں آپ کو گانٹھتا کون ہے؟۔۔۔ اس ملک اور ان حالات میں رہتے ہوئے بس یہی ممکن ہے کہ اگر ’پیغمبری‘ بہت زور مارے تو ہواؤں کو مستفید ہونے کا موقع دیجیے‘‘۔
یہ آخری فقرہ، بقول شخصے، چرکین اور جیمز جوئس کے گرینڈ اسٹائل میں ہے!۔
حسن عسکری کو غصہ کیوں آتا ہے؟ کیا اس لیے کہ ان کے نزدیک فسادات ادب کا موضوع نہیں بن سکتے؟ مگر ترقی پسند ادیب اس دستخطی بیان کو افسانہ یا غزل کہہ کر تو پیش نہیں کر رہے۔ یہ تو ایک اپیل ہے جو اخبار میں چھپے گی، یا شاید اخبار والے بھی اسے گھاس نہیں ڈالیں گے؛ کسی ترقی پسند ادیب کے افسانوں کے مجموعے میں تو یہ بہرحال شامل نہیں ہو گی۔ اگر ادیبوں کو کوئی نہیں گانٹھتا تو ان ادیبوں کی اس معصومانہ اور بےاثر حرکت کو مسکرا کر نظرانداز کر دینے میں کیا حرج ہے؟ اس پر سیخ پا ہونا کیوں ضروری ہے؟
اور اگر یہ حرکت اتنی ہی ناقابلِ برداشت ہے تو کچھ عرصے بعد پاکستانی ادیبوں کی جانب سے کشمیر کے سلسلے میں دستخطی یادداشت تیار کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرنا اس سے کیونکر مختلف ہے؟
رفتہ رفتہ عسکری نے فراق کی نصیحت پر عمل کر کے اپنے جذبات کی تھوڑی بہت تہذیب کر لی اور ایک ذرا بدلے ہوے انداز میں، جسے ان کا ایک برخوردار ’’عام گفتگو کی سی فطری سادگی‘‘، ’’شائستہ لہجے‘‘ اور ’’ہمدردانہ دلسوزی سے مملو‘‘ پاتا ہے، زیر بحث مضمون بعنوان‘‘ فسادات اور ہمارا ادب‘‘ تحریر کیا۔ یہ مضمون اس لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ نئی ریسات میں اسٹالن ازم کی راہ میں عسکری کا پہلا قدم ہے۔ پہلے قدم کی لڑکھڑاہٹ بھی اس مضمون سے عیاں ہے۔
مضمون کا آغاز اس فقرے سے ہوتا ہے: ’’۱۹۴۷ کے فسادات مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا قومی حادثہ ہیں۔۔۔۔ “۔
ترقی پسندوں کے فسادات کے بارے میں زبان کھولنے پر عسکری کے سیخ پا ہونے کا راز اسی جملے میں پوشیدہ ہے۔ ’’محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ بھی ایک انداز استدلال ہے‘‘، اور نہ یہ کہ عسکری نے نئی ریاست کی حکمراں پارٹی کے نقطۂ نظر سے تاریخ کی قطع و برید کا کام شروع کر دیا ہے۔ فسادات کی تعریف ’’مسلمانوں کا قومی حادثہ ’’کہہ کر کرنا پورے سچ سے اس قدر کم ہے کہ اسے جھوٹ کہے بغیر چارہ نہیں۔ پورا سچ نئی ریاست کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ اسے اپنے شہریوں کو یہی بتانا ہے کہ پاکستان بنانے کے لیے مسلمانوں کو لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تھا اور اس بات کا ذکر اپنی تایخ کی منظور شدہ کتابوں میں ہرگز نہیں کرنا ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہندو اور سکھ بھی مارے گئے تھے۔ جس شخص کو معروضیت سے ’’باپ مارے کا بَیر‘‘ نہ ہو وہ ان فسادات کی تعریف یوں کرے گا کہ تقسیم کے موقعے پر برصغیر کے مختلف علاقوں میں فسادات ہوئے جن میں ایک طرف ہندو اور سکھ تھے اور دوسری طرف مسلمان، اور دونوں گروہوں نے یکساں دیوانگی کے ساتھ ایک دوسرے سے ’’وحشت وبربریت اور درندگی‘‘ کا سلوک کیا جو عسکری کے لیے محض ’’لفظوں‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ترقی پسند، بشمول منٹو، فسادات کے موضوع پر اپنی تحریروں میں بعینہ یہی بات کہتے ہیں۔
ذرا آگے چل کر عسکری ایک قیاسی سوال اٹھاتے ہیں: ’’کیا یہ واقعات بنفسہ اور محض واقعات کی حیثیت سے ادب کا موضوع بن سکتے ہیں؟‘‘ اس سوال میں ’’بنفسہ‘‘ اور ’’محض واقعات کی حیثیت سے‘‘ کے الفاظ سادہ لوحی یا حیلہ سازی سے ڈال دیے گئے ہیں جن کی کوئی تعریف سامنے نہیں آتی۔ نہ یہ وضاحت ملتی ہے کہ کون سی تحریریں ہیں جن میں فسادات کو ’’بنفسہ‘‘ اور ’’محض واقعات کی حیثیت سے‘‘ موضوع بنایا گیا ہے اور کون سی تحریروں میں اس کے برعکس طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے بجاے وہ یہ نادر نظریہ پیش کرتے ہیں:۔
