شادابمرتضیٰ
گزشتہ مہینے آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ جدید لبرل ازم کی پالیسی، آزاد منڈی کی معیشت سے، عالمی سطح پر معاشرتی ناہمواری بڑھ رہی ہے اور ترقی رک رہی ہے۔
کیا یہ بات درست ہے کہ منڈی کی معیشت (سرمایہ دارانہ معیشت) کو اپنایا جائے تو معیشت ترقی کرتی ہے۔ لیکن اگر ریاست (خصوصا سوشلسٹ ریاست) مارکیٹ میں طلب و رسد کو اور قیمتوں کو کنٹرول کرے تو معیشت میں بحران آجاتا ہے؟
اگر یہ بات درست ہے تو امریکہ کی منڈی کی معیشت میں 2008ء کا اقتصادی بحران کیوں آیا؟ اسی طرح 1930ء کا عالمی اقتصادی بحران منڈی کی معیشت میں کیوں آیا؟ منڈی کی معیشت میں اقتصادی بحرانوں کے سلسلے کی کیا وجوہات ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ منڈی کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ہوس میں یہ لوگ زیادہ سے زیادہ پیداوار کرتے ہیں اور اشیاء کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کرتے ہیں جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔
نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غربت، بیروزگاری اور محنت کش عوام کی گرتی ہوئی قوتِ خرید کی وجہ سے اشیاء مارکیٹ میں فروخت نہیں ہو پاتیں اور بحران آجاتا ہے. ہر سال لاکھوں ٹن اناج اور دیگر اشیاء کو تلف کرنا پڑتا ہے۔
اس بحران پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ پیداوار میں اور طلب و رسد میں توازن پیدا کیا جائے اور قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے. لیکن چونکہ اس سے سرمایہ داروں، تاجروں اور سٹے بازوں کے منافع کی ہوس پر قدغن لگتی ہے اس لیے یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ ریاست منڈی میں دخل اندازی نہ کرے۔حقیقت تو یہ ہے کہ طلب و رسد کا تعین اور قیمت کا تعین منڈی نہیں بلکہ سرمایہ دار، تاجر اور سٹے باز کرتے ہیں۔ منڈی میں تو صارف بھی ہوتا ہے لیکن اس کی کوئی نہیں سنتا۔
مثلا رمضان کے آتے ہی کھانے پینے کی اشیاء میں یک دم اضافہ اس لیے ہو گیا کہ سرمایہ داروں، تاجروں نے اشیاء کی قیمتیں بڑھا دیں اور عام صارف کو مجبور کردیا کہ وہ مہنگے داموں اشیاء خریدے۔ ایسا تو نہیں تھا کہ پیداوار کا بحران تھا جس سے طلب میں اضافہ ہوا اور قیمتیں بڑھ گئیں۔ چیزیں وہی ہیں اور باآسانی دستیاب بھی ہیں لیکن ان کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے۔ صارف تو کم قیمت پر چیزیں خریدنا چاہتا ہے۔ اس صورت میں اگر ریاست دخل اندازی کرے اور قیمتیں کم کر کے ان میں استحکام لائے تو اس کا فائدہ صارف عوام کو ہو گا لیکن ملکی سرمایہ داروں کو نقصان ہوگا۔ ملکی معیشت کا حال یہ ہے کہ قرض کا حجم بڑھ رہا ہے، عوام کی حالت بدتر ہو رہی ہے لیکن سرمایہ دار حکمران طبقہ امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ لبرل معیشت کا فیض ہے۔
کیا یہ بات درست ہے کہ منڈی کی معیشت میں ریاست دخل اندازی نہیں کرتی؟ اگر ایسا ہے تو یورپی یونین کیا ہے؟ یہ یورپ کی سرمایہ دار ریاستوں کا اتحاد ہے جو سرمایہ دار، تاجر اور سٹے باز طبقوں کو تحفظ دیتی ہیں۔ مثلا ً ہنگری میں یورپی یونین کی پالیسی کی وجہ سے زرعی شعبہ تباہ ہو گیا ہے۔ جرمن سرمایہ داروں نے ہنگری میں اپنی شکر فروخت کرنے کے لیے ہنگری میں شکر کی پیداوار ہی ختم کرادی۔ چھوٹی ریاستوں کو قرض دے کر یورپی یونین کی معاشی طور پر طاقتور ریاستیں خصوصا جرمنی اور فرانس کے سرمایہ دار ان سے اپنی مرضی کی معاشی، سیاسی اور سماجی پالیسیاں منواتے ہیں جس میں فوجی تعاون بھی شامل ہے۔ جس ریاست پر سرمایہ دار طبقہ یا اس کے حامی حکومت کرتے ہیں وہ سرمایہ دار طبقے کے معاشی، سیاسی اور سماجی تحفظ کی پالیسی پر عمل کرتی ہے۔ لبرل حضرات اس بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
لبرل پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اقتصادی بحران میں اپنے نقصان کو پورا کرنے کے لیے سرمایہ دار ریاست پر دباؤ ڈالتے ہیں جو عوامی فلاحی بجٹ میں کٹوتیاں کر کے انہیں پیسہ فراہم کرتی ہے۔ 2008ء کے اقتصادی بحران کے نتیجے میں یورپ میں ریاستوں نے “آسٹیریٹی” اور “بیل آؤٹ پیکجز” کے ذریعےاپنے سرمایہ دار طبقے کو نوازنے کا عمل شروع کیا اور عوامی فلاح و بہبود کی رقم انہیں دے کر عوامی فلاحی اسکیموں کو ختم یا کم کرنے کی کوشش کی۔
