عظمٰی اوشو
سنہ1990کا سال تھا جب ضیاالحق کے شریعتی پودے نے اپنی جڑیں انتہائی مضبوطی کے ساتھ سماج میں گاڑھ دی تھیں، اْس وقت پاکستان کی سپریم کورٹ میں اْ س وقت کے چیف جسٹس افضل ظلہ کی سربراہی میں ایک فیصلہ دیا گیا ۔ جس کے بعد ملک میں قصاص اور دیت کا قانون نافذ ہو گیا ۔
اْس کے بعد پاکستان میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایسی خبریں سامنے آتی گئیں کہ کہیں باپ نے تو کہیں بھائی نے تو کبھی شوہر نے اور اب تو ماں نے بھی غیرت کی بھٹی کی نذر ایک ہنستی مسکراتی زندگی تمام کردی ، عورت چپ چاپ غیرت مندوں کی دہکائی ہوئی غیرت کی آگ کا ایندھن بنتی چلی جا رہی ہے ۔
اب اس ایندھن کا نام کوئی بھی رکھ لیں ۔ امبرین ، ماریہ ، عظمیٰ ، زینت اس سے کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ میرے سماج میں مرد ، میرے بھائی میرے چاچے مامے سب یہی تو چاہتے ہیں کہ اْن کی غیرت کا دھکتا الاؤ سرد نہ پڑ جائے، اْن کاشملہ اونچا رہے۔ اْس کے لیے بیٹی یا بہن کو کفن بھی پہنانا پڑے تو کوئی بات نہیں کیونکہ میرے سماج میں تو بیٹی یا بہن ہونے کا مقصد ہی یہ ہے کہ مجھے اپنے خاندان کے مردوں کی غیرت پر قربان ہونا ہے۔
اْس کے دو راستے ہیں اگر میں سانس لینا چاہتی ہوں تو اْن کی مرضی سے لائے ہوئے مرد کے ساتھ چپ چاپ زندگی گزاروں جسے میں شادی سے پہلے تک جانتی نہیں تھی اور وہ مجھے نہیں جانتا تھا وہ تو شاید جاننابھی نہیں چاہتاتھا میں کیا سوچتی ہوں میں کیا چاہتی ہوں میرا کیا نظریہ ہے اس سے اْسے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے بس چپ چاپ مجھے اس کے ساتھ نباہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ ایک اجنبی کے ساتھ زندگی کا سفر۔
میری طرح ہر لڑکی کو یاد ہوگا ہمیں بچپن میں کہا جاتا تھا کسی اجنبی سے کوئی چیز لے کر نہیں کھانا کسی اجنبی کی بات نہیں سننی اور تو اور میرے خاندان میں تو اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ اگر زمین بھی بیچنی ہو تو ایسے بند ے کو دی جائے جس سے ہمارے مزاج ملتے ہوں کیوں کہ بھائی بنے کے ساتھ بنا ہے اور اختلاف ہی نہ بنا رہے مگر بیٹی اور بہن کو بیاہتے ہوئے تو اْن کے سارے خیالات ہی بدل جاتے ہیں۔
اب اگر میرے سماج میں کوئی بہن اور بیٹی خاندان کے فیصلوں سے اختلاف کرے تو پھر جینے کا حق کھودے گی کیونکہ اْس نے تو خاندان کے مردوں کی غیرت کو للکاراہے یہ تو ناقابل معافی جرم ہیں جس کی سزا یا عمر قید ہے یا موت ۔اس لیے تو پھر روز ایسی خبریں سامنے آتی ہیں لڑکی کو غیرت کے نام پر زندہ جلادیا گیا ، کوئی ماردی گئی مگر چلو میں اْن خوش نصیبوں میں سے ہوں جس کے علاقہ یا خاندان میں زھردے کر ماراجاتا ہے جلا کر نہیں اور اب تک کوئی درجن بھر لڑکیاں اس کے نظر ہو چکی ہیں۔
