منیر سامی
مصطفیؔ زیدی کا ایک شعر ہے کہ ، ’بگڑ چلاہے بہت رسمِ خود کشی کا چلن۔۔ڈرانے والو کسی روز کر دکھاوبھی‘۔۔اگر مصطفی ؔزیدی آج کینیڈا میں ہوتے اور کینیڈا کے اولین باشندوں خصوصاً ان کے ، انوئٹ ، نوجوانوں میں خود کشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھتے تو شاید اور کوئی شدید اور دردناک شعر کہتے، یہ نہ کہتے۔
کینیڈا عام طور دنیا بھر کے ان بہترین ملکوں کی صفِ اول میں شامل رہتا ہے جہان معیارِ زندگی، نظامِ صحت، اور نظام تعلیم بلند تر اور مثالی سمجھے جاتے ہیں۔ ایک تلخ حقیقت جو دنیا کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے، یا جس کا زیادہ چرچا نہیں ہوتا ہے ، نہ ہونے دیا جاتا ہے ، وہ یہاں کے اولین باشندوں کے بدترین حالاتِ زندگی ہیں۔ ا ن اولین باشندوں میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں سرخ ہندی، اسکیمو، یا ہندی کہا جاتا تھا، انہیں اب نے ٹِو یا Nativeبھی کہا جاتا ہے۔۔
اب ان اولین باشندوں کو سرخ ہندیوں کے بجائے جو ایک نسل پرستانہ اصطلاح تھی، فرسٹ نیشن یا اولین باشندے کہا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو ساری دنیا کے اب تک کے ادب اور تاریخ میں اسکیمو کہلاتے تھے، اب انوئٹ Inuit کہلاتے ہیں خاص طور پر شمالی امریکہ اور کینیڈا میں۔ یہ لوگ اسکیمو کی اصطلاح سے اس لیے نالاں تھے ، کہ اس کے ایک معنی کچا گوشت کھانے والے کے نکلتے تھے۔ برطانوی استعماری یہ اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ اور اب بھی اہلِ برطانیہ پرانی اصطلاح اسکیمو ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
کینیڈا کے اولین باشندے ہمیشہ ہی سے استعماری جبر کا شکار رہے ہیں۔ ان کی لاکھوں بلکہ کروڑو ں ایکڑ زمینوں اور ان کے وسائلِ زندگی کو یا تو کشت و خون کے ذریعہ ہتھیایا گیا، یاکبھی دھوکے اور پر فریب معاہدوں اور ہتھکنڈوں سے ان کے حقوق سلب کیے گئے۔ کینیڈا میں ڈیڑھ صدی سے بھی زائد قائم جمہوریت اور آیئن کے باجود یہ باشندے مساوی حقوق سے محروم رکھے جاتے ہیں، بسا اوقات انہیں حاصل سہولتیں ان نئے آنے والوں سے کم تر ہوتی ہیں جنہیں کینیڈا کے کثیر الثقافتی انتظام کے تحت عام باشندوں کے تقریباً مساوی سہولتیں مل جاتی ہیں، گو ان کے ساتھ بھی نسل پرستانہ برتائو کی ایک غیر مرئی لہر موجود رہتی ہے۔
جو لوگ فرسٹ نیشن کہلاتے ہیں وہ کینیڈا کے عام صوبہ جات میں ، مخصوص علاقوں یا ریزرویشن میں محدود رکھے جاتے ہیں۔ کینیڈا کی حکومت انہیں نام نہاد خود مختاری عطا تو کرتی ہے لیکن ان کے لیے وفاقی یا صوبائی سہولتیں عام شہریوں سے کم تر ہوتی ہیں۔ ان کے خلاف نفاذِ قانون کے نام پر نسل پرستانہ برتاو کیا جاتا ہے، اور ان کے خلاف وہ ظلم بہت مشہور ہوا ہے جسے رہائشی اسکولوں کا نظام کہتے ہیں۔ اس نظام کے تحت سالہا سال تک ان باشندوں کی اولادیں جبراً ان کے والدین سے چھین کر دور تر علاقو ں میں انگریزی پڑھانے اور عیسایئت کی تبلیغ کے لیئے رہائشی اسکولوں میں بھیج دی جاتی تھیں ، تاکہ ان کے ذہن تبدیل کیے جایئں۔ ان کے ساتھ جسمانی اور جنسی تشدد اور ظلم کی داستانیں کینیڈا کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں جنوبی افریقہ کی پیروی کرتے ہوئے کینیڈا کی حکومتوں نے ان اولین باشندوں سے معافیا ں مانگنا شروع کی ہیں۔ لیکن یہ باشندے اب بھی اپنی اراضی کے مکمل مالکانہ حقوق سے محروم ہیں، اور انہیں سالہا سال کی مقدمہ بازیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان سطور کے لکھتے وقت کینیڈا کے صوبے اونٹاریو کی وزیرِ اعلیٰ ‘کیتھیلین وِن ‘ نے بھی ان زیادتیوں پر مقننہ میں معافی مانگی ہے۔