۔’’ایسے سوالوں کا جواب سوچتے ہوئے ہمیں اپنی ذاتی یا قومی مصیبتوں کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جانا چاہیے۔ کم از کم دو چار لمحے دل پر پتھر رکھ لینا چاہیے، کیوں کہ ادب تو فی الحقیقت بڑا سنگ دل ہوتا ہے۔ انسان کی تاریخ تو پچیس تیس ہزار سال پرانی ہے، خدا جانے کیا کیا ہوچکا ہے اور کیا کیا ہونے والا ہے۔ ادب آخر کس کس فرد اور کس کس گروہ کے جذبات کا احترام کرے؟ اگر ہمیں اپنے سوال کا کوئی تسلی بخش جواب ڈھونڈنا ہے تو اپنی مظلومیت کے احساس کو تھوڑی دیر کے لیے خیر باد کہہ دینا چاہیے‘‘۔
ادب کے ’’فی الحقیقت بڑا سنگ دل‘‘ ہونے کی بھیانک تعمیم ادب کی کن مثالوں سے اخذ کی گئی ہے؟ اور فرض کیجیے کسی طرح یہ بات ثابت بھی ہو جائے تو اس سے یہ نتیجہ کیونکر برآمد ہوتا ہے کہ ادب پڑھنے والے کو بھی سنگ دل ہونا چاہیے؟ اس قسم کے سوالات کرنا بےسود ہوگا۔ لیکن اگر کچھ احمقوں نے فسادات کو ’’بنفسہ‘‘ اور ’’محض واقعات کی حیثیت سے‘‘ ادب کا موضوع سمجھ ہی لیا ہے تو اس کا نتیجہ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ ان کی تحریریں ادب کے اعتبار سے ناقص ٹھہریں گی اور اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ ایک ’’بہت بڑے قومی حادثے‘‘ سے دوچار قوم کے افراد کا اپنی اور قومی مصیبتوں کو بھول کر ان ناقص اور بےنتیجہ تحریروں کی ادبی حیثیت پر غور کرنا اس قدر اہم کیونکر ہو گیا؟ چند سال گزر جانے دیجیے؛ ان تحریروں کا فیصلہ خودبخود ہو جائے گا۔
لیکن عسکری کو یہ فیصلہ سنانے کی بہت جلدی ہے کہ ’’فسادات ادب کا موضوع بن ہی نہیں سکتے۔‘‘ اس کی کافی و وافی دلیل ان کے نزدیک ڈبلیو بی یٹیس کا یہ اقدام ہے کہ اس نے ۱۹۱۴ کی جنگ کو جن نظموں کا موضوع بنایا تھا انھیں اپنے مجموعے میں شامل نہیں کیا کیونکہ یٹیس کے خیال میں یہ نظمیں اس کی انفعالی تکلیف سے پیدا ہوئی تھیں۔ اس موقعے پر عسکری جوئس کو تکلیف نہیں دیتے جو ان کے کہنے کے مطابق اخباری تراشے تک اپنے ناول میں شامل کرنے سے نہیں جھجکتا تھا۔ وہ مسلمان ادیبوں سے اپنی اس شکایت کو بھی فی الحال روک لیتے ہیں کہ انھوں نے تحریکِ خلافت کے موضوع پر کچھ نہیں لکھا جب کہ ہندی میں تحریکِ آزادی کے موضوع پر بےشمار ناول لکھے جا رہے تھے۔
اس مضمون کا عنوان ہی ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ ہے۔ اگر عسکری فسادات کے موضوع پر ادب کی حیثیت سے چھپنے والی چند نمایاں چیزوں کا جائزہ لے کر اس نتیجے تک پہنچتے تو معقول بات ہوتی، لیکن اس سے معروضیت کی جھپیٹ میں آ جانے کا خطرہ تھا۔ وہ اپنے تحمی فیصلے کے حق میں اس نوعیت کی کسی تحریر کا حوالہ نہیں دیتے جس سے یہ معلوم ہو کہ فسادات کیوں ادب کا موضوع نہیں بن سکتے۔ اس بےدلیل دعوے کے بعد وہ فوراً ہی اپنے موقف کے اگلے نکتے پر پہنچ جاتے ہیں:۔
۔’’مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ اگر ایسے حادثات ادب کا موضوع نہ ہوں تو ان پر ادیبوں کو لکھنا ہی نہ چاہیے۔ ادیب ہر وقت ادب ہی تو پیدا نہیں کرتے رہتے۔ ان کی ذمہ داریاں دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک تو ادیب کی حیثیت سے، دوسری ایک جماعت کے فرد کی حیثیت سے۔ اس میں شک نہیں کہ ادیب کی پہلی ذمہ داری اس کی اولین ذمہ داری ہے مگر بعض موقعے ایسے آتے ہیں جب ادیب کے لیے اپنی دوسرے درجے کی ذمہ داریاں پورا کرنا ہی واجب ہو جاتا ہے اور یہ ذمہ داریاں پہلی ذمہ داریوں کے منافی بھی نہیں ہوتیں‘‘۔
ادیب کی اس منقسم شخصیت کا انکشاف اس سے پہلے عسکری کی کسی تحریر میں نہیں ہوا تھا، اور اس انکشاف پر ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ کیا تقسیمِ ہند کے ساتھ ہی ادیب کی شخصیت بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی؟ یہ حادثہ کب اور کیسے ہوا، اس بارے میں عسکری نے ہمیں کچھ بتانا مناسب نہیں سمجھا۔
اپنے اس انوکھے تصور کی مدافعت میں وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران مختلف ملکوں کے ادیبوں کے رویے کا جائزہ لیتے ہیں۔ وہ پہلے روسی ادیبوں کی مثال پر غور کرتے ہیں اور کسی ادیب کا نام لیے بغیر یہ عمومی حکم لگاتے ہیں کہ ’’روس میں تو ادیبوں نے اپنی ثانوی ذمہ داریوں کو اس جوش و خروش کے ساتھ پورا کرنا شروع کیا کہ ادبی ذمہ داریوں کو بالکل بھول گئے‘‘، اور اس سے یہ (متوقع) نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’روسی ادیبوں کی مثال ہماری رہبری کے لیے قطعی ناکافی بلکہ گمراہ کن ہے‘‘۔
روسیوں کے بعد انگریزوں کی باری آتی ہے۔ ’’جہاں تک میں جانتا ہوں، کسی معقول ادیب نے قلم کے ذریعے قوم کی کوئی خدمت نہیں کی۔‘‘ روسیوں نے یہ کام کیا تھا اس لیے عسکری کی نگاہ میں مردود ٹھہرے، لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا جلد بازی ہوگی کہ روسیوں سے مختلف رویہ اختیار کرنے پر انگریزوں کو شاباش ملے گی۔ یہ دیکھیے:۔
۔’’بہرحال جنگ کا ادیبوں پر جو ردِعمل ہوا وہ یہ کہ انھوں نے اپنی زندگی کو بڑا خالی خالی محسوس کیا۔ نہ پھول رہے تھے نہ چڑیاں، عزیز اقربا بچھڑ گئے تھے۔ جنگ کی وجہ سے ذاتی آزادی میں بڑی کمی آ گئی تھی۔ ان سب ذہنی اور شخصی آسائشوں کے غائب ہو جانے سے انھیں بڑی تکلیف ہوئی اور انہو ں نے بھری پُری زندگی کے سوگ میں بسورنا شروع کر دیا۔ فی الجملہ انگریز ادیبوں کا رویہ بڑا نفعالی قسم کا رہا اور اس ردِ عمل کی بنیادوں پر کسی جاندار ادب کی تعمیر نہیں ہو سکتی۔۔۔ ان کے اس رویے سے کچھ ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے انھیں اپنی ادبی شخصیت پر یقین اور اعتبار نہ ہو۔ قومی خدمت کرتے ہوئے انھیں ہی سوچنا ہی نہ چاہیے تھا کہ آگے چل کر ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔۔۔ مگر انگریز ادیبوں نے لڑے بغیر ہی ہار مان لی اور یہ فرض کر لیا کہ اگر قوم نے سخت گیری برتی تو ہم بے دست وپا ہو کے رہ جائیں گے‘‘۔
جہاں تک شاباش کا تعلق ہے وہ انھیں مئی ۱۹۴۴ میں دی جا چکی ہے، اور پھر وہ ستمبر ۱۹۴۵ میں بھی اپنی پیٹھ ٹُھکوا چکے ہیں، مگر یہ کام موقع محل دیکھ کر کرنا چاہیے، یعنی اُس وقت جب ترقی پسند اور جمال پرست ’’کالا لوگ‘‘ کا منھ بند کرنا مقصود ہو۔ رہے فرانسیسی تو وہ اشرف المخلوقات ہیں اور انگریزوں کو ان کے مقابلے میں اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے۔ پھر یہ ۱۹۴۴ء یا ۱۹۴۵ تو ہے نہیں جب ہندوستان پر ان کا راج تھا اور جن فیصلوں کو ان کی تائید حاصل ہوتی انھیں یکسر رد کرنا عسکری کے نزدیک بےادبی کے متراف تھا۔
تیسری اور عسکری کے نزدیک قابلِ تقلید مثال (ظاہر ہے) فرانس سے آتی ہے جہاں کے ادیبوں کا رویہ ’’بڑا متوازن اور باوقار رہا۔ انھوں نے اپنی ایک بھی حیثیت کو دوسرے پر قربان نہیں ہونے دیا۔ بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی ان دو حیثیتوں کو گڈمڈ نہیں کیا بلکہ دونوں کا فرق بہت واضح طور پر اپنے ذہن میں قائم رکھا۔‘‘ فرانسیسی ادیبوں کا ذکر بھی، آندرے ژید کو چھوڑ کر، ناموں کے بغیر ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فرانس کے ادیبوں کے رویے عسکری کی رائے میں دو قسم کے تھے۔
۔’’دو ایک ادیب جنگ شروع ہوتے ہی فرانس سے چلے گئے کہ ہمارا کوئی ملک نہیں ہے، نہ ہم فرانس کی طرف ہیں نہ جرمنی کی طرف۔۔۔ ان کے علاوہ باقی تمام ادیبوں نے ہر ممکن طریقے سے جرمنوں کی مخالفت کی، لوگوں کو بغاوت پر ابھارا، غرضیکہ اس نازک موقعہ پر قوم کی جو خدمت بھی ان سے ہو سکتی تھی، کی۔ مگر کم سے کم بڑے ادیبوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی یہ گوارا نہیں کیا کہ قوم کی محبت کے جوش میں آ کر ان خیالات سے، ان اقدار سے غداری کریں جنہیں عمر بھر پوجتے چلے آئے تھے، یا قومی خدمت کرنے کے بعد اپنے آپ کو ادبی ذمہ داریوں سے آزاد سمجھیں یا جو چیزیں محض قوم کا جذبۂ آزادی بیدار کرنے کے لیے لکھی تھیں انھیں ادب کا رتبہ دیں۔۔۔ اس جنگ کے دوران میں ایسے ایسے فرانسیسی ادیبوں نے پروپیگنڈے کی چیزیں لکھی ہیں جنہیں سیاسی معاملات سے بالکل بے تعلق اور ’خالص ادب‘ کا شیدائی سمجھا جاتا تھا۔ آندرے ژید جیسا ادیب جو سچ بولنے کے معاملے میں کبھی مصلحت کو خاطر میں نہیں لایا اور جس نے ہمیشہ بھیڑ بھڑکّے پر اپنے کنجِ تنہائی کو ترجیح دی، وہ آزادی کے جذبے سے بےقرار ہو کر اپنے کونے سے باہر نکل آیا، مگر ساتھ ہی جرمنوں کی تعریف بھی کرتا رہا‘‘۔