کہا جاتا ہے اچھی خاصی سوئی تھی صبح اْٹھی نہیں، دیکھا تو مردہ تھی پوچھنے والا کوئی نہیں پوچھے تو کو ن پوچھے یہ تو خاندان کا مشترکہ فیصلہ ہوتا ہے کہ لڑکی کو کیسے جینا ہے یا کیسے مرنا ہے ۔ہر قتل کے بعد کچھ تقریریں ہوتی ہیں کچھ لوگ سوشل میڈیا پر شورمچاتے ہیں مگر یہ بھی بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ ز یا دہ تعداد میں وہ ہیں جوچپ سادھ لیتے ہیں۔
جب کوئی یہ مطالبہ کر ے کہ غیر ت کے نام پر ہونے والے قتل پر باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے غیرت میں آکر قتل کرنا بھی جرم ہے اسے جرم کہا جائے اس پر قصاص اور دیت کے قانون لاگو نہ کیے جائیں تو اسلامی حلقے شورمچادیتے ہیں کہ اسلام خطرے میں پڑ گیا ہے ۔جنرل ضیاالحق نے پاکستان کے قوانین کو بدلنے کے لیے ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دیا ہے جو ابھی تک اپنی پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے اور اس کا تحفظ کرنے والے بھی موجود ہیں ۔پاکستانی پالیمنٹ نے عدالتوں کے حکم پر دیت کا قانون منظورکیا جو اب تک موجود ہے۔
قصاص دیت کے قانون کو ملک میں نافذ کرکے قتل کے جرم کی ہیت ہی تبدیل کردی گئی ہے ۔ اس قانون سے پہلے پاکستان میں کسی شہری کا قتل ریاست کے خلاف جرم تھا لیکن اب وہ فرد کے خلاف جرم ہے یعنی یہ قتل کا جرم پبلک سے پرائیویٹ کردیا گیا ۔غیرت کے نام پر تو قتل ہمیشیہ خاندان کے افراد ہی کرتے ہیں اور پھر اسی خاندان میں مقتولہ کے ولی موجود ہوتے ہیں جو قاتل کو معاف کرسکتے ہیں ۔
اس قانون کی موجودگی میں خاندان کے اندر قتل عملا کوئی جرم ہی نہیں ہے اس قانون کے نفاد کے بعد پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ خاندان کے مرد بلا خو ف قتل کرتے ہیں اور پھر کوئی دوسرا وارث معاف کردیتا ہے قصہ ختم ۔یہ اْس صورت میں ہے جب قتل رپورٹ ہو۔زیادہ تعداد میں ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے ۔
جب تک اس قانون میں تبدیلی نہیں کی جاتی اور عورتیں جلتی ر ہیں گی مرتی رہیں گی۔ ریاست اس معاملے میں بالکل خاموش ہے ۔ ایک آدھ واقعہ میں ایکشن لینے سے یہ بیماری ختم نہیں ہوگی۔ اس کے لیے سخت سزائیں اور سماج کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے ۔اگر ایک لڑکی اپنی مرضی سے اپنا جیون ساتھی چن لیتی ہے تو اس سے خاندان کی غیرت اور عزت کو کوئی زد نہیں پہنچتی۔
یہ بات معاشرے کو سمجھانے کی ضرورت ہے اگر خاندان کا بیٹا اپنی مرضی اور اپنا پسند کا ظہار کھل کر کرتا ہے تو اْس سے خاندان کی غیرت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا مگر یہی کام خاندان کی لڑکی کرے تو ماردی جاتی ہے۔ کیونکہ ملک کے قانون نے عورت کو یہ اختیار ہی نہیں دیا کہ وہ اپنی مرضی سے جی سکتی ہے ۔عورتوں کو یہ حق اب سماج سے ریاست سے مانگنا ہوگا یا چھیننا ہوگا ۔
One Comment