آصف جاوید۔ٹورنٹو
مذہبی جنونی اور نام نہاد دانشور ، اوریا مقبول جان نے پاکستان میں نفرت کی ایک نئی آگ کو ہوا دