امریکا کے شہر اورلینڈو کے ہم جنس پرستوں کے کلب میں افغان نژاد امریکی عمر متین کے ہولناک حملہ کے محرکات کے حقائق کے منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس حملہ کا داعش یا کسی اور مسلم دھشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس حملہ کی محرک، ہم جنس پرستی سے عمر متین کی نفرت اور بڑی حد تک ذہنی بیماری تھی۔
یہ حقائق سامنے آنے کے باوجود مغربی میڈیا ، اس حملہ کو مسلم دہشت گردی اور ہم جنس پرستی کے خلاف مسلمانوں کی نفرت سے منسوب کر رہا ہے اور اس میں پیش پیش ، صدارتی انتخاب میں ری پبلیکن پارٹی کے ممکنہ امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ ہیں جن کا دعوی ہے کہ انہوں نے امریکا میں مسلمانوں کے داخلہ کو ممنوع قرار دینے کاجو وعدہ کیا تھا وہ اس حملہ کے بعد حق بجانب ثابت ہوا ہے۔یہی نہیں انہوں نے صدر اوباما پر بھی وار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اوباما کو فورا اپنے عہدہ سے مستعفی ہو جانا چاہیے کیونکہ وہ مسلم دہشت گردی کی نشاندہی کرنے اور اس کی مذمت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بہر حال یہ اقتدار کی چاہت کے لئے ڈانلڈ ٹرمپ کی دیوانگی کا عالم ہے، جسے سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے۔
لیکن بلا شبہ ، صدر اوباما ، اورلینڈو کے سانحہ کے بعد سخت مخمصہ میں گرفتار ہو گئے ہیں۔ صدر اوباما جنہیں اس پر فخر ہے اور وہ اسے اپنے دور کا تاریخی ورثہ قرار دیتے ہیں کہ ان کے دور صدارت میں ہم جنس پرستی کو قانونی قبولیت بخشی گئی اور تین دہائیوں کے تحریک کے بعد ، پہلی بار امریکا میں ہم جنس پرستوں کے مابین شادیوں کی اجازت کا قانون منظور کیا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ،اورلینڈو میں ہم جنس پرستوں کے کلب پر حملہ نے ملک میں اسلحہ کے تشدد کی سنگینی اور اس پر قابو پانے میں ناکامی اور بے بسی کو اس بری طرح سے بے نقاب کردیا ہے کہ ان کا تاریخی ورثہ گہنا گیا ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ صدر اوباما کا سات سالہ دور امریکی تاریخ میں اسلحہ کے تشدد اور شوٹنگ کے حملوں کا مہلک ترین دور رہا ہے ، اورلینڈو کی شوٹنگ ان کے دور کا سولہواں حملہ تھا ۔ اب تک کسی صدر کے دور میں شوٹنگ کے اتنے زیادہ حملے نہیں ہوئے ہیں۔ خود صدر اوباما نے اعتراف کیا ہے کہ اورلینڈو کا حملہ ، امریکی تاریخ کا سب سے خونریز حملہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور ہینڈ گن اور طاقت ور اسالٹ رائفل سے لیس تھا جس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ اسکو ل میں ، عبادت گاہوں میں ، مووی تھیٹر میں یا نائٹ کلب میں شہریوں کو اتنی بڑی تعداد میں ہلاک کرنے کے لئے کتنی آسانی سے اسلحہ دستیاب ہے۔ صدر اوباما نے نہایت بے کسی کے عالم میں کہا کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کس طرح کا ملک چاہتے ہیں؟ او ر کہا کہ کیا یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم عملی طور پر کچھ نہیں کرنا چاہتے۔
صدر اوباما اس سے پہلے کئی بار کہہ چکے ہیں کہ امریکا میں اسلحہ کی فراوانی اور اس کی آزادانہ خرید و فروخت کا مسلہ، دنیا کے دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ ویسے یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ پڑوسی کینیڈا کے مقابلہ میں امریکا میں اسلحہ کا تشدد چھ گنا زیادہ ہے ، سویڈن کے مقابلہ میں سات گنا زیادہ ہے اور جرمنی سے سولہ گنا زیادہ ہے۔ تازہ ترین اعدادوشما ر کے مطابق ، امریکا میں ہر ایک سو افراد میں 88سے زیادہ افراد کے پاس اسلحہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں کسی پابندی کے بغیر اسلحہ کی فروخت کی وجہ سے امریکا میں قتل کی وارداتوں کی شرح دنیا کے دوسرے تمام ملکوں سے زیادہ ہے ۔ ہر سال 32ہزار افراد شوٹنگ سے ہلاک ہوتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ شوٹنگ کے حملوں میں استعمال ہونے والا دو تہائی اسلحہ قانونی طور پر خریدا ہوا اسلحہ تھا۔
پچھلے سات سالہ دور میں شوٹنگ سے بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے ہر سانحہ کے بعد ، صدر اوباما نے ملک میں اسلحہ کی آزادانہ خریدو فروخت پر پابندی عاید کرنے کی کوشش کی اور کانگریس سے اس بارے میں با معنی اقدامات پر زور دیا لیکن ان کی تمام کوششیں بے سود اور بری طرح سے ناکام رہیں۔
اسلحہ پر پابندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ، امریکا کے آئین کی دوسری ترمیم ہے جو 1791میں منظور ہوئی تھی جس کے تحت ہر امریکی شہری کو اسلحہ رکھنے کا حق ہے جو ناقابل تنسیخ ہے۔
اسلحہ پر کنٹرول کی مخالف لابی کے لئے یہ آئینی ترمیم سب سے بڑی ڈھال ہے۔ اسلحہ کی آزادانہ تجارت کی حامی لابی میں ایک طرف اسلحہ ساز صنعت پیش پیش ہے جو ہر سال اوسط ایک کڑوڑ ساٹھ لاکھ بندوقیں اور پستولیں تیار کرتی ہے ۔ اسلحہ ساز صنعت کے ساتھ ساتھ، نہایت با اثر تنظیم نیشنل رایفل ایسو سی ایشن ہے جس کے اراکین کی تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ ہے ۔ سیاسی اثر و رسوخ کے ساتھ اس تنظیم کی مالی قوت بھی غیر معمولی ہے۔ اس کی آمدنی 35کروڑ ڈالر سالانہ ہے ۔ امریکی کانگریس میں این آر اے کو بڑی تعداد میں اراکین کی حمایت حاصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلحہ پر کنٹرول کاقانون پیش کرنے کی کوئی کوشش اب تک کامیاب ثابت نہیں ہو سکی ہے۔
سن ساٹھ کے عشرہ میں جب جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوا تھا تو اسلحہ پر کنٹرول کی تحریک اٹھی تھی ۔ اس وقت امکان تھا کہ حکومت کو تمام نجی اسلحہ ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا ، لیکن این آر اے نے اسلحہ کی صنعت کے ساتھ مل کر اتنی شدت سے مخالفت کی کہ اسلحہ پر کنٹرول کی کوشش کامیاب ثابت نہ ہوسکی۔ جب سے اسلحہ کی صنعت اور این آر اے ، اسلحہ پر کنٹرول کے خلاف نا قابل عبور فصیل بن کر کھڑی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں اسلحہ کی فراوانی کے سامنے ، صدر اوباما بے بس اور بے کس ہیں۔
♠
2 Comments