آئینہ سیدہ
دنیا میں کم ہی ایسے ممالک ہوں گے جنہوں نے اپنی 68سالہ مختصرسی زندگی میں اتنے بہت سے گوہر نایاب ہر شعبہ ہائے زندگی میں پائےبھی اور بدقسمتی سے ان ہی 68 برسوں میں کھو بھی دیے۔ا س زرخیز زمین نے ہمیں جناح جیسے ویژن رکھنے والے رہنما سے نوازا۔ نوزائیدہ پاکستان کو محترمہ فاطمہ جناح جیسی آزادانہ رائے رکھنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ، خودمختارخاتون سیاستدان نصیب ہوئیں۔
مگر ان دونوں بانیان پاکستان کو خفیہ ہاتھوں نے منظرسےاس طرح غائب کیا کہ وہ عمارت جس کوبنانے میں ان دونوں بہن بھائی نےاپنا خون جگر دیا اوراسکی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں انکا کردار ہی سب سے زیادہ ضروری امر تھا، ان کو را ستےسےہٹا دیا گیا اور نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے یعنی بنیادیں ہی کھوکھلی رہ گئیں۔ ان عظیم بہن اور بھائی کے بعد ہمارے نصیب میں یا تو جناح کی جیب ۔میں پڑے ” کھوٹے سکے ” تھے یا پھر وہ ہیرے جن کو اس زرخیز مٹی نے جنم دیا مگربے رحم مفاد پرست ریاست نے انہیں پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا۔
حسین شہید سہروردی جیسے لبرل وزیر اعظم ہوں یا حسن ناصر جیسےبائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ترقی پسند اسٹوڈنٹ لیڈر ۔۔۔ ریاست نے ان زرخیز ذہنوں اور نوزائیدہ مملکت کی ترقی پسند سمت مقرر کرنےوالوں کو نشان عبرت بنایا اوریوں اس مملکت کی پہلی اینٹ ہی سیاسی شعوراورپروگریسوسوچ کے خلاف رکھ دی گئی۔
حسن ناصر کو شاہی قلعے کے عقو بت خانوں میں اسی ٹارچر کے ذریعے ختم کر دیا گیا جسکے ذریعے آج ٦٨ سال بعد قمبر چاکر، آصف پنہور، آفتاب احمد جیسے جانثار پارٹی کارکنوں اور سلیم شہزاد جیسے فرض شناس صحافیو ں کو ختم کیا گیا۔
کل غاصب ایوب خان حقیقی صحافت کا گلا گھونٹ رہا تھا اور آج اسی غاصب کے لگاے ہو ئے پودے پھل دے رہے ہیں۔پی پی او سے اپنے بھیانک صحافتی سفرکا آغاز کرنے والانظام ، صحافیوں کو جیلوں میں ٹھونسنے سے لے کر انکی پیٹھوں پر کوڑے مارنے اور پھرانکی جبری گمشدگی اورمسخ شدہ لاشیں ملنے تک آج بھی جاری و ساری ہے۔
ریاست اکثر خود ہی یہ “کار ہائےنمایاں “انجام دیتی ہے کہ حیات اللہ اور سلیم شہزاد کو سچ کا سفر مکمل ہونے سے پہلے دوسرے جہاں پہنچا دیتی ہے اور کبھی یہ کارنامے اپنےذاتی اغوا کاروں سےکروانے کی بجائے اپنےکرا ئے کےگماشتوں کے ذریعے ولی بابر اورارشاد مستوئی جیسے بہادر صحافیوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کروا کرکرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج باشعور اورترقی پسند سوچ رکھنے والوں کے قاتل کھلےعام دندناتے پھر رہے ہیں اور ان کو کوئی چیلنج کرنے کوبھی تیار نہیں ۔68 برس یہ زرخیززمین باشعور ذہن پیدا کرتی رہی اوراجتماعی بدنصیبی ہےکہ ڈائین ریاست اپنےسب سے ہونہار ذہنوں کوکھا کراس مملکت کو بانجھ بنا رہی ہے۔
یہ کوئی ایک دو بار کا واقعہ نہیں نہ ہی دو چار جانوں کے جانے کا قصہ ہےیہاں تو ایک انبار ہے اموات کا ! ایک طویل فہرست ہے جوپاکستان کےہرشعبےکےترقی یافتہ ،سیاسی طورپربالغ اورآزادانہ رائےرکھنے والے باشعور افراد پرمبنی ہے ایسے افراد کومنظر سےہٹا کرریاست اور اسکے چیلوں چانٹوں نے پاکستان پر اپنی رجعت پسندانہ ،مذہبی اور سیاسی انتہا پسندانہ سوچ مسلط کر دی ہے۔
