رزاق کھٹی
شاید سال ڈیڑھ پہلے کی بات ہوگی، پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ڈنڈے کا ذکر کیا تو اسپیکر ایاز صادق نے انہیں روک دیا، کہا کہ ڈنڈا پارلیمانی لفظ نہیں ہے۔ خورشید شاہ بضد تھے کہ ڈنڈا کبھی بھی غیر پارلیمانی لفظ نہیں ہوسکتا!۔
اس وقت اسپیکر کی بات درست تھی۔ خورشید شاہ نے موجودہ حکومت پر تنقید کرنے کیلئے جس کہانی کا سہارا لیا تھا ہم اگر اس قصے کو یہاں دہرائیں تو شاید بات نہ بن پائے گی، لیکن بات کام کی تھی اس لیے اس کا ذکر خیر ضروری بھی ہے۔ خورشید شاہ نے پہلے تو اپنی حکومت کو کفن چور کہا اور پھر اس گورکن کا قصہ سنایا جو مرتے وقت اپنے بیٹے کو نصیحت کرتا ہے کہ بیٹا میرے بعد ایسا کا کرنا کہ لوگ مجھے اچھا کہیں ۔ کفن چورکے بیٹے کو تو کفن چور ہی بننا تھا، اس لیے اب باپ کے مرنے کے بعد اس کے سامنے یہ چیلنج تھا کہ وہ ایسا کیا کام کرے کہ اس کے مرحوم باپ کو لوگ اچھا کہیں ؟
خوب سوچنے کے بعد اس نے ایک فیصلہ کیا ، جو بھی نئی میت قبرستان میں تدفین کیلئے آتی وہ اس کا کفن اتارتا تھا اور اس کے بعد ایک ڈنڈا بھی مردے کے ساتھ رکھ دیتا ( اس سے زیادہ ہمارے بس میں نہیں کہ آگے لکھ سکیں) کچھ دنوں میں کفن چور کے بیٹے کی یہ حرکت لوگوں تک پہنچی تو یہ بات عام ہوگئی کہ اس کفن چور سے تو اس کا مرحوم باپ ہی اچھا آدمی تھا وہ صرف کفن چوری کرتا تھا کم سے کم ڈنڈا تو نہیں رکھتا تھا!!۔
بات جب پھیلی تو کفن چور کے بیٹے کو اطمینان ہوا کہ چلو وہ خود بدنام ہوا لیکن باپ کی نیک نامی میں اضافہ ہوا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے اس قصے کے بعد ڈنڈے کو غیر پارلیمانی لفظ قرار دیا ، اس کے بعد ہم نے کبھی قومی اسمبلی میں ڈنڈے کا ذکر نہیں سنا۔ پاکستان کی پارلیمنٹ میں اکثر اوقات یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ فلاں لفظ پارلیمانی ہے اور فلاں غیر پارلیمانی ہے، حالانکہ لفظ کوئی بھی ہو، لیکن جب آپ اسے اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں تو اس وقت آپ کا لہجہ اور نیت دیکھی جاتی ہے، آپ کس کو مخاطب ہیں۔ اس لیے اکثر اوقات ارکان کی تقاریر سے الفاظ حذف کردیئے جاتے ہیں ۔
اس طرح حال ہی میں پارلیمنٹ میں اب ٹریکٹر ٹرالی کو بھی غیر پارلیمانی لفظ قراردیا گیا ہے، لیکن اس بار اسپیکر ایاز صادق اس لفظ کے مزے اس لیے لیتے رہے کہ ان کی حکومت کے اہم رکن خواجہ آ صف نے یہ لفظ پی ٹی آئی کی خاتون رکن شیریں مزاری کیلئے کہا، شیریں مزاری نے ان کی تقریر کے دوران جب مداخلت کی تو وہ بپھر گئے اور جو منہ میں آیا کہتے گئے۔ مجھے حیرانگی اس وقت ہوئی جب اپوزیشن کی نشستوں پر موجود درجنوں خواتین بھی اس عمل پر خاموش رہیں، بلکہ شیریں مزاری کی اپنی جماعت کی خواتین ارکان بھی ایک لفظ تک نہ بولیں۔
شیریں مزاری کو تماشہ بنادیا گیا اور وہ بھی حکومت کے ایک ایسے رکن نے بنایا جو وزیر پانی و بجلی ہونے کے ساتھ ساتھ وزیر دفاع بھی ہیں۔ پی ٹی آئی کے ارکان شور کرتے رہے نو نو کے نعرے لگاتے رہے لیکن خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے جو لفظ کہے ہیں وہ اس پر معذرت بھی نہیں کریں گے۔ خواجہ آصف اور دیگر وزراء کی جانب سے پی ٹی آئی کیلئے اختیار کیا گیا رویہ سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ چند ماہ کے اندر پی ٹی آئی موجودہ حکومت کے خلاف ایک بار پھر راستوں پر ہوگی، جبکہ خواجہ آصف جس نشست سے کامیاب ہوکر آئے ہیں اس پر پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست پر بھی سپریم کورٹ میں پیش رفت ہوئی ہے۔ اس لیے یہ غصہ سمجھ میں آتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خواتین کو اس طرح ذلیل کرنا اس حکومت کے اہم رکن کو زیب دیتا ہے؟ جو یہ بھی کہے کہ پہلے مردانہ آواز کو زنانہ تو کرائیں۔ اس ملک میں اخلاقیات کے بھی عجیب تقاضے ہیں، حامی کیلئے ایک اور مخالف کیلئے دوسرا!۔
باپ کا مال !۔
کچھ دن قبل سندھ ہاؤس اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے دو سابق وزرائے خزانہ نے ایک پریس کانفرنس کی، ان وزراء میں ایک جاگیردار پس منظر رکھنے والے سید نوید قمر تھے جبکہ دوسرے شہری تاجر گھرانے سے تعلق رکھنے والے سلیم ایچ مانڈوی والا تھے۔ ان کی پریس کانفرنس کا مقصد حالیہ وفاقی بجٹ پر پارٹی کا موقف ظاہر کرنا تھا۔ پریس کانفرنس میں سوالات کے دوران ایک صحافی نے نوید قمر سے پوچھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے حصے میں کافی اضافہ ہوا ہے کیا سندھ کو سینکڑوں ارب روپے اضافے ملنے پر اس کا کوئی فرق پڑا ہے۔ سید نوید قمر نے جواب دینے کے بجائے کہا کہ اگر باپ اپنے بیٹے کو پاکٹ منی دے تو کسی کو کیا حق ہے کہ بیٹے سے اس بارے میں سوال کرے؟ ان کے اس جواب نے اسی پریس کانفرنس میں موجود ایک سندھی دل جلے صحافی نے سوال کیا کہ سندھ کو ملنے والے فنڈز آپ کو باپ کی پاکٹ منی نظر آتی ہے؟ جس پر نوید قمر دیکھتے ہی رہ گئے۔
اصل میں یہ ایک رویہ ہے، کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تعلیم بھی لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوتی ، سندھ کے ایک آکسفرڈ پلٹ جاگیردار پر بھی آکسفرڈ کی تعلیم اثر انداز نہیں ہوسکی۔ عمر گذر گئی لیکن وہ جیسے تھے ویسے ہی رہے، اس طرح کے ملک سمیت دنیا بھر میں آپ کو ان گنت لوگ ملیں گے جن کے رویوں پر ان کی تعلیم بھی اثرانداز نہیں ہوتی۔
نوید قمر بھی وزیر خزانہ تو رہے انہیں کسی صورت اس طرح کا جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ لیکن کیونکہ سندھ اور اس کے فنڈز کو وہ اپنا ہی مال سمجھتے ہیں۔( میں باپ کا مال نہیں کہتا کیونکہ گستاخی ہوجائے گی) پیپلزپارٹی کی آٹھ سالہ حکومت نے سندھ کے سیاسی کلچر کو نہ صرف تبدیل کردیا ہے بلکہ اب لاکھوں کروڑوں کی لوٹ مار کو لوگ لوٹ مار ہی نہیں سمجھتے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اینٹی کرپشن کے چیئرمین سید ممتاز شاہ جو بنیادی طور پر ایک شریف آدمی تھے معلوم نہیں ایک سال کیسے اس صوبے میں چل گئے ۔نہیں تو اس طرح کے افسران کو تو ایک ماہ بھی نہیں چلنے دیا جاتا۔
اس بار ممتاز شاہ کو اس لئے ہٹایا گیا کہ انہوں نے ایک کرپٹ افسر کو اپنے محکمے میں تعینات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ سندھ میں ایسا کون سا ادارہ باقی ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو؟ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کو ایک ایسے انتقام میں تبدیل کیا ہے جس کا شکار بھی وہی سندھ ہے جس نے اسے عزت دیکر اقتدار تک پہنچایا تھا۔ سندھ کے فنڈز کو تو جس بے دردی سے پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے لوٹا ہے اس طرح تو باپ کا مال بھی نہیں لٹایا جاتا !!۔
♠