عسکری کی ژولیدہ گفتاری اس اقتباس میں اپنے عروج پر ہے ۔۔ اور قطعی دانستہ ہے۔ ان دونوں گروہوں میں سے کس گروہ کے ادیبوں کا رویہ متوازن اور باوقار رہا ہے؟ وہ جو فرانس سے چلے گئے یا وہ جنھوں نے فرانس میں رہ کر جرمنوں کی مخالفت کی؟ عسکری کے لہجے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جرمنوں کی مخالفت کرنے والے ادیبوں کی مثال کو قابلِ تقلید سمجھتے ہیں۔ لیکن کیا وہ ادیب جنھوں نے لوگوں کو جرمنوں کے خلاف بغاوت پر ابھارا اور آندرے ژید، جو جرمنوں کی تعریف کرتا رہا، ایک ہی گروہ کا حصہ ہیں؟ جرمنوں کی مخالفت کرنے والے ادیبوں نے تو جنگ کے بعد آندرے ژید پر جرمنوں کی حمایت کے جرم میں فاشسٹ ہونے کا الزام لگایا تھا اور ژید کو گرفتار کر کے مقدمہ چلانے کی درخواست کی تھی۔ یہ بات ہمیں خود عسکری نے جون ۱۹۴۷ کی ’’جھلکیاں‘‘ میں بتائی تھی:۔
۔’’اردو رسالوں میں دو ایک دفعہ فرانس کے نئے ادیبوں اور خصوصاً آراگوں کا تذکرہ آیا ہے اور اس ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ فرانس میں سارے اچھے ادیب قوم کی خدمت میں لگ گئے ہیں۔ لیکن اس جماعتی پروپیگنڈے سے قطع نظر، ابھی فرانس میں اتنی بدمذاقی نہیں آئی اور ابھی بہت دنوں تک آنے کی امید نہیں، کیونکہ وہاں کے ادیب اتنی آسانی سے اپنی قیمتیں مقرر نہیں کرتے جیسے کہ روس میں۔ فی الحال میں فرانس کے سب سے بڑے زندہ ادیب کے روزنامچہ سے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں جس سے پتہ چلے گا کہ فرانس کا دماغ اتنی جلدی غلام بننے کو تیار نہیں ہو گا۔ آندرے ژید پر بعض کمیونسٹوں اور دوسرے جاہ پرستوں نے فاشسٹ ہونے کا الزام لگایا ہے، بلکہ آراگوں نے تو ادب اور ادیبوں سے اتنی غداری برتی ہے کہ حکومت سے ژید کو گرفتار کر کے مقدمہ چلانے کی درخواست کی ہے۔۔۔ ژید کے اوپر خاص الزام یہ ہے کہ اس نے اپنے روزنامچے میں جرمن سپاہیوں کی تعریف کی ہے اور ان کے عادات و اطوار کو بہت شائستہ بتایا ہے۔ ژید کے مخالفین چاہتے تھے کہ وہ اپنی آنکھیں بند رکھے اور اپنے ہوش و حواس سے کام نہ لے، جرمنوں کو محض دشمن سمجھے اور ان کی انسانیت کو بھول جائے۔ لیکن ژید پر کلچر کے رہنما کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں وہ پوری کیں اور حقیقت کو جس طرح دیکھا اور محسوس کیا اسی طرح بیان کیا‘‘۔
آخر بات کیا ہے؟ عسکری را حافظہ نباشد؟ بات دراصل صرف اتنی ہے کہ جون ۱۹۴۷ میں ترقی پسندوں پر تاؤ کھانا مقصود تھا جنھوں نے اپنے موقف کے حق میں کچھ فرانسیسی ادیبوں کی مثال دینے کی جسارت کی تھی۔ چونکہ فرانسیسی ادب کی تشریح وتعبیر کے جملہ حقوق، برصغیر جنوبی ایشیا کی حد تک، عسکری کے نام محفوظ ہیں اس لیے انھوں نے جواب میں ژید کی حمایت کرتے ہوے اس کے روزنامچے سے اقتباسات پیش کیے تھے۔ ان اقتباسات میں آزادی پسند ژید کا یہ قول بھی شامل تھا: ’’میں آزادی کا قائل نہیں ہوں۔ یہ بت پرستانہ عقیدہ ہماری موت کا باعث بن رہا ہے۔) میں پابندیاں قبول کرنے کو تیار ہوں۔‘‘ زیر بحث مضمون میں عسکری انھیں فرانسیسی ادیبوں کی مثال کو ادیب کی دوہری شخصیت کی حمایت میں پیش کر کے انھیں قابل تقلید اور ان سے بالکل متضاد موقف رکھنے والے ژید کو ان کے گروہ کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ اس مضمون کے عجیب الخلقت تھیسز کو کھڑا رکھنے کے لیے تھوڑی بہت بددیانتی بھی ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے۔ اور پھر فرانسیسی ادیب ’’ساقی‘‘ کہاں پڑھتے ہوں گے۔
کیا عسکری کے ہاتھوں فرانسیسی ادیبوں کی درگت یہاں پوری ہو گئی؟ افسوس، ایسا نہیں ہے۔ فرانسیسی بڑے بدقسمت لوگ ہیں اور انھیں عسکری کے بار بار بدلتے ہوے موقف کی کمک کے لیے بار بار طلب کیا جائے گا۔ اپریل ۱۹۵۳ کی ’’جھلکیاں‘‘ کا اقتباس ملاخطہ کیجیے:۔
