آصف جیلانی
خود ساختہ خلیفہ البغدادی کی نام نہاد اسلامی مملکت ، دولت اسلامی ، عراق و شام ۔داعش کا سورج دو سال جس غیر معمولی سرعت سے طلوع ہوا تھا اب اسی تیزی سے غروب ہوتا نظر آتا ہے۔ گو اب تک یہ عقدہ حل نہیں ہو سکا ہے کہ عقابی نگاہ رکھنے والے امریکی سیٹیلایٹ نظام کو غچہ دے کر داعش کی سپاہ کس طرح نہایت آسانی سے شام کے شہر رقعہ پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور اس کے بعد ریگستان سے ہوتی ہوئی سرحد پار کرکے کس طرح عراقی فوجوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اربیل، موصل پر قابض ہوگئیں اور کسی منظم مزاحمت کے بغیر ، بغداد سے 30میل جنوب میں انبار صوبہ کے صدر مقام رمادی پر قبضہ کر لیا ۔
داعش کی سپاہ کی بلا روک ٹوک پیش رفت کی وجہ سے ان شکوک و شبہات نے جنم لیا تھا کہ داعش کے پیچھے در اصل امریکا، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی شہہ، حمایت اور سرپرستی کارفرما ہے جن کا مشترکہ مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور عالم اسلام میں افراتفری پھیلانا ہے اور مشرق وسطی میں اپنے اپنے مقاصد حاصل کرنے ہیں۔
لیکن جیسے کہ عصر حاضر کی مثال ہے ۔ اسامہ بن لادن نے افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران امریکیوں کی سرپرستی اور دوستی کو ٹھکرا کر بالاخر امریکیوں کو للکارہ تھا اور ہندوستان میں سکھ علیحدگی پسند رہنما بھنڈراں والے نے اندرا گاندھی کا مصالحتی دست شفقت جھٹک کر علم بغاوت بلند کیا تھا اور امرتسر کے دربار صاحب میں خونریز مورچہ لگایا تھا،اسی طرح ممکن ہے کہ داعش نے امریکا کی حمایت اور مدد کے بعد عراق اور شام میں ایک بڑا علاقہ فتح کر کے طاقت حاصل کر لی تو خود سری کی راہ اختیار کی یا پھر ہوسکتا ہے کہ امریکیوں نے جب، سر تن سے جدا کرنے اور غیر مسلم خواتین کے اغوا اور آبرو ریزی کی صورت میں ،داعش کے تشدد کا بہیمانہ انداز دیکھا اور خود یورپ کو اس کا نشانہ بنتے دیکھاتو اس سے قطع تعلق کر لیا ۔ بہرحال اس میں سچائی ہو یا نہ ہو لیکن یہ حقیقت واضح ہے کہ داعش کا سورج اب غروب ہوتا نظر آتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ حال میں داعش کے سیاہ سائے ، لیبیا ، افغانستان، پاکستان ، مصر ، الجزیرہ اور نایجیریا پر پھیلے ہیں لیکن پچھلے چند ماہ کے دوران، شام اور عراق میں داعش کو اپنے گڑھ میں پسپا ہونا پڑا ہے۔ شام میں روس کی فوجی مداخلت نے نقشہ پلٹ دیا ہے۔ داعش کو پالمیرا کے تاریخی شہر کو چھوڑ کر فرار ہونا پڑا ہے اور اب رقہ کے مرکز پر سخت دباو ہے۔ شام میں داعش اپنے زیر کنٹرول علاقہ کا دس فی صد حصہ کھو بیٹھی ہے ۔جس میں پالمیرا کے علاوہ کوبانی، تشرین اور تل ابیاد کے شہر نمایاں ہیں۔ امریکا کے پینٹاگان نے شام میں روس کی فوجی مداخلت کے نتیجہ میں داعش پر شدید دباو کا خیر مقدم کیا ہے ۔ امریکیوں کی رائے ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے خاتمہ کے لئے امریکا اور روس سیاسی حل تلاش کر سکتے ہیں لیکن پہلے ضروری ہے کہ داعش کا قلق قمع کیا جائے اور امریکا اور روس اس میں باہمی تعاون کریں ۔