یونان، برطانیہ، ارجنٹائن، برازیل،اسپین، امریکہ وغیرہ میں ان پالیسیوں کے عوام دشمن اثرات کی وجہ سے عوامی مزاحمت اور بغاوت کی تحریکوں نے جنم لیا اور یہ سلسلہ جاری ہے. ایک جانب عوامی مزاحمت کو کنٹرول کرنے کے لیے اور دوسری جانب اپنی عوام دشمن معاشی پالیسی کو جاری رکھنے کے لیے ان ملکوں میں سرمایہ دار طبقے نے عوام دوست سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے اور ان کی پالیسی کو جاری رکھنے کے ایجنڈا سے اتفاق کرنے والی سیاسی قوتوں کی حمایت کی اور انہیں اقتدار میں لانے کی بھرپور کوششیں کیں۔
وینزویلا کا بحران کیا ہے؟ “ہم سب ڈاٹ کام” پر شائع شدہ ایک کالم میں وینزویلا کے حالیہ بحران کا ذمہ دار وہاں کی “سوشلسٹ” ریاست کی منڈی کی معیشت میں دخل اندازی کو قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں عوام دوست حکومت نے سرمایہ دار، تاجر اور سٹے باز طبقے کی خوراک اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں من مانے اضافے اور ڈالر کی سٹے بازی پر پابندی لگا کر قیمتوں کو کنٹرول کیا اور ڈالر کی سٹے بازی اور بیرونِ ملک منتقلی پر حد بندی کردی۔ نتیجے میں یہ لوگ بے قابو ہوگئے اور وہاں اشیاء کا بحران پیدا کیا اور بلیک مارکیٹنگ کو فروغ دیا تاکہ بحران بھی موجود رہے اور یہ لوگ زیادہ سے زیادہ دولت بھی کما سکیں۔
اس کام میں امریکی سرمایہ دار ریاست نے حزبِ اختلاف کی بھرپور مدد بھی کی تاکہ اس مصنوعی بحران کے ذریعے سوشلزم کی جانب جھکاؤ رکھنے والی حکومت کو گرا کر سرمایہ دار طبقے کو حکومت میں لایا جا سکے۔ چار سال قبل بھی ان لوگوں نے اس طرح کا مصنوعی بحران پیدا کیا تھا۔ بحران ختم ہونے کے بعد مارکیٹ میں آنے والی اشیاء کی پرانی “ایکسپائری ڈیٹ” نے ان کی ذخیرہ اندوزی کا پول کھول دیا تھا۔
تاہم لبرل ازم کی منڈی کی معیشت کے دلدادہ افراد لوگوں کو یہ افسانے سنا رہے ہیں کہ وینزویلا میں معاشی بحران “سوشلسٹ حکومت” کی منڈی کی معیشت میں دخل اندازی اور اس کی جگہ منصوبہ بند معیشت قائم کرنے کی کوشش کی وجہ سے آیا ہے۔ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ وینزویلا کی حکومت سوشلسٹ نہیں سوشل ڈیموکریٹک ہے۔ وہاں اب بھی نجی کمپنیاں 60 سے 70 فیصد معیشت کی مالک ہیں۔
نہ ہی وینزویلا مقروض ریاست ہونے کی وجہ سے دیوالیہ ہونے جا رہا ہے۔ وینزویلا کی درآمدات سے ہونے والے آمدنی برآمدات کے خرچ سے زیادہ ہے۔سال 2012ء میں وینزویلا نے تیل کی درآمد سے 94 ارب ڈالر کمائے تھے جب کہ اس کی برآمدات کی لاگت صرف 60 ارب ڈالر ہے۔اس وقت وینزویلا کے قومی خزانے میں 22 ارب ڈالر اضافی موجود ہیں اور اکاؤنٹ سر پلس جی ڈی پی کے مقابلے میں 2.9 فیصد ہے۔ غربت میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے اور اقوام متحدہ نے سماجی ترقی کے اشاریوں میں شاندار کارکردگی پر وینزویلا کو تعریفی سرٹیفیکٹ سے نوازا ہے۔وینزویلا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی شعبے کو مکمل ختم کرنے کے اقدامات اٹھائے تاکہ سرمایہ دار،تاجر اور سٹے بازوں کی جانب سے بار بار پیدا کیے جانے والے ان مصنوعی بحرانوں کا مستقل خاتمہ ہو۔
یہ لبرل معیشت کی سیاسی اور معاشی آمریت کا ایک خاکہ ہے جسے “جمہوریت” کا برقعہ پہنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کےذریعےعوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔لبرل معیشت عوام دشمن اور سرمایہ دار دوست معیشت ہے۔ریاست کو سرمایہ دار طبقے کے مفاد کے لیے استعمال کرنا، حکم عدولی کرنے والے ملکوں پر جنگیں مسلط کرنا (عراق، لیبیا، شام، یمن)، سیاسی نمائندوں کو خریدنا (امریکی سسٹم) اور عوام کے حقوق کی پامالیاں کرنا۔
سوشلسٹ معیشت اور سیاست کی “آمریت” اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس میں دولت کے لیے عوام کا استحصال کرنے والوں سے آمرانہ انداز سے نپٹاجاتا ہے اور اس آمریت کے نفاذ کی شکل محنت کش عوام کا حقیقی جمہوری اقتدار ہوتا ہے۔سوشلزم میں سرمایہ دار طبقے کی آمریت کا مقابلہ محنت کش عوام کی آمریت سے کیا جاتا ہے۔ سوشلسٹ کیوبا اور شمالی کوریا نے کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا۔ لیکن اپنے معاشی مفادات کی خاطر دنیا بھر میں قتل و غارت گری اور جنگ و جدل سے لبرل امریکہ اور برطانیہ کی تاریخ اٹی پڑی ہے۔
♠
One Comment