آزاد کشمیر میں انتخابات میں کوئی نئی بات نہیں۔یہ معمول کے انتخابات ہیں جس میں عوام نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آئندہ پانچ سال تک ان پر کون لوگ حکومت کریں گے ؟ اور یہ فیصلہ کرنے کے لیے بھی عوام کو بہت زیادہ عرق ریزی کی ضرورت نہیں ہے۔ان کے سامنے کوئی نیا یا مختلف آپشن ہے ہی نہیں۔موجود سارے آپشنز بنیادی طور پرتھوڑے بہت فرق کے ساتھ ایک ہی جیسے ہیں۔ اوپر سے انتخابی اتحادوں نے عوام کا کام مزید آسان کر دیا ہے۔
ان اتحادوں کے ذریعے ایک جیسی سوچ یا ایجنڈا رکھنے والے لوگ مشترکہ امیدوار سامنے لا رہے ہیں۔ان انتخابات میں بنیادی طور پر مقابلہ بھی در اصل ایک ہی سوچ رکھنے والے لوگوں کے درمیان ہے۔دونوں بڑے انتخابی اتحادوں کا تعلق دائیں بازو سے ہے۔ ایک اتحاد میں مسلم لیگ نواز ، جموں کشمیر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ہے ۔اور دوسرے اتحاد میں تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس ہے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تو یہ بہرحال ایک بائیں بازوں کی سوشسلٹ پارٹی ضرور تھی، مگر آزاد کشمیر میں اس کی موجودہ قیادت کے سیاسی اور سماجی نظریات بائیں بازو کی طرف کم اور دائیں بازو کی طرف زیادہ نظر آتے ہیں۔اس طرح بنیادی طور پر دائیں بازو کا ہی دائیں بازو سے مقابلہ ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی انتخابی سیاست میں دائیں یا بائیں بازوں کی سیاست کا کوئی تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
یہاں انتخابات میں معاشی اور سماجی نظام پر بات نہیں ہوتی۔معاشی اور سماجی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے۔ اور ان مسائل پر بھی گفتگو ان محدود وسائل کو سامنے رکھ کر ہوتی ہے جو آزاد حکومت کو میسر ہوتے ہیں۔ یہاں اصولاً جن چیزوں پر بات ہونی چاہیے عموماً ان پر بات نہیں ہوتی۔ان مسائل پر بات کرنے سے گریز کیا جاتاہے جن کا یہاں کے عام آدمی کی زندگی سے بہت کی گہرا تعلق ہے۔ان میں پہلا بڑا اور اہم ترین مسئلہ یہاں کے وسائل کی ملکیت ہے۔ یہاں کے سیاسی لیڈر وسائل کی ملکیت کا مطالبہ نہیں کرتے۔اس کی وجہ ان کا نفسیاتی خوف ہے۔
اس خوف کی جڑیں تاریخ میں بہت گہری ہیں۔تاریخی اعتبار سے جو لوگ پاکستان میں وفاق سے اپنے وسائل مانگتے تھے ان کو غدار اور غیر محب وطن قرار دیا جاتا رہا۔چنانچہ روایتی اعتبار سے آزاد کشمیر کی لیڈرشپ نے اپنے اپ کو محب وطن اور وفادار ثابت کرنے کے لیے وفاق سے اپنے حصے کے وسائل مانگنے کے بجائے امداد یا قرض مانگنے کو ترجیح دی۔ یہ نفسیاتی ساخت قائم ہے۔ چنانچہ انتخابات میں یہ سیاسی پارٹیاں آزاد کشمیر کے اپنے وسائل کے حوالے سے کوئی واضح اور دو ٹوک موقف اپنانے سے کنی کترا جاتی ہیں۔
حالانکہ خود پاکستان کے اندر حالیہ جمہوری ادوار میں اس حوالے سے ایک بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔اور اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان کے صوبوں کو وہ مالی اور انتظامی اختیارات مل چکے ہیں جن کا مطالبہ کرنا فوجی آمریتوں کے زمانے میں غداری اور ملک دشمنی تصور کیا جاتا تھا۔ آزاد کشمیر کی لیڈر شپ اس کے باوجود اپنے نفسیاتی خوف سے نہیں نکل سکی اور ابھی تک یہ لوگ اپنے جائز وسائل کی ملکیت کے مطالبے سے گریزاں ہیں۔
چنانچہ انتخابات میں عوام کے معاشی مسائل کے حل کے وعدے تو کیے جاتے ہیں لیکن ان کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس کے لیے مطلوبہ معاشی وسائل کہاں سے، اور کیسے آئیں گے۔یہ لوگ اگر آمریتوں کے پیدا کردہ مصنوعی اور تصوارتی محب وطنی اور غداری کے فتووں کے خوف سے نکل کر سوچ سکیں تو انتخابات میں اول اور اخر موضوع گفتگوآزاد کشمیر کے معاشی وسائل کی ملکیت کا مسئلہ ہی ہے۔انتخابی امیدواروں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو شخص اپنی زمین اور اس کے وسائل کی ملکیت کا دعوی کرتا ہے وہ اس شخص سے زیادہ محب وطن ہے جو یہ وسائل دوسروں کو دیکر بدلے میں امداد اور بخشش کا طلب گار ہوتا ہے۔
آزاد کشمیر کا دوسرا بڑا مسئلہ انتظامی اور سیاسی اختیارات کا ہے۔اس مسئلے پر بھی آزادکشمیری لیڈروں کو بہت سے نفسیاتی مغالطے اور خوف لا حق ہیں۔تاریخی اعتبار سے آزاد کشمیر میں اقتدار عوامی مقبولیت یا قابلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستان سے وفاداری اور رضامندی کی بنیاد پر بھی بانٹا جاتا رہا۔ چنانچہ یہاں کے روا یتی لیڈر اپنے آپ کو پاکستانیوں سے بھی بڑا پاکستانی بننے اور ثابت کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔
چنانچہ یہ سیاسی یا انتظامی اختیارات کی بات نہیں کرتے مبادااس سے ان کی پاکستانیت میں کمی نہ آجائے۔حالانکہ یہ اختیارات ہمیشہ صرف ان عوام کا حق ہوتا ہے جو اس زمین پر رہتے ہیں۔اس میں محب الوطنی یا غداری کہاں سے آگئی۔اس طرح اخلاقی، اصولی اور منطقی طور پر آزاد کشمیر کے الیکشن میں ساری گفتگومعاشی وسائل کی ملکیت اور سیاسی اختیارات کے گرد گھومنی چاہیے۔اس کے بغیر انتخابات کی مشق محض چہروں کی تبدیلی ہے۔
♠