حالات یہ ہیں کہ جس ملک کواپنےقیام کے چارسال تک جرنیل فرینک والٹراورجرنیل گریسی سے” کام چلانا پڑا” تھا آج وہ 120 نیو کلئیر وارہیڈز رکھتا ہے مگر سماجی پسماندگی کا یہ حال ہے کہ انصاف نایاب ہے،تعلیم مفقود ،انسانی میعا رمیں ہم دنیا کے پسماندہ ترین ممالک کی فہرست میں بھی سب سے نیچے آتے ہیں۔
ذہنوں کو جلا دینے والی حقیقی جدو جہد میں شامل ترقی پسند ایک ایک کر کےکبھی ریاستی جبرکے ہاتھ تو کبھی ذہنی طور پر مفلوج کر کے عوامی منظر نامے سے ہٹا دیے گیے تاکہ عوام تک انکے نظریات نہ پہنچ پائیں۔
یہ “فرائض “انجام دینے کے لیےشر و ع میں تو ذہنی طورپر پسماندہ اور رجعت پسند افراد کو پرنٹ میڈیا میں سرکاری پذیرائی دی گئی اور آمریت کے 34 سالہ اندھیروں میں ایسے افراد خوب پھلے پھولے آج بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو “اینکرز ” کے نام پر دکان سجا کر آمریت کی زہریلی مٹھائی عوام میں بیچتے ہیں۔
مذہبی مافیا اور لسانی گروہ بھی اس ” کار شیطان ” میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں یوں اس ریاست کو بانجھ کرنے والے وقتا فوقتا” اپنے گماشتوں کے ہاتھوں ایسے“خودمختارجمہوری افراد” کو آنا فانا آئی پراسرار بیماری ، ڈکیتی یا کارایکسیڈنٹ میں ٹھکانے لگا تے رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا سب کچھ افراد کا کیا دھرا تھا یا پورے کے پورے ادارے اس جرم میں ملوث ہیں ؟؟ اگر ریاست کو بانجھ کرنے کا یہ گھنا ؤنا کردار افراد نے ادا کیا توکیا اداروں نےایسا کرنے والوں کا احتساب کیا ؟
کیا مصطفیٰ زیدی جیسے لبرل سرکاری افسرکے پراسرارقتل سے لےکرجوان سال کامریڈ نذیرعباسی کی کھیت سے ملی مسخ شدہ لاش کا معمہ حل کیا گیا؟؟
کیا رئیس امروہوی اورمحسن نقوی جیسے باکمال شاعروں کا فرقہ واریت کے لبادے میں کیے گیے سیاسی قتل کا پردہ چاک کیا گیا ؟ اگر نہیں، تو کیوں نہیں ؟
احمد فراز،حبیب جالب ،ابن انشاء ، ابراہیم جلیس،جوہرمیراورفیض احمد فیض جیسے ترقی پسند افرادکا ذہنی ٹارچر کرنے والے فوجداری اور سیاسی نقاب پوشوں کوکبھی بھی ضمیرکےکٹہرے میں لایا گیا؟ اگر نہیں تو…. کیوں نہیں ؟
نئی نسل کے ذہنوں میں یہ سوالا ت اٹھتے ہیں کہ قائد اعظم کی ایمبولینس کے ساتھ کیا ماجرا ہوا تھا ؟ فاطمہ جناح صاحبہ کو کیوں اپنے بھائی کی وفات پر تعزیتی تقریر تک نہ کرنے دی گئی؟ کس نے ان کو کھانے میں زہر ملا کر دیا اور کیوں دیا ؟لیاقت علی خان کے قاتل کو اگلی صفوں میں کس نے بٹھا یا ؟ قاتل کوکیوں قتل کیا گیا ؟ اس قتل کی تفتیش کے کاغذات جہاز سمیت کیوں جلا کر راکھ کر دیے گیے ؟ حسین شہید سہروردی کو کونسے کاموں کےعوض پردیس میں پراسرار موت نصیب ہوئی ؟ماسٹر پیس “آگ کا دریا ” لکھنے والی عینی آپا کیوں پاکستان کو چھوڑ کربھارت کی شہری بن گیں؟ اپنی وفات تک انہوں نےکسی کو اس بارے میں کچھ کیوں نہیں بتایا ؟
تاب لاتے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز
کیا عینی آپا کے بھارت پلٹ جانے کی وجوہات میں قلم کاروں کی فوجی حکومت کی طرف سے زباں بندی،ان کا پابند معاشرے میں خودمختاراورغیر شادی شدہ ہونا تھا یا ان کے ا علی افسر بھائی کی پراسرار موت ؟ سعادت حسن منٹو صرف42 سال کی عمر میں اس نا قدروں کی محفل سے کوچ کرگئے۔الزمات کی ایک بوچھاڑ تھی جس نے منٹو کی جان لے لی اور اس بدقسمت ملک کے باسی تلخ سچائیوں کو الفاظ کا جامہ پہنانے والے سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکے جو اٹھانا چاہیے تھا۔
