کامران صدیقی
مغربی ممالک میں آباد مسلمانوں کی نئی نسل میں مذہبی انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات باعث تشویش ہیں۔ یہ مذہبی انتہا پسند نوجوان مغرب کو عالم اسلام کی زبوں حالی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے بعض اوقات ایسی جذباتی اور غیر ذمہ دارانہ حرکات سر انجام دے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایک غلط تصور مغرب میں پروان چڑھنے لگا ہے۔ یہ غلط تصور مغرب میں آباد مسلمانوں کی ان مغربی معاشروں میں شمولیت، ان میں قبولیت اور ان میں تعمیری کردار کی ادائیگی میں رکاوٹ کا باعث بن رہا ہے۔ یہ رجحانات مغرب میں آباد مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں اور ان کا بروقت تدارک لازمی ورنہ اس انتہا پسندی کا نتیجہ سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں۔
اس کے تدارک کے لئے جو بنیادی اقدامات درکار ہیں ان میں پہلا قدم بحیثیت مجموعی مغرب میں آباد مسلمانوں کو یہ تسلیم کرنا ہے کہ یہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی ایک حقیقت ہے اور اس کے نتائج اس معاشرے کے لئے تباہ کن ہیں۔ محض یہ کہہ کر آنکھیں بند کر لینا کہ یہ چند افراد کے انفرادی نظریات ہیں اور مغرب میں آباد مسلمان بالعموم امن پسند اور معتدل ہیں، صرف ان ذمہ داریوں سے فرار ہے جو معاشرے کے ہر فرد پر اپنے معاشرے کو آنے والے خطرات سے بچانے کے لئے لازم ہیں۔
بسا اوقات مغرب میں آباد مسلمان محض اس لئے ان رجحانات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوتے ہیں کہ کہیں ان کو ان رجحانات کے فروغ کا ذمہ دار نہ سمجھ لیا جائے۔ بالخصوص مساجد کے امام اس موضوع پر گفتگو سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس مسئلہ سے لاتعلقی اور انکار کی یہی روش ہے جو اس مسئلہ کی بروقت شناخت اور تدارک میں ناکامی کا باعث بنی ہے اور اس روش کا تسلسل اس مسئلے کے حل کو مشکل سے مشکل بناتا چلا رہا ہے۔ لہذا ہم مغربی مسلمانوں کو حقیقت پسندانہ سوچ اپناتے ہوئے اس مسئلے کو تسلیم کرنا ہو گا جو اس مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم ہے۔
اس مذہبی انتہا پسندی کے رجحانات کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے بعد دوسرا قدم ان عوامل و اسباب کی شناخت اور نشاندہی ہے جس نے ان رجحانات کو فروغ دیا۔ ان رجحانات کے فروغ کی سب سے پہلی اور بنیادی ذمہ داری ہم یعنی اس نسل پر عائد ہوتی ہے جس نے ان مغربی ممالک کی طرف نقل مکانی کی۔
گو کہ ہم نے اس مغربی معاشرے کی طرف ہجرت یہاں کے رسم و رواج اور قواعدو ضوابط سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہوئے اپنی مرضی سے کی تھی، مگر ہم اندرونی طور پر یہاں کے معاشرے سے خوفزدہ تھے۔ ہم اس معاشرے میں رہنا بھی چاہتے تھے اور اپنے بچوں کو اس معاشرے سے دور بھی رکھنا چاہتے تھے۔ اس کا ایک آسان حل جو ہم نے تلاش کیا وہ اپنے بچوں میں مذہبی رجحانات کا فروغ تھا۔ ہم نے سوچا کہ اگر ہم اپنے بچوں کو مذہب کی طرف مائل کریں گے تو وہ خود کو اس معاشرے سے الگ رکھ پائیں گے۔
اور مذہب کی طرف مائل کرنے کا سب سے آسان نسخہ مقامی مسجد سے وابستگی تھا۔ وہی مساجد جہاں ہم پاکستان میں نماز کے علاوہ دس منٹ سے زیادہ رکنا گوارا نہیں کرتے تھے، یہاں آنے کے بعد انہی مساجد کو دوسرے گھر کا درجہ دے دیا تھا۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے بچے گھر کے بعد زیادہ سے زیادہ وقت مساجد میں گزاریں۔ ہم نے انہیں سنڈے اسکول میں داخل کرا دیا اور مسجد میں منعقدہ مختلف اقسام کی سرگرمیوں میں شامل کر دیا تاکہ وہ نہ صرف مسجد میں زیادہ وقت گزاریں بلکہ دوسرے ہم عمر مسلمان بچوں سے زیادہ سے زیادہ تعلقات رکھیں۔