۔’’اگر مجھے یقین آجائے تو کہ ادیب لوگ گردوپیش سے بےنیاز ہو کے واقعی ادب پیدا کر لیں گے تو میں خوشی سے ہی کہنے کو تیار ہوں کہ پاکستان کا جو حشر ہوتا ہے ہونے دو، کم سے کم تھوڑا بہت ادب تو تخلیق ہو جائے گا۔ لیکن سماجی تجربے سے بچ کر جس قسم کا ادب پیدا ہو سکتا ہے وہ خود ادیب صاحب کے کام آئے تو آئے، ادب کی تاریخ کے کام نہیں آئے گا۔ میں مانتا ہوں کہ حالات مایوس کن ہیں، خصوصاً ادیبوں کے لیے، لیکن کیا ہمارے حالات اتنے ہی مایوس کن ہیں جتنے پچھلی جنگ مین فرانسیسیوں کے لیے تھے؟ ان کی نظروں میں تو بعض دفعہ نہ اپنے ملک کا مستقبل باقی رہتا تھا نہ اپنا، بلکہ جن لوگوں کو جرمنوں کی قید میں رہنا پڑا، ان کے لیے تو موت اور حیات کا فرق تک مٹ گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ادب پیدا کرتے رہے، اور ان کا ادب نہ تو سیاسی نعروں کا ادب تھا نہ ’’خالص‘‘ ادب، بلکہ حقیقت انسانی کے مطالعے کا ادب‘‘۔
کہیے کیا بات دھیان میں آئی؟ ایک نہیں ، تین باتیں ہیں۔ (۱) ہمیں آراگوں اور ’’اے دسیوں دمِنوی‘‘
(Les Éditions de Minuit)
والے پروپیگنڈِسٹ ادیبوں پر لعنت بھیج کر ژید کی پیروی کرنی چاہیے جس نے جرمنوں کی مخالفت کرنے کے بجاے ان کی حمایت کی اور آزادی کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ (۲) ہمیں ژید اور ‘‘اے دسیوں دمِنوی‘‘ والے ادیبوں، دونوں کی تقلید کرنی چاہیے اگرچہ ژید جرمنوں کی تعریف اور آزادی کے بت پرستانہ عقیدے کی مذمت کر رہا تھا اور یہ دوسرے ادیب جرمنوں کے خلاف لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے لیے پروپیگنڈا کر رہے تھے۔ (۳) دوسری جنگ عظیم کے دوران میں فرانسیسی ادیب سیاسی نعروں کا یا ’’خالص‘‘ ادب نہیں بلکہ حقیقتِ انسانی کے مطالعے کا ادب پیدا کر رہے تھے اور ہمیں انھیں کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔
بہت سے لوگ فرانسیسی ادب سے عسکری کی اسی گہری واقفیت سے چکاچوند ہو کر انھیں اردو کا اعلیٰ ترین نقاد مان لیتے ہیں۔
خیر، اب آگے چلیے اور یہ دیکھیے کہ فرانسیسیوں کا ہاتھ استعمال کر کے عسکری نے فسادات پر لکھے ہوے افسانوں کو ادب کی تعریف ہی سے خارج کردیا ہے۔
۔’’ادیب والی شخصیت تو فسادات پر لکھ ہی نہیں سکتی کیونکہ فسادات ادب کا موضوع نہیں ہے۔ البتہ شہری والی شخصیت فسادات پر افسانے لکھ سکتی ہے مگر اس صورت میں اس کا ایک مخصوص نقطۂ نظر ہو گا جو سراسر غیرادبی ہو گا‘‘۔
یہ حتمی اور اٹل، گو سراسر بےبنیاد، فیصلہ کر لینے کے بعد وہ فسادات کے موضوع پر لکھے گئے اردو افسانوں کا جائزہ لینے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں، اور کسی ایک ادیب کے نام یا کسی ایک افسانے کے عنوان تک کا ذکر کیے بغیر اس نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان افسانوں میں ’’اکثروبیشتر‘‘ کا بنیادی خیال یہ ہے:۔
۔’’ان فسادات میں جس بہیمیت کا اظہار ہوا ہے وہ بہت بری چیز ہے۔ یہ افسانے اس بہیمیت کے خلاف نفرت پیدا کرنا چاہتے ہیں، اور ساتھ ہی اس کی وجہ بھی ڈھونڈھتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ایسی بربریت عام طور سے انسانوں میں نہیں ہوتی۔ یہ تو سیاسی حالات نے پیدا کی ہے۔ اور یہ سیاسی حالات اور نفرت انگریزوں کی ایک چال ہندوستان کی تقسیم ہے۔ اگر تقسیم نہ ہوئی ہوتی تو فسادات بھی نہ ہوئے ہوتے اور ہندو مسلمان بھائیوں کی طرح رہتے۔ امید ہے کہ یہ نفرت جلد غائب ہو جائے گی اور بھائی بھائی پھر گلے مل جائیں گے۔ بعض افسانہ نگار سمجھتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان پھر ایک ہو جائیں گے‘‘۔