کینیڈا کے انوئٹ باشندوں کے معاملات اور بھی سنگین ہیں۔ یہ عموماً کینیڈا کے برفانی شمالی علاقوں میں قطب شمالی تک بکھرے ہوئے ہیں۔ ان کی بستیاں ایک دوسرے سے کئی کئی سو میل دور تک بکھری ہوئی ہیں۔ برفانی موسم میں ان کی مواصلات کی سہولتیں تقریباً بند ہوجاتی ہیں۔ جس کا اثر اور سہولتوں کے علاوہ اشیائے خوردنی پر بھی پڑتا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کینیڈا میں عام طور پر اشیائے خوردنی کے ایک مجموعہ کی قیمت اگر سو ڈالر ہے، تو وہی مجموعہ انوئٹ علاقوں میں دو سو دڈالر کا ہوتا ہے۔اگر ہم ان علاقوں اور کینیڈا کے دیگر علاقوں میں بجلی یا توانائی کی قیمت دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ٹورانٹو میں بجلی کا ایک یونٹ سات سینٹ کا ہے، اور انوئٹ علاقوں میں چوالیس سینٹ کا۔
ہم ان علاقوں میں رہنے والے کینیڈا کے عام شہریوں اور انوئٹ میں آمدنی کا فرق دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ یہ عدم مساوات کتنی سنگین ہے۔ وہاں بسنے والے عام شہری جو سرکاری ملازم ، صنعتوں سے وابستہ، یا دیگر کاروباری اداروں سے منسلک ہیں ان کی سالانہ آمدنی یہاں تقریباً ستاسی ہزار ڈالر ہوتی ہے۔ جب کہ انوئٹ باشندوں کی آمدنی تقریباً بیس ہزار ڈالر ہوتی ہے۔ یہ عدم مساوات یوں اور بھی تلخ ہو جاتی ہے کہ انوئٹ باشندوں کو مختلف بہانوں سے بہتر ملازمتوں سے دور رکھا جاتا ہے۔اسی طرح یہاں تعلیم ، صحت، اور دیگر سہولتیں بھی غیر مساوی ہیں۔ اس سارے فرق کے ساتھ ان باشندوں کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ عام ہے۔
اس ظالمانہ عدم مساوات کا سنگین اثر ان علاقوں میں بسنے والے شہریوں کے ساتھ ساتھ نوجوانوں پر اور بھی شدید ہے۔ ان نوجوانوں میں بے روزگاری کا تناسب بیس فی صد کے لگ بھگ ہے۔ ان کی ایک چوتھائی تعد اد، شکستہ خاندانوں میں صرف ماں یاصرف باپ کے ساتھ رہتی ہے ۔ ان خاندانوں میں گھریلو تشدد کا تناسب بہت زیادہ ہے۔
ان ساری مشکلات کے زیرِ اثر ، انوئٹ نوجوانوں میں مایوسی اور نفسیاتی بیماریاں عام ہیں ، جن کے تدارک کے لیے طبی یا ماہرینِ نفسیات کی سہولتیں بھی حاصل نہیں ہے۔ اس دباوکے تحت وہ شراب اور دیگر نشوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ نوجوان چونکہ قانونی طور پر شراب بھی نہیں خرید سکتے تو وہ پیٹرول، مٹی کے تیل یا اس طرح کے دیگر مواد کو سونگھ کر شدید نشوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔
عدم مساوات، نسل پرستی، اور محرومی کے نتیجہ میں انوئٹ باشندوں اور خصوصاً ان کے نوجوانوں میں خود کشی کا چلن بہت زیادہ ہے۔ ابھی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک اہم رپورٹ میں کینیڈا کے صوبہ نیو فِن لینڈ میں اعدادو شمار کے مطابق وہاں کی انوئٹ آبادی میں ہر سال ایک لاکھ میں سے ایک سو پینسٹھ لوگ خود کشی کرتے ہیں، جب کہ وہاں رہنے والے عام شہری میں ایک لاکھ میں سے صرف آٹھ لو گ خود کشی کرتے ہیں۔ ایک سنگین حقیقت یہ بھی ہے کہ انوئٹ لوگوں میں سے خود کشی کرنے والوں کی اوسط عمر تقریباً انتیس سال ہے جب کہ عام آبادی میں یہ عمر اوسط چوالیس سال ہے۔
گزشتہ ماہ ایک انوئٹ علاقہ میں پندرہ نوجوانوں کے ایک ایسے گروہ کا پتہ چلا جس میں ایک نو سال کی عمر کا بچہ بھی شامل تھا، جنہوں نے ایک ساتھ خود کشی کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔ خوش قسمتی سے ان میں صرف دو نوجوان زہر نگل سکے تھے، اور انہیں ہسپتا ل پہنچایا گیا اور ان کی جان بچائی گئی۔ اب سے کئی سال پہلے اسی علاقہ میں گیارہ افراد نے اسی طرح خود کشی کا معاہدہ کیا تھا۔
اقدام ہائے خود کشی کی اس سنگین ترین لہر کے بعد ان علاقوں کے رہنماوں نے کینیڈا کے وزیرِ اعظم سے ملنے کی درخواستیں کی ہیں، جو کچھ ردو قدح کے بعد انہوں نے منظور تو کر لی ہیں لیکن ابھی تک کوئی حتمی وقت طے نہیں ہوا ہے۔ کینیڈا کے عوام اور حکومت پر لازم ہے کہ وہ اپنے اس پسماندہ طبقہ کہ فلاح پر فوری توجہ دیں اور ایک آبادی کو بالواسطہ نسل کشی سے بچائیں۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم ٹروڈو ، یہاں کے اولین باشندوں کی فلاح کے بڑے بڑے وعدہ کرتے رہے ہیں۔ یہ خود کشیاں ان کو ان کا وعدہ پکار پکار کر یاد دلاتی ہیں۔
♠
One Comment