اب کے برس داتا صاحب ؒ کے عرس سے ہم آئے تھے کہ ایک بزرگ نے دو ٹوک سوال کیا کہ عرس میں آئے ہو مگر کبھی ’’کشف المحجوب‘‘ بھی پڑھی ہے۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ اس طرح نہیں پڑھی جس طرح پڑھنے کا حق ہے۔
وہ بزرگ ہم پر مہربان تھے بولے کہ لو تمہیں ہم کشف المحجوب کا ایک ترجمہ دیتے ہیں اسے ذرا پڑھنا اور انصاف کرنا۔ اس ترجمہ کو ہم نے پڑھنا شروع کیا تو ہماری آنکھیں کھل گئیں۔ ہمارے زمانے میں مترجموں میں ایک نیا رجحان یہ پیدا ہوا ہے کہ وہ دخل درمعقولات کرتے ہیں۔ مصنف کے بیان کا ترجمہ کرنے پر قناعت نہیں کرتے بلکہ بیچ بیچ میں بولتے جاتے ہیں۔ خواہ غلط ہی بولیں۔ مگر یہ ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سلوک داتا صاحبؒ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
ہم یہ ترجمہ پڑھتے جاتے تھے اور سوچتے جاتے تھے کہ یا اللہ ہم نے کشف المحجوب آگے بھی پڑھی ہے۔ بیان بدلا بدلا کیوں ہے۔ وہ بصیرت افروز باتیں جو ہم نے آگے اس باب میں پڑھی تھیں وہ کہاں گئیں۔ اور یہ نئے نئے بیان اس میں کب اور کیسے شامل ہوگئے۔
جب ہم نے اس ترجمہ کا دیباچہ پڑھا تب ہم پر حقیقت حال روشن ہوئی۔ مترجم میاں طفیل محمد ہیں، دیباچہ میں تحریر فرماتے ہیں۔
۔’’ میں نے پوری کوشش کی ہے کہ مصنف بزرگوار کی استفادہ عام کی کوئی بات رہ نہ جائے اور نہ کوئی بات اپنے اصل مفہوم سے ہٹنے پائے۔ البتہ خاص فلسفیانہ بحثوں اور مسائل کی صوفیانہ توجیہات کو میں نے چھوڑ دیا ہے جو پرانے اسلوب نگارش کا حصہ تو ہیں لیکن اصل مضمون اور مقصودبیان سے ان کا کوئی خاص تعلق نہیں ۔ ان کے بجائے تین چیزوں کا میں نے اضافہ کیا ہے۔ ایک یہ کہ ان آیات اور حتی الامکان احادیث کے بھی حوالے دیدئیے ہیں جن کو حضرت علی ہجویریؒ نے اپنی بات کے ثبوت اور وضاحت میں پیش فرمایا ہے۔ دوسرے جہاں مجھے ان آیا ت واحادیث اور اقوال کے علاوہ اسی مضمون کی کوئی اور آیات حدیث یا قول ملے ہیں تو انھیں بھی میں نے شامل کردیا ہے تاکہ اصل مضمون زیادہ سے زیادہ خوبی اور مضبوط دلائل کے ساتھ ادا ہوجائے‘‘۔
اس بیان کی روشنی میں میاں طفیل محمد صاحب کی میناکاری کی چند مثالیں ملا حظہ فرمائیے۔ شروع کتاب میں داتا صاحبؒ نے بتایا ہے‘ کہ انھوں نے استخارہ کیا اور اس کے بعد اس کتاب کا آغاز کیا۔ پھر انہوں نے استخار ے کے باب میں کچھ باتیں کہی ہیں۔ میاں طفیل محمد صاحب نے اس پورے بیان میں اس طور کتربیونت کی ہے کہ استخارے کا تذکرہ یکسرغائب ہوگیا۔ مگر جو باتیں انھوں نے کہی ہیں وہ تو سب استخارے کی بحث میں کہی ہیں۔ اس لئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس پورے بیان کے ساتھ میاں طفیل محمد کو کیا سلوک کرنا پڑا ہوگا۔