عنوانات کی غیرموجودگی میں ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا اجزا میں سے کوئی جز عسکری کو فسادات کے موضوع پر لکھے گئے ہر افسانے میں ملا ہو گا، کوئی دوسرا جز چند افسانوں میں، اور کوئی تیسرا اکادکا افسانوں میں۔ پاکستان اور ہندوستان کے پھر ایک ہو جانے کی امید کا الزام تو خود عسکری نے بھی صرف ’بعض افسانہ نگاروں‘‘ پر عائد کیا ہے اور اسے باقی اجزا کے ساتھ ملا کر ایک فرضی ملغوبہ تیار کیا ہے جس نے ان کے نزدیک فسادات پر لکھے گئے تمام یا ’’اکثروبیشتر‘‘ افسانوں کے بنیادی خیال کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ نرم ترین الفاظ میں اسے دھاندلی کے سوا کچھ اور نہیں کہا جا سکتا۔اسی دھاندلی کو چھپانے کے لیے انھوں نے پوری احتیاط کی ہے کہ کسی افسانے کا نام نہ آنے پائے۔ ان کی شاگرد ممتاز شیریں اس کی مثال کے طورپر ڈھونڈ کر ایک ناقص افسانہ پیش کرتی ہیں، کرشن چندر کا ’’پشاور ایکسپریس‘‘۔ استاد شاگرد دونوں اس بات سے ضرور واقف ہوں گے کہ کسی نقطۂ نظر کے صحیح ترین تصور کو سمجھنے کے لیے اس کی نمائندہ اور عمدہ مثالوں کا انتخاب کرنا چاہیے۔ عسکری یہ حکم بھی لگا چکے ہیں کہ ناقص تحریروں کو بھی سامنے آنے کا حق ہے۔ کچھ بھی ہو، ہمارے ہاں جبرواستبداد، عسکری حکومتوں تک کے زمانے میں بھی، اتنا شدید کبھی نہیں ہوا کہ ناقص اور بےجان افسانے لکھنے پر ادیب کو سولی دے دی جائے۔ اگر ایسا کوئی قانون نافذ ہوتا تو سزا دینے والے کو یہ ضرور سوچنا پڑتا کہ ممتاز شیریں کو قطار میں کرشن چندر سے کتنا آگے اور عسکری کو کتنا پیچھے کھڑا کیا جائے۔
بہر حال، فسادات کے افسانوں کا یہ ’’صحیح ترین‘‘ یا ’’مقبول ترین‘‘ تصور متعین کر کے عسکری پڑھنے والے کو ایک مخصوص نتیجے تک پہنچانا چاہتے ہیں:۔
۔’’ان افسانوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ الزام دونوں میں سے کسی کو بھی نہ دیا جائے بلکہ انگریز کو ملزم گردانا جائے لہٰذا مظالم دونوں طرف یکساں دکھائے جاتے ہیں۔ اس کا لحاظ نہیں کیا جاتا کہ مشرقی پنجاب میں جو کچھ ہوا ہے اُسے بیان کرنے کے لیے تو اب لغت میں کوئی لفظ ملتا ہی نہیں‘‘۔
آخری فقرے کا دانستہ ادھورا سچ خاص طور پر قابلِ غور ہے۔ اس کے ذریعے اس بات کو تاریخ سے خارج کرنا مقصود ہے کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں بھی کچھ ہوا تھا اور اسے بیان کرنے والوں کو بھی لغت میں لفظ تلاش کرنے میں دقت پیش آ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں عسکری کی بحث اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔ فسادات کے موضوع پر لکھے گئے افسانوں کو پیشِ نظر رکھے بغیر عسکری نے ان کا جو بنیادی خیال طے کیا تھا، اس میں سے وہ نیت کا فتور برآمد کرتے ہیں اور نئی ریاست کے شہریوں اور ادیبوں کو اطلاع دیتے ہیں کہ ان کے خلاف سازش ہو رہی ہے:۔
۔”یہ افسانے محض مصنوعی ہی نہیں ہیں۔ ان کا ایک خطرناک پہلو بھی ہے۔ ان میں مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف بڑا زہریلا پروپیگنڈا ملتا ہے۔ ممکن ہے یہ سب باتیں بالکل انجان پنے میں اور معصومیت کی وجہ سے کی جاتی ہوں، مگر ان کا مجموعی اثر مسلمانوں کے خلاف ہے۔ اول تو فسادات کی ذمہ داری مسلمانوں کے سر رکھی جاتی ہے۔ دوسرے تقسیم کو بِس کی گانٹھ بتایا جاتا ہے، حالانکہ تقسیم یعنی پاکستان کا قیام مسلمانوں کا عزیزترین آدرش رہا ہے۔ ان افسانوں میں کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان کے بنیادی اصول سے بدظن کیا جائے‘‘۔
عسکری کے اس دلپذیر سازشی نظریے سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں:۔
کیا راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور احمد ندیم قاسمی مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں؟ بیدی ایک نمائندہ ترقی پسند ادیب ہیں یا نہیں؟ کیا ان کے افسانے ’’لاجونتی‘‘ کا موضوع فسادات نہیں ہے؟ کیا ’’لاجونتی‘‘ ادب کی تعریف سے خارج ہے؟ کیا ’’لاجونتی‘‘ اسی بنیادی خیال پر مبنی ہے جس کی تفصیل عسکری نے پتا نہیں کہاں سے اخذ کی ہے؟ کیا قاسمی کا ’’پرمیشر سنگھ‘‘ اور اشفاق احمد کا ’’گڈریا‘‘ متضاد سیاسی موقف دکھتے ہیں؟ کیا عصمت کے افسانے ’’جڑیں‘‘ کا موضوع ہندو اکثریت کے صوبوں سے مسلمانوں کی پاکستان کی جانب ہجرت نہیں ہے؟ کیا یہ وہی موضوع نہیں ہے جس کی گہرائیاں کھٹگالنے کے سلسلے میں انتظٓار حسین نے خود پر نوسٹیلجیا کا لیبل لگایا جانا قبول کیا؟ کیا منٹو کے افسانوں ’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’کھول دو‘‘، ’’موذیل‘‘، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ اور ’’موتری‘‘ سے برآمد ہونے والا سیاسی موقف ترقی پسندوں کے موقف سے بہت زیادہ مختلف ہے؟ کیا اپنی اپنی منفرد شخصیت رکھنے والے یہ تمام ادیب پاکستان کے قیام اور مسلمانوں کے خلاف سازش میں مشغول ہیں؟ کیا ان تمام اہم مستثنیات کے ہوتے ہوے ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں عسکری کے فیصلے کسی طرح قابلِ اعتبار ٹھہرتے ہیں؟
یہ سب بے ہودہ سوال ہیں۔
اپنے من مانے فیصلوں کی بنا پر عسکری پاکستانی ادیبوں کو یہ ہدایت جاری کرنا چاہتے ہیں: ’’ہمارے ادیبوں کی طرف سے (یعنی جو ادیب پاکستان کے حامی ہیں) اس ادبی حملے کا جواب دینے کی کوئی معقول کوشش نہیں ہوئی ہے۔ آخر تھوڑی بہت قومی خدمت وقتاً فوقتاً ہمیں بھی کر لینی چاہیے۔‘‘ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ادیب ہمارے کردار کا محاسبہ کریں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کو یہ بات ہرگز نہ بتایئں کہ اگر اس کے افراد میں ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں بربریت کا نشانہ بننے والے موجود ہیں تو ہندوؤں اور سکھوں کو بربریت کا نشانہ بنانے والے بھی موجود ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک دشوار کام ہے کہ فسادات کے بارے میں افسانہ لکھا جائے اور فسادات کے دوطرفہ ہونے کی حقیقت اس میں ذرا بھی جھلک نہ دکھائے۔
عسکری صرف ایک افسانے، قدرت اللہ شہاب کے ’’یا خدا‘‘، کا ذکر نام لے کر کرتے ہیں جو ان کے نزدیک اس ادب کی مثال ہے جو پاکستان ادیبوں کو پیدا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے، منقسم شخصیت کے اپنے نظریے کی رو سے وہ پاکستانی ادیبوں کی شہری والی شخصیت ہی سے ترقی پسندوں کے ادبی حملے کا جواب دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں ’’یا خدا‘‘ کی مثال کو جوں کا توں قبول کر لیتا ہوں اور یہ سوالات نہیں اٹھاتا کہ یہ افسانہ شہاب کی ادیب والی شخصیت نے لکھا ہے یا شہری والی شخصیت نے، اور آیا یہ واقعی اُس چیز کا جواب ہے جسے عسکری ترقی پسندوں کی جانب سے پاکستا ن پر ادبی حملہ قرار دیتے ہیں۔ میرے لیے یہ بات کافی ہے کہ عسکری نے اسے اپنے مقصدی ادب کے تصور کے مطابق پایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس افسانے کو ادب سے خارج سمجھتے ہیں۔
لیکن شہاب اور ’’یا خدا‘‘ سے متعلق پیراگراف کا خاتمہ اس عجیب وغریب جملے پر ہوتا ہے جو عسکری کے اس مضمون میں کیے ہوے فیصلوں کی عین ضد ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’اگر پاکستانی ادب کی ابتدا یہی ہے تو مجھے پاکستان میں ادب کا مستقبل بہت شان دار نظر آتا ہے۔‘‘ یہ کس طرح؟ عسکری کہہ چکے ہیں کہ (۱) فسادات کے موضوع پر جو چیز لکھی جائے گی وہ ادب نہیں ہو گی، (۲) ہمارے ادیبوں کو چاہیے کہ فی الحال ادب لکھنے کا خیال چھوڑ کر قوم کی خدمت کریں اور (۳) انھیں ایسی تحریریں تیار کرنی چاہییں جن کے ذریعے پاکستان پر ترقی پسندوں کے ادبی حملے کا جواب دیا جا سکے۔ عسکری کے نزدیک شہاب کی تحریر ان تینوں باتوں پر پوری اترتی ہے۔ پھر اس تحریر سے پاکستانی ادب کے مستقبل کے بارے میں کوئی نتیجہ کیونکر اخذ کیا جا سکتا ہے؟ کیا ’’ثانوی اہمیت رکھنے والی تحریروں کو ادب کا درجہ دے دینا‘‘ وہی غلطی نہیں ہے جو روسی ادبیوں سے سرزد ہوئی تھی جس پر عسکری نے انھیں مطعون ٹھہرایا تھا اور یہ فیصلہ صادر کیا تھا کہ ان کی مثال پاکستانی ادیبوں کے کام نہیں آ سکتی؟