ادھر عراق میں امریکا کے خاص فوجی دستوں کی مدد سے عراقی فوج اور شیعہ ملیشیا نے پانسہ پلٹ دیا ہے ۔ بغداد سے تیس میل جنوب میں انبار صوبہ کا دارالحکومت رمادی داعش کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور فلوجہ پر بھی اب داعش کا قبضہ نہیں رہا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ داعش میں صدام حسین کے گارڈز اور فوج کے افسروں کی بڑی تعداد جو داعش کی سپاہ میں شام ہوگئی تھی ، ہلاک ہوگئی ہے یا فرار ہوگئی ہے۔ ا ب عراقی فوج، شیعہ ملیشیا اور کرد پیش مرگہ کے دستے داعش کے اصل گڑھ موصل کو فتح کرنے کے لئے مشترکہ فوجی کاروائی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ فوجی ماہرین کی رائے ہے کہ موصل سے داعش کی صفائی کے بعد عراق میں داعش کا صفایا ہو جائے گا۔
گذشتہ سال سے اب تک عراق میں داعش نے اپنا 25فی صد علاقہ گنوا دیا ہے۔ یوں ایک بڑے علاقہ پر “خلافت“کے قیام کی داعش کی کوشش ناکام ہوتی نظر آتی ہے۔ اسی کے ساتھ یورپ اور دوسرے ملکوں سے داعش کی سپاہ میں شامل ہونے ولے ، جہادیوں کی تعداد میں بھی نمایاں کمی ہوگئی ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 2014میں داعش کی سپاہ میں 31500غیر ملکی جہادی شامل تھے ۔ اب اس سال یہ تعداد صرف25ہزار رہ گئی ہے۔
اب تک داعش کی یومیہ آمدنی 80ملین ڈالر تھی جس میں سے آدھی آمدنی تیل اور گیس کی اسمگلنگ سے تھی۔ یہ اسمگلنگ ترکی اور اردن کے راستہ ہوتی رہی ہے لیکن جب سے شام میں روس نے فوجی مداخلت کے بعد نشانہ ، ترکی کی سرحد پر تیل کی اسمگلنگ کو بنایا ہے جس پر ترکی سے کشیدگی بھی بھڑکی ہے ، داعش کی آمدنی میں بڑی حد تک کمی ہوئی ہے ،ویسے بھی بیجی پر قبضہ کے بعد وہاں کی تیل کی ریفائینری اب داعش کے قبضہ میں نہیں ہے جس کے بعد اس کی تیل کی رسد کم ہوگئی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ ایک بڑے عرصہ کے بعد اس سال امریکا نے عراق میں داعش کے خلاف کاروائی میں بڑے پیمانہ پر حصہ لیا ہے ۔ اب تک امریکا نے عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر 8ہزار فضائی حملے کئے ہیں جن پر گیارہ ملین ڈالر یومیہ خرچ آرہا ہے۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ اس سال عراق میں داعش کے گڑھ میں داعش کی ڈھائی ہزار سپاہ ہلاک ہوئی ہیں۔
عام توقع ہے کہ 2016، فیصلہ کن سال ثابت ہوگا اور اگر داعش کا قلع قمع نہیں تو اس کی قوت کو کاری ضرب پہنچائی جا سکے گی۔لیکن اسی کے ساتھ اس بات کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عراق اور شام میں داعش کے زیر اثر علاقوں کے خاتمہ کے بعد ، داعش چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر پھیل جائے اورجگہ جگہ خود کش حملے جاری رکھے، ممکن ہے کہ ان حملوں کا زور عراق اور شام کے بجائے یورپ میں ہو۔
پیرس، بلجیم اور لندن میں سیکوریٹی حکام کا کہنا ہے کہ شام سے یورپی جہادیوں کی یلغار کی آمد کا خطرہ ہے۔پچھلے دنوں برسلز میں متعدد جہادی گرفتار بھی کئے جا چکے ہیں۔ اس صورت میں مغرب کو جہادیوں کے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔
♣