قرةالعین حیدر اور منٹو کےساتھ معاشرتی سلوک یہ بتانے کے لیےکافی ہے کہ پاکستان بنتےہی مذہبی بونوں اور رجعت پسندوں نے اپنا کام شرو ع کر دیا تھا۔ ادب کی وادیوں سے سیاست کی گھاٹیوں میں آئیں تو چودھری ظفراللہ خان اور جوگندرناتھ منڈل سے عقیدے کی بنیاد پر ا متیازی سلوک کیا گیا۔ ان وقتوں میں شاید ہتھیاراتنے عام نہ تھے، نہ ہی ہتھیار چلانےوالوں کی فنڈنگ کا یہ حال تھا کہ حاضرسروس گورنر سلمان تاثیر،منسٹرشہباز بھٹی اور ایم پی اے سورن سنگھ جیسا سلوک چودھری ظفراللہ اورمحترم منڈل سے بھی کر پاتے۔
مذہبی جنونیت نے تو اس حد تک معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں کہ دنیا کا بہترین دماغ ڈاکٹر عبدالسلام کی شکل میں پاکستان کو نصیب ہوا ، لیکن جیسے ہم نے دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف ز ئی کی قدر نہ کی اور آج بھی اس بچی کو “ایکٹنگ کوئین ” کہہ کر اپنی ذہنی پسماندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی طرح ڈاکٹر سلام کو کافر و مرتد کہہ کر سوا ئے دنیا میں اپنی ہنسی اڑانے کے ہم نے کیا کیا ؟
پچھلےپندرہ ، بیس سال میں تولسانی سیاست اور مذہبی جنونیت ایک خاص منصوبے کے تحت ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ گئیں محسن نقوی جیسے بلند پایہ شا عر ہوں یا راشد رحمان، سبین محمود ، خرم ذکی اور پروین رحمان جیسے انسانی حقوق کے علمبردار،بین القوامی طور پرجانےمانےکروڑوں دلوں کے سکون کا با عث امجد صابری قوال ہوں یا فرازاحمد ولد بصیر احمد جیسے بہادر جواں سال بیٹےجو اپنے باپ کے اصولوں پر جان دے گئے، یعنی ہرایسے مضبوط ستون پرگھرکے اندر بیٹھے دشمن نے وار کیا، جو معاشرے کی اجتماعی ترقی اور امن و سکون کا با عث تھا۔
سو ایوب خان کی آمریت ہو یا یحییٰ خان کی محلاتی سازشوں پرمبنی حکومت، ضیا الحق کی اسلامی پردے میں لپٹی منافقانہ سیاست ہو یا پرویزمشرف کی“روشن خیالی ” کے اسکرپٹ میں ملبوس سا فٹ امیج کا واویلا کرتی سیاسی بےغیرتی……. ہر غاصبانہ دور میں ترقی پسند لکھاری ،اسٹوڈنٹ لیڈر،صحافی اور حتی کہ فنکارلوگ جن کا اکثر سیاست اورنظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا وہ بھی صرف اپنی مٹی سے مضبوط رشتے کی وجہ سے ان آمروں اور ان کی آمرانہ پالیسیوں کی نذر ہوگئے۔ لوک فنکاروں کوتو ایسے ادوار میں جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتا ہے تاکہ عوام کا مٹی سے تعلق ٹوٹ جائے اور وہ “قومی زبان ” کے ملبے تلے آکر اپنی انفرادی شناخت کھو بیٹھیں۔
قصہ مختصر کہ اس سر زمین کو سیاست وصحافت سے لے کر ادب اور فنون تک میں بہتری کی نہیں بلکہ پچھلےتقریبا ً68 برس میں ا بتری کی صورتحال سے دو چار ہونا پڑا ہے۔
شاعرِعوام حبیب جالبؔ نے پاکستان کے ان تمام آمرانہ ادوارکا کیا ہی خوب نقشہ کھینچا تھا:۔
خاک میں مل گئے نگینے لوگ
حکمراں ہو گئے کمینے لوگ
ہو گئے دور راہبر کیا کیا
چھِن گئے ہائے ہمسفر کیا کیا
Pingback: زرخیز زمین پر قائم ایک بانجھ ریاست ۔ آخری حصہ – Niazamana