عسکری نے یہ فقرہ دراصل اگلے، اور آخری، پیراگراف میں منٹو کے ذکر کے لیے فضا بنانے کی غرض سے لکھا ہے جنھیں وہ پاکستانی ادب کے شاندار مستقبل کی دوسری شہادت کے طور پر پیش کرنے والے ہیں۔ ژید اور ’’اے دسیوں دمِنوی‘‘ والے فرانسیسی ادیب عسکری کے گھر کا مال سہی، منٹو سے تو اردو پڑھنے والے واقف ہیں۔ منٹو کا نام لے کر ان کی کسی تحریر کو ادب سے خارج یا ’’ثانوی اہمیت رکھنے والی تحریر’’ قرار دینے سے تو سارا معاملہ ہی چوپٹ ہو جائے گا۔ اس لیے عسکری کو منٹو کا نام لینے سے پہلے یہ گمراہ کن فقرہ لکھنا پڑتا ہے۔ منٹو کا ذکر کرتے ہوے وہ مکمل احتیاط کرتے ہیں کہ ان کے کسی ایک بھی افسانے کا نام نہ آنے پائے۔ اب عسکری کے ذمے یہ کٹھن کام ہے کہ منٹو کے افسانوں کو ترقی پسندوں کے افسانوں سے کسی طرح مختلف ٹھہرایا جائے۔ اس کے لیے وہ ایک لاجواب دلیل دیتے ہیں: ’’در اصل یہ افسانے فسادات کے بارے میں ہیں ہی نہیں بلکہ انسان کے بارے میں ہیں۔ ان کا موضوع ہے انسان مخصوص قسم کے حالات میں‘‘۔
واہ کیا بات ہے! کیا ’’لاجونتی‘‘ ، ’’جڑیں‘‘ اور ’’ پرمیشر سنگھ‘‘ اس تعریف پر پورے نہیں اترتے؟ پھر اس تعریف کی کھوکھلی بنیاد پر منٹو کو کس طرح ان ترقی پسند ادیبوں سے مختلف قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال کیے جا سکتے ہیں، لیکن جواب کی توقع کرنا نادانی ہو گی۔
عسکری کو شکایت ہے کہ ۱۹۴۷ کے واقعات میں سے فسادات کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے والے ادیب محدود نقطۂ نظر رکھتے ہیں اور فسادات کا ذکر کرکر کے مسلمانوں کو مطعون کرنا اور انھیں پاکستان کے بنیادی اصول سے بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ کیا عسکری کے خیال سے مسلمانوں اور ان کے تازہ حاصل شدہ ملک کے خلاف ’’زہریلا پروپیگنڈا‘‘ کرنے والی تحریریں مسلمانوں ہی کو اپنے عزیزترین آدرش سے بدظن کر دیں گی جسے انھوں نے ’’اتنی قربانیاں دے کر‘‘ پایا ہے؟ یہ کس قسم کی منطق ہے؟ مسلمانوں کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈا غیرمسلموں میں تو شاید مسلمان دشمن ردِ عمل پیدا کرسکے، مسلمانوں کو خود اپنے خلاف کیونکر کر سکتا ہے؟
یا عسکری کا خیال ہے کہ مسلمان اپنے عزیزترین آدرش پر کچا ایمان رکھتے ہیں؟
سن۱۹۴۷ میں برصغیر پر انگریزوں کی براہِ راست حکمرانی کا خاتمہ ہوا اور بٹوارے کے بعد بننے والے دونوں ملکوں میں دیسی حکومتیں قائم ہوئیں۔ غیرملکی تسلط سے آزاد ہونے والے ملک کے ادیبوں کو عسکری فرانس کی سیاسی اور ادبی تاریخ کے اُس دور سے روشنی حاصل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں جب فرانس پر غیرملکی فسطائی فوجوں نے تسلط پا لیا تھا۔ اس مشورے کا کیا جواز ہے؟
دوسری جنگ عظیم میں شامل روس برطانیہ اور فرانس، جن کے سوا عسکری کو غور کرنے کے لیے بھی کوئی مثال نہیں مل سکی، ایک بنیادی بات مشترک رکھتے ہیں۔ تینوں اپنے دور کی استعماری طاقتیں تھیں جنھوں نے بالترتیب مثلاً وسطی ایشیا، برصغیر ہندوستان اور الجزائر پر بہیمانہ طور سے قبضہ کر رکھا تھا۔ اگست ۱۹۴۷ کے پاکستان کی ان استعماری طاقتوں سے کیا مماثلت ہے؟
عسکری کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنا عزیزترین آدرش پاکستان کی صورت میں حاصل ہو گیا، انھیں انگریزوں کی استعماری حکومت اور ہندوؤں کے غیرمنصفانہ غلبے سے نجات مل گئی ہے۔ مختصراً ہندوستانی مسلمانوں نے — یا کم سے کم اُن ہندوستانی مسلمانوں نے جو پاکستان کے شہری بنے — اپنی منزل پا لی ہے، انھیں آزادی حاصل ہو گئی ہے اور عسکری کے الفاظ میں، انسانی روح آزاد ہو گئی ہے۔ اگر اس مبارک موقعے پر بھی کسی بیرونی ادبی رجحان کی پیروی لازم تھی تو کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ کسی ایسے ادبی جحان کی طرف دیکھا جاتا جو کسی ملک کے غیرملکی تسلط سے آزاد ہونے کے بعد پیدا ہوا ہو؟
کیا اس سے بھی زیادہ مناسب بات یہ نہ ہوتی کہ آزاد ہونے والی قوم کو تقلید کی غرض سے غیرملکی مثالیں ڈھونڈنے کے بجاے اپنی حقیقت خود دریافت کرنے کی ترغیب دی جاتی؟
۔ختم شد۔
تیسرا حصہ
نقاد کی خدائی۔3:عسکری اور فسادات کا ادب
دوسرا حصہ
نقاد کی خدائی۔2:عسکری اور فسادات کا ادب
پہلا حصہ