منیر سامیؔ۔ ٹورنٹو
گزشتہ ہفتہ پاکستان میں پھر ایک قضیہ کھڑا ہو ا۔ اطلاعات کے مطابق وہاں آج ؔٹی وی پر گفتگو کے ایک میزبان حمزہ ؔعباسی نے رمضان کے ایک خصوصی پروگرام میں مدعو کردہ تین مسلم علما سے احمدی مسئلہ کو مدِّ نظر رکھ کر یہ سوال پوچھ لیا کہ کیا کوئی ریاست کسی کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟آزادی اظہار کا ہر عمل پرست یہ سوال کرنے کے بنیادی حق کی حمایت کرے گا، چاہے یہ سوال رمضان میں کیا جائے یا کسی اور دن۔
لیکن اگر یہ سوال سیاق و سباق کے مکمل علم ، اور ایک مذہبی اور سیکولر ریاست کا فرق بیان کیے بغیر کیا جائے، تو پھر پاکستان جیسے ملک میں جو اپنے آئین کے لحاظ سے ایک اسلامی ملک ہے، اور جہاں آزادی اظہار پر بھی سخت قدغنیں ہیں ، نہایت سنگین مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ یہ سوال کرنے والے حمزہؔ عباسی کے اپنے سیاسی خیالات کیا ہیں، کیا وہ آزادی اظہار کی جدو جہد کے لیے سنجیدہ ہیں، یا ان کا رمضان کا پروگرام اور اس میں بے ترتیب اور غیردانش مندانہ سوالات صرف اس سستی کاروباری مقبولیت کے مقابلہ کا حصہ ہیں، جو پاکستان میں ٹی وی مالکان نے چلا رکھا ہے۔ اس پر آئندہ سطور میں بات کرتے ہیں۔
حمزہ ؔعباسی نے یہ سوال اپنے مہمانوں سے اچانک پوچھ لیا تھا۔ جس پر ہر عالم کی رائے یہی تھی کہ اسلام کے قواعد اور شریعت کے تحت علما اتفاق رائے سے یا کسی رائے کے تحت یہ قرار دے سکتے ہیں کہ کوئی شخص دائرہ اسلام میں شامل ہے یا نہیں، اوریہ کہ علما کی رائے کو نافذ کرنا ریاست کا کام ہے۔ ہر وہ شخص جو ریاست اور مذہب کو الگ رکھنے کے نظام کا خواہاں ہے کبھی بھی اس رائے سے اتفاق نہیں کرے گا۔
اس پروگرام کے بعد وہی ہوا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہوتا ہے، اورجہاں توہینِ مذہب اور ختمِ نبوت کے بارے میں سخت ترین قوانین ہیں۔ یہاں یہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ پاکستان کے آیئن میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے۔ اور آیئن میں احمدی ترامیم سے کہیں پہلے توہینِ مذہب کے قوانین موجود ہیں۔ ایسی صورت میں حمزہ عباسی کے کیے گئے سوالات پر قضیہ کھڑا ہونا لازم تھا۔
اس پروگرام کے فوراً ہی بعد حمزہ عباسی کے مخالف ٹی وی پر میزبان شبیر ابو طالب ؔ نے یہ سوال انتہائی شدت پسند مولوی ، کوکب ؔ نورانی کے سامنے یہ کہہ کر رکھ دیا کہ کیا پاکستان میں کسی بھی ٹی وی یا اس کے میزبان کو اس قسم کے سوال کا حق ہے۔ شدت پرست کوکب نورانی کا تعلق پاکستان میں تحریکِ ختمِ نبوت سے ہے جو جماعت ِ احمدیہ کی شدید ترین مخالف ہے۔ انہوں نے فوراً ہی جذباتی طور پر یہ غل مچا دیا کہ ہم توہینِ مذہب اور رسالت پر جان دے دیں گے۔ اور اگر ریاست نے اس معاملہ پر حمزہ عباسی کو سزا نہیں دی تو عاشقانِ رسول کو حق ہے کہ وہ معاملہ اپنے ہاتھ میں لے کر حمزہ عباسی کو قتل تک کر سکتے ہیں۔
ان دونوں پروگراموں کا معاملہ آناً فاناً میں اتنا متنازعہ ہو گیا کہ پاکستان میں الیکٹرونک میڈیا کے نگراں ادار ے پیمر ا نے دونوں پروگراموں پر فوراً پابندی لگادی۔ اور بعد کی ایک کاروائی میں یہ فیصلہ کیا کہ اگر ان دونوں پروگراموں سے متعلق ٹی وی مالکان معافی مانگ لیں تو وہ یہ پروگرام چلاسکتے ہیں اور ان میزبانوں کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق ان مالکان نے معافی مانگ لی ہے، اور شاید دونوں ہی اپنے ان میزبانوں سے یہ پروگرام نہ کروائیں۔
پاکستان میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے عمل پرست اس معاملہ پر سخت آزردہ ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں انسانی حقوق روز ہی پامال ہوتے ہیں ، جہاںآ ٓزادی اظہار پر سخت ترین پابندیاں ہیں ، اور جس میں صحافیوں کا اور انسانی حقوق کے عمل پرستوں کا قتل عام واقعہ ہے، ہر نیک دل اور پر خلوص عمل پرست انسانی آزادی کی جدو جہد اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر کرتا ہے۔ حمزہ عباسی کے معاملہ میں بھی یہ عمل پرست صدقِ دل سے اس کی حمایت میں اٹھے ، اس بحث کے بغیر کے خود اس کے اپنے خیالات، آزادی اظہار اور سیکولرزم وغیرہ کے بارے میں کیا ہیں۔