کشف المحجواب کے مختلف مباحث میں میاں طفیل محمد صاحب نے داتا صاحبؒ کے بیان کو ناکافی سمجھا اور اپنی طرف سے اس میں اضافے کئے مگر ایسے بیان بھی ہیں جنہیں انہوں نے کافی سے زیادہ سمجھا اور اس میں تخفیف کرتے چلے گئے۔ مثلاً جس بیان میں ایک حدیث درج کی گئی ہے، اس میں دو تین اور احادیث درج کردی گئیں اور اپنی طرف سے کچھ عبارت بھی شامل کردی گئی مگر کسی بیان میں اگر چار حدیثیں درج نظر آئیں تو اس میں سے تین حذف کردیں ۔ اور ایک رہنے دی۔ مثلاً ایک باب میں چپ رہنے اور بولنے کے آداب سے متعلق ہے ۔
میاں طفیل محمد احادیث کو اور مختلف صوفیا کے اقوال کو جو اس میں درج تھے حذف کرتے چلے گئے ہیں۔ اور داتا صاحبؒ کے بیان میں بھی اچھا خاصا تغیروتبدل کیا ہے۔ حالانکہ یہ ایسا باب ہے کہ خود میاں طفیل محمد اس کے مطالعہ سے چپ رہنے اور بولنے کے بہت سے قیمتی آداب سیکھ سکتے تھے۔
اسی باب میں داتا صاحبؒ نے یہ فرمارکھا ہے کہ’’مرید کو چاہئے کہ رہنماؤں کے کلام میں دخل نہ دے اور اس میں کچھ تصرف نہ کرے اور پریشان اور اُوپری عبارت استعمال نہ کرے‘‘۔ میاں طفیل محمد صاحب نے کم ازکم اس بیان کو خدف نہیں کیا ہے مگر اس پر دھیان بھی نہیں دیا۔ انھوں نے شیخ علی ہجویریؒ کے کلام میں دخل بھی دیا ہے۔ اور اس میں تصرف بھی کیا۔ اور اس میں پریشان اور اوپری عبارت بھی داخل کی ہے۔
پس زیر بحث ترجمہ کا متن مترجم کی اس روش کے باعث ناقابل اعتبار ہوگیا ہے۔ اس میں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کتنی بات داتا صاحبؒ نے کہی ہے اور کتنی بات اس میں میاں صاحب نے شامل کردی ہے۔ اپنی طرف سے تو میاں صاحب نے داتا صاحب ؒ پر احسان ہی کیا ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں داتا صاحبؒ جابجا مضمون کو خوبی اور مضبوط دلائل کے ساتھ ادا نہیں کرسکے ہیں پس انہوں نے داتا صاحبؒ کو سہارا دیا ہے۔ اور ان کے کمزور بیان کو مضبوط بنایا ہے۔
میاں طفیل محمد کو یہ زعم مبارک رہے۔ مگر پڑھے لکھے آدمی ہوکر انہیں اتنی معمولی بات تو معلوم ہونی چاہئے کہ کسی مصنف کے بیان پر اگر کوئی اعتراض مقصود ہویا اس میں تصحیح یا اضافے کی ضرورت محسوس کی جائے تو وہ حاشیے میں کی جاتی ہے ۔مصنف کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جاتا جو سکول ماسٹر طلبا کی کاپیوں کے ساتھ کرتا ہے۔کہ اس کی عبارت میں کاٹ پیٹ کرتے چلے گئے۔ جہاں جی چاہا فقرہ کاٹ دیا۔ جہاں جی چاہا فقرے اضافہ کردئے۔ علمی دنیا میں اسے امانت میں خیانت کہتے ہیں۔
(ہفت روزہ الفتح، ۶تا۱۳ مئی ۱۹۷۱)
3 Comments