امریکہ نے مسلمانوں پر روزے رکھنے کی پابندی عائد کردی

0,23467

پیر سے پوری دنیا میں رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا ہے۔دنیا بھر کے مسلمان اسے روایتی جوش و خروش کے ساتھ منارہے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک یہ ایک مقدس مہینہ ہے جس میں وہ اللہ کے لیے روزے رکھتے ہیں۔

اگر امریکہ یا کسی مغربی ملک کی طرف سے مسلمانوں پر روزے رکھنے کی پابندی لگائی جاتی تو اس وقت پوری مسلم دنیا کے ذرائع ابلاغ میں امریکہ یا مغربی ملک کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہوتا۔ مگر ایسا امریکہ نے نہیں بلکہ چین نے کیا ہے جسے مسلمان ایک پسندیدہ ملک قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ممالک اور مذہبی تنظیمیں اس پابندی پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

چینی حکومت نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں حکومتی ملازمین، طالب علموں اور بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ہے۔ کئی دیگر ممالک کی طرح چین میں بھی مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کا آغاز پیر سے ہوا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے چینی حکومت کی ویب سائٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سنکیانگ میں کچھ ریستوانوں کو کھلا رہنے کے حکم نامے بھی جاری کیے گئے ہیں۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی سرکاری طور پر لادین ہے جبکہ اس نے کئی برسوں سے بالخصوص سنکیانگ میں حکومتی ملازمین اور کم عمروں کے روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ سنکیانگ کی آبادی دس ملین ہے، جہاں ایغور مسلمان اکثریت میں ہیں۔

سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین اکثراوقات ہی جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں۔ بیجنگ حکومت کا کہنا ہے کہ اس صوبے اور ملک کے دیگر علاقوں میں حملے کرنے والے جنگجوؤں کا تعلق سنکیانگ سے ہی ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں کے خلاف ریاستی سطح پر مذہبی اور ثقافتی پابندیوں کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق سنکیانگ میں ماہ رمضان سے قبل ہی متعدد حکومتی دفاتر میں یہ نوٹس جاری کیے گئے کہ ملازمین ماہ رمضان میں روزے نہ رکھیں۔

وسطی سنکیانگ میں واقع شہر کورالا کی سرکاری ویب سائٹ پر درج ایک نوٹس کے مطابق، ’’پارٹی ممبرز، حکومتی ملازمین، طالب علم اور بچے ہرگز روزہ نہ رکھیں اور وہ کسی مذہبی سرگرمی کا حصہ بھی نہ بنیں‘‘۔

اسی نوٹس میں یہ بھی لکھا گیا کہ رمضان کے دوران کھانے پینے کے کاروبار بند نہ کیے جائیں۔ اسی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک دیگر نوٹس کے مطابق ایسے افراد کو مذہبی مقامات پر جانے سے بھی روکا جائے۔

اُرومچی میں ایجوکیشن بیورو کی ویب سائٹ پر گزشتہ ہفتے جاری کردہ ایک نوٹس میں کہا گیا کہ تمام طالب علم اور استاد نہ تو روزے رکھیں اور نہ ہی اس ماہ کے دوران وہ مسجدوں کا رخ کریں۔ اسی طرح التائی نامی شہر میں بھی بچوں کے روزے رکھنے کو روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ورلڈ ایغور کانگریس نامی جلا وطن گروہ سے وابستہ دلشاد راشد نے چینی حکومت کے ان اقدامات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’چین سمجھتا ہے کہ ایغور مسلمانوں کے اسلامی عقیدہ سے چینی قیادت کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں‘‘۔

اگرچہ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزانے کی اجازت ہے لیکن اس ملک میں مذہبی گروہوں کی سخت طریقے سے نگرانی کی جاتی ہے اور انہیں کنٹرول کیا جاتا ہے۔

چین کی طرف سے مسلمانوں پر روزے نہ رکھنے کی لگائی گئی پابندی پر پاکستانی ذرائع ابلاغ اور مذہبی جماعتیں خاموش ہیں اور کسی بھی طر ف سے مذمت کی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ لیکن اگر یہی پابندی بھارت، اسرائیل یا امریکہ لگاتا تو پوری دنیا میں ایک طوفان بدتمیزی مچاہونا تھا ۔

DW

Comments are closed.