ہماری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ حمزہ عباسی نہ تو آزادئ اظہا ر کے عمل پرست ہیں، اور نہ ہی ریاست اور مذہب کو الگ رکھنے کے بارے میں کوئی مربوط رائے رکھتے ہیں۔ بلکہ ان کے بیانات سے پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں، وہاں کی افواج، اور کئی معروف جہادیوں کی حمایت واضح ہے۔ اس کے ساتھ وہ حقوقِ نسواں کی عمل پرستوں، سائنسی فکر رکھنے والوں اور سیکولر لوگوں کا مضحکہ اڑاتے رہے ہیں۔ ٹوئٹر پر ان کی پاکستان کے معروف شدت پرست زیدؔ حامد سے مکالمات واضح کرتے ہیں کہ وہ اپنے پروگرام میں احمدیوں کی حمایت خلوصِ نیت سے نہیں کر رہے تھے۔
اپنی ایک ٹوئٹ(20 جون) میں زید حامد نے اس طرح لکھا کہ، ’’احمدیوں پر ظلم صرف ایک شور شرابہ ہے، وہ پاکستان میں بہترین زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔۔اس کے جواب میں حمزہ نے فوراً لکھا کہ ’’اگر ایسا ہے تو یہ ہمیں سب کو دکھانا چاہیئے تاکہ ہم (احمدیوں) کی مظلومیت کی دلیل رد کر سکیں‘‘۔پھر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ہم اس قسم کے بیانات سے دشمنوں کو بہانے کیوں فراہم کرتے ہیں‘۔۔اس ہی سلسلہ میں آگے جاکر ، زیدؔ حامد نے کہا کہ، ’حمزہ عباسی، ایک محبِ وطن، پاک دل ، اچھا مسلمان ہے ‘۔ یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا ایک نہایت شدت پرست زیدؔ حامد یہی سند پاکستان کے دوسرے عمل پرستوں مثلاً، پرویز ہود بھائی، سبین محمود، یا پروین رحمان ، اور ملالہ یوسف زئی کے بارے میں دے سکتے ہیں۔
دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں آزادئ اظہار اور انسانی حقوق کی پامالی، پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں، اور وہاں کے فوجی ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ حمزہ عباسی نے بیانات کے ایک سلسلہ میں پاکستان کی معروف انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کے حق میں حمایت کا سلسلہ چلایا۔ ایک بیان میں انہوں نے اس طرح کہا کہ۔’’بھارت بلوچستان میں مداخلت کیوں کر رہا ہے۔۔۔آئی ایس آئی ، پوری صلاحیت سے بھارتی جاسوسی ایجنسی کا مقابلہ کرے ، ہمیں آئی ایس آئی کی پوری طرح حمایت کرنا چاہیے اور اس کے بارے میں ٹوئٹر پر #ISupportISI کا پیغام پھیلانا چاہیے‘‘ ( حمزہ عباسی ٹوئٹ ٤٢ِ مارچ)۔۔
یہاں یہ ذکر بھی دلچسپ ہو گا کہ وہ پاکستانی فوج کے ادارہ تعلقات عامہ کے تحت بنائی گئی فلم Glorious Resolve میں بھی کام کر چکے ہیں۔
مذہب اور ریاست کی علیحدگی کے بارے میں ان کا ایک تفصیلی بیان غور طلب ہے جس میں انہوں نے کہا، ’’مغرب میں سیکولر ازم اس لیے آیا تھا کہ وہاں ریاست میں مذہب کے عمل دخل کا تجربہ بھیانک رہا تھا۔ ریاست میں مذہب (اسلام) کی شمولیت کے سلسلہ میں ہمارا تجربہ شاندار رہا ہے۔ اسلام نے ہمیں متحد کیا، اور ایک ہزار سال تک اس نے ہماری معیشت، سائنس، اور ثقافت میں شاندا ر رہنمائی کی۔ ہمارا زوال جب شروع ہوا جب ہم نے اسلامی نظریہ کو ترک کیا اور مغربی سیکولر نظام نافذ کرنا شروع کیے۔ تو کیا ہم سیکولر ام صرف اس لیے چاہتے ہیں کہ مذہب کے بارے میں مغرب کا تجربہ خراب تھا؟‘‘ (حمزہ عباسی ٹوئٹ۔۔٤٢ِ فروری)۔
اپنی ایک اور ٹوئٹ( ١٢ِ فروری) میں وہ ڈارون کے نظریہ ارتقا اور قرآنی نظریاتِ تخلیق میں مکمل ہم آہنگی پاتے ہیں۔ ان کی اس منطق کا جواب تو پرویز ہودبھائیؔ ہی دے سکتے ہیں۔ ہم تو ان کی اس دلیل میں امریکہ کے عیسائی مذہبی شدت پرستوں کا عکس دیکھ رہے ہیں۔
ہم اپنی معروضیت کی مجبوری پر حمزہ عباسی کی رائے کی آزادی کا احترام کرتے ہیں۔لیکن وہ خود، آزادی اظہار، سائنس، سیکولرزم اور خود احمدیت کے بارے میں کتنے روشن خیال ہیں اس کا اندازہ شاید آپ کو اوپر کی سطور سے کچھ کچھ ہو گیا ہوگا۔ باقی تحقیق آپ خود کرلیں۔
♠
3 Comments