جب سے دنیا بھر میں مسلمان بنیاد پرستوں نے حجاب کو سیاسی ایشو بنا کر حجاب اوڑھنے کی مہم شروع کی ہے تو اسے دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے فیشن ڈیزائنرز نے بھی اس مہم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حجاب کے نت نئے ڈیزائن متعارف کرا دیئے ہیں۔
مغربی ممالک کی متعدد کمپنیاں روایتی اسلامی ملبوسات بنا کر آج کل مختلف تجربےکر رہی ہیں۔ ڈیزائنرز کی دنیا میں حجاب کافی شہرت پاتا جا رہا
ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کاروبار سے حجاب کا اصل مقصد فوت ہو جائے گا؟
ملبوسات کے مغربی برانڈز کی جانب سے خواتین کے لیے اسلامی حجاب یا عبایا کو اب فیشن ایبل ہیڈ اسکارفس کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں معروف اطالوی ڈیزائنر ڈولچے اينڈ گبانا بھی پیش پیش ہيں۔ سویڈش کمپنی ایچ اینڈ ایم کی پاکستانی اور مراکشی نژاد ایک برطانوی نوجوان لڑکی ماریا ادریسی ایک اسلامی ماڈل کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہو چکی ہے۔
مینگو نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ماہ رمضان کے لیے خصوصی ملبوسات متعارف کرائے ہیں۔ اسی طرح ’ڈی کے این وائی‘ نے بھی اسلامی طرز کی ملبوسات پر توجہ دینی شروع کر دی ہے جبکہ مارک اینڈ اسپینسر اپنی مسلم خواتین صارفین کے لیے بُرکینی فروخت کر رہی ہے۔ اس کے ذریعے جسم کو مکمل طور پر ڈھک کر سوئمنگ کی جا سکتی ہے۔
جرمن فیشن ڈیزائنر وولفگانگ یوپ ایرانی دارالحکومت تہران میں اپنی ایک دکان کھولنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں اسلامی لباس خواتین کی آزادی کا عکاس ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، ’’ میرے لیے مشرقی لباس، ثقافت اور اِن کا انداز انتہائی پرسرار اور جنسی حوالے سے بہت پر کشش ہے۔‘‘۔
ایچ اینڈ ایم کی ماڈل ماریا ادریسی کے مطابق، ’’وہ قرآن پر ایمان رکھتی ہیں۔ تمام مردوں اور عورتوں کو پردہ کرنا چاہیے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہيں کہ ان کے خیال میں حجاب کو نارمل ہونا چاہیے۔ ماریا کے بقول اس مقصد کے لیے حجاب کا پر کشش دکھائی دینا بھی ضروری ہے۔
ڈیزائنرز کی جانب سے جدید مسلم خواتین کو فیشن ایبل اسکارفس کی پیشکش بہت ہی پرکشش ہے۔ ایسے اسکارفس کا یہ فائدہ ہو گا کہ سر ڈھانپنے کے رجحان کو مغربی دنیا کے لیے قابل قبول بنایا جا سکے گا تاہم اس فائدے کے لیے کچھ قیمت بھی چکانا پڑے گی۔ ان جدید اسکارفس کا بنیادی مقصد یہ ہو گا کہ خواتین زیادہ جاذب نظر اور خوبصورت نظر آئیں حالانکہ یہ چیز اُن بنیادی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، جن میں حجاب کا اصل مقصد قدرتی حسن کو چھپانا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آنے والے دور میں حجاب واقعی مغربی طرز زندگی کا ایک حصہ بن جائے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو گا، جب حجاب کے جمالیاتی پہلو کو زیادہ نمایاں کیا جائے گا۔
DW