ان اقدامات سے ہم مطمئن ہو گئے۔ ہم خوش تھے کہ ہمارے بچے مسجد میں زیادہ سے زیادہ وقت گزار رہے ہیں اور مذہب کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ہم اس لئے بھی خوش تھے کہ بچوں میں مذہبی تعلیم کی ذمہ داری جو والدین پر عائد ہوتی ہے وہ ان مساجد کے ذریعے پوری ہو رہی تھی۔ ہم نے ذرا سا بھی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ ان بچوں کو ان مساجد میں کیا تعلیم و تربیت دی جا رہی ہے۔ ہماری یہی غفلت تھی جس نے مذہبی انتہا پسندی کے بیجوں کو ان معصوم بچوں کے دماغوں میں داخل ہونے اور پنپنے کا موقع فراہم کیا۔
پاکستان میں ہمارا مساجد سے تعلق صرف نماز کی حد تک تھا۔ وہی مساجد یہاں تعلیم و تربیت کی درسگاہ کا درجہ لے لیتی ہیں۔ وہ امام مسجد جس کی وہاں حیثیت صرف ایک نماز پڑھانے والے کی ہوتی تھی، اسے ہم نے یہاں اپنے رہنما کا درجہ دے دیا۔ جیسا کہ آپ ہم جانتے ہیں، پاکستان میں مسجدوں کی امامت ایک پیشہ ور ملازمت ہے جس کے لئے بنیادی قابلیت مذہبی مدرسے سے سند یافتہ ہونا ہوتی ہے۔
یہ آئمہ مساجد نمازوں کی ادائیگی کا فرض تو بخوبی ادا کرتے ہیں مگر عمومی طور پر ان میں دانشمندی، حقیقت پسندی، تدبر اور تفکر کا فقدان ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کے اماموں کو ہم نے یہاں نمازوں کی امامت کے لئے پاکستان سے درآمد تو کر لیا لیکن ان پر اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی سونپ دی۔ یہ امام حضرات مغرب کے معاشرے، اس میں بسنے والے افراد، یہاں کے اطوار اور یہاں پروان چڑھنے والی مسلمان نئی نسل کے ذہنی ارتقاء اور ان کے مسائل سے قطعاً نابلد ایک کنویں کے مینڈک کی طرح ہوتے ہیں جن کا اس معاشرے سے ربط بنیادی طور پر مسجد میں آنے والے مسلمانوں کی حد تک رہتا ہے۔
جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر اسی سطح پر رہتے ہیں جس سے وہ آتے ہیں اور اسی سطح سے وہ یہاں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں جس میں بچوں کی تعلیم و تربیت بھی شامل ہے۔ اس کے جو دور رس نتائج انتہا پسندانہ رجحانات کے حوالے سے نکلے ان کے بنیادی اور کلیدی نکات درج ذیل ہیں۔
ان مولوی حضرات کی اپنی تعلیم و تربیت جس ماحول میں ہوتی ہے اس میں وہ ہر چیز کو سیاہ و سفید انداز میں دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو ان کے مسلک کے مطابق ہو وہ صحیح اور باقی سب غلط۔۔ بالخصوص غیر مسلموں کے بارے میں ان کا تصور انتہائی متعصب۔ ان کی نظر میں غیر مسلم افراد گندے اور ناپاک، اور ان کے اطوار و کردار شر کا سرچشمہ۔
اس کا نتیجہ یہ کہ وہ یہاں کے بچوں کے معصوم ذہنوں میں غیر مسلموں سے نفرت اور حقارت کے بیج بوتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ تعصب بھرتے ہیں کہ صرف تمہارا مذہب صحیح ہے اور باقی سب غلط ہیں اور جہنم میں جانے والے ہیں۔ مزید یہ کہ ان سے کم سے کم معاشرتی میل ملاپ رکھو، ان کی تقریبات میں شرکت نہ کرو وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچے ذہنی تذبذب کا شکار ہو گئے۔
اس معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے پڑوس، محلے اور اسکول میں غیر مسلم بچوں اور بڑوں سے میل ملاپ لازمی تھا۔ جن بچوں نے اس ذہنی کشمکش کا زیادہ اثر نہیں لیا انہوں نے اپنا میل ملاپ تو جاری رکھا مگر ایک لاشعوری احساس ندامت کے ساتھ، اور جن بچوں نے اس کا زیادہ اثر لیا انہوں نے خود کو ان سے دور اور الگ کر لیا اور آہستہ آہستہ مذہبی انتہا پسندی کی راہ پر گامزن ہو گئے۔
اس معاشرے اور اس کے مسائل سے ناواقفیت اور ذہنی وسعت، حقیقت پسندی، تدبر و تفکر کے فقدان کے باعث یہ مولوی حضرات اس قابل ہی نہيں ہوتے کہ وہ یہاں بسنے والے مسلمانوں کو بالعموم اور یہاں کے بچوں کو بالخصوص وہ مذہبی رہنمائی فراہم کر سکیں جس کے ذریعے یہ مسلمان اس معاشرے کے افراد بنتے ہوئے اس معاشرے کی ترقی و ارتقاء میں بھرپور کردار ادا کر سکیں۔
اس کا نتیجہ یہ کہ وہ نہ صرف ان موضوعات سے اجتناب کرتے ہیں بلکہ اپنی ذہنی سطح اور محدود نظری کے باعث ان کی نماز جمعہ اور دوسرے اجتماعات کی تقاریر کے عمومی موضوع عالم اسلام کی زبو ں حالی بالخصوص فلسطین اور کشمیر میں مسلمانوں کی حالت یا مسلمانوں کے زمانہ عروج کے قصے ہوتے ہیں، اور اپنی غیر مسلموں سے نفرت کا اظہار ان الزامات کی صورت میں ہوتا ہے جن میں وہ مسلمانوں کی پست حالی کی ذمہ داری غیر مسلم حکومتوں بالخصوص مغربی حکومتوں پر عائد کرتے ہیں۔
یہاں مغرب میں پرورش پانے والے ہمارے بچوں کے ذہن ان تقاریر کا اثر لینے کے لئے سب سے زیادہ زرخیز ہوتے ہیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ اس معاشرے کے اسکولوں کی بنیادی تربیت ان بچوں کے کردار کو کھرا بناتی ہے۔ وہ کردارہی ایمانداری کے حامل ہوتے ہیں جس کا نتیجہ یہ کہ وہ ہر شخص کو ایماندار اور سچا سمجھتے ہیں جب تک اس کے برخلاف ثابت نہ ہو جائے۔ لہذا ان تقاریر میں جو بھی کہا جاتا ہے وہ اس کو عموماً سچ سمجھتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ کہ ان بچوں کی عملی زندگی اسی مغربی معاشرے میں بسر ہوتی ہے۔ وہ دوسرے معاشروں سے عملاً ناواقفیت اور اپنی کرداری ایمانداری کی بنا پر ان مسلم معاشروں اور ان میں بسنے والے افراد کو مغرب کی طرح ایماندارانہ اور اصول پسند سمجھتے ہیں۔ لہذا وہ مسلم ممالک اور ان میں بسنے والے افراد کی زبوں حالی کی بنیادی وجوہات جو دراصل ان معاشروں کی اپنی کمزوریاں اور خامیاں ہیں، کا ادراک کرنے سےقاصر ہوتے ہیں اور مولوی حضرات کی باتوں کو سچ مان کر مغرب کو مورود الزام ٹھہرانے لگتے ہیں۔ یہی روش آہستہ آہستہ انہیں انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے لگ جاتی ہے۔
مندرجہ بالا میں ہم نے ان عوامل کی نشاندہی کی جو یہاں کے مسلمان بچوں میں انتہا پسندی کے رجحانات کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ اب ان اقدامات پر بھی گفتگو کریں جو اس روش کا سدباب کر سکیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا قدم ہم والدین کو اٹھانا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو اس معاشرے سے دور رکھنے کے بجائے انہیں اس معاشرے کا حصہ بننے میں ان کی مدد کرنی چاہئے۔ انہیں اس معاشرے سے دور رکھنے کی کوشش محض حقائق سے نظریں چرانا ہے کیونکہ ان بچوں نے بالاخر اس معاشرے کا حصہ بننا ہی ہے۔ ہماری راہنمائی انہیں اس معاشرے کی اچھائیاں اپنانے اور برائیوں سے دور رہنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔
ہمیں پاکستان سے مولوی حضرات کی برآمد کو روکنا ہوگا۔ جو یہاں پہلے سے موجود ہیں انہیں یہاں کے حکومتی سماجی اور تعلیمی پروگراموں میں شرکت کا پابند کریں تاکہ وہ یہاں بسنے والے دوسرے رنگ و مذہب کے افراد سے ملیں جلیں اور یہاں کے معاشرے کا نہ صرف مشاہدہ کریں بلکہ دوسرے رنگ و مذہب کے افراد کے عقائد اور رسومات کا احترام کرنا سیکھیں۔
اس کے بعد انہیں اس بات کا پابند کریں کہ وہ نماز جمعہ اور دوسرے اجتماعات میں صرف اور صرف یہاں بسنے والے مسلمانوں کے مسائل کے حل کی بات کریں۔ اس معاشرے کی اچھائیوں کو اجاگر کریں اور اس کی برائیوں سے بچنے کا ایسا حل پیش کریں جو اس معاشرے میں بسنے والے دوسرے افراد سے تصادم کی راہ اختیار نہ کرے۔ اپنے خطبات میں اندھی تقلید کے بجائے منطقی، حقیقت پسندانہ اور تدبرانہ انداز میں نئی نسل کو اسلام کی تعلیمات پیش کریں جو ان کے ذہنی سوچ سے متصادم نہ ہو۔
مسلم ممالک کو درپیش مسائل کے ذکر سے اجتناب کریں۔ بالخصوص ان مسائل کو جو بنیادی طور پر سیاسی ہیں، مذہبی رنگ دینے کی قطعا ًکو شش نہ کریں کیونکہ یہ سراسر بد دیانتی ہے۔ دوسرے مذاہب اور اس کے ماننے والوں کو پست اور جہنمی قرار دینے سے مکمل گریز کریں۔ کسی کے عقائد کے صحیح یا غلط قرار دینے کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس نے یہ اختیار کسی انسان کو نہیں دیا۔
اس میں شک نہیں کہ پچھلی ایک دھائی میں درآمدی مولویوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور یہاں پروان چڑھے مسلمانوں نے مسجدوں میں امامت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ہیں مگر بد قسمتی سے اس نئی کھیپ کی مذہبی تربیت انہیں قدامت پسند مذہبی اداروں میں ہوتی ہے جہاں سے ہمارے مولوی سند حاصل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس نسلی تبدیلی کے باوجود مذہبی خطبات اور مذہبی تعلیم کے نصاب میں خاص فرق نظر نہیں آتا ہے۔
مغرب میں بسنے والے مسلمان مجموعی طور پر پرامن اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہیں۔ لیکن یہ مذہبی انتہا پسندی آہستہ آہستہ مسلم برادری میں سرایت کرتی جا رہی ہے جس کا اثر نہ صرف مسلمانوں کے اس معاشرے کے فرد کی حیثیت سے شناخت اور شمولیت پر منفی انداز میں پڑ رہا ہے بلکہ یہ آگ پھیل کر اس پورے معاشرے کو نفرتوں کی آگ میں جلا کر خاک کر دے گی۔ وہی نفرتوں کی آگ جس سے پیچھا چھڑا کر ہم یہاں آئے ہیں اسے یہاں بھڑکنے نہ دیں۔
لہذا یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے عوامل کے سد باب کے لئے بلا جھجک آگے بڑھ کر مدد کریں جو مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔ بالخصوص اگر ہمارے بچے مسجد یا سنڈے اسکول جاتے ہیں تو کڑی طور پر اس کی جانچ کریں کہ ان کو وہاں کیا تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ اگر آپ کسی وجہ سے یہ ذمہ داری دوسرے کو سونپ رہے ہیں تو اسے سونپ کر بے خبر نہ ہو جائیں۔ مساجد کے امام آپ کو مذہبی مسائل میں ضرور رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں مگر انہیں اپنی عمومی زندگی میں رہنما مت قرار دیں۔ یاد رکھیں کہ یہ مغربی معاشرے ہر فرد کو شخصی مذہبی آزادی فراہم کرتے ہیں۔ وہ آزادی جو کئی مسلم ممالک میں بیشتر مذہبی فرقوں سے سلب کی جا رہی ہے۔
ہمیں اس آزادی کا احترام کرتے ہوئے ان حدود کو پار کرنے سے گریز کرنا چاہئے جہاں مذہبی امور اس معاشرے کے مروجہ اطوار میں مداخلت کرنے لگیں۔
♠
Pingback: The Rise of Religious Extremism in Western Muslim Youth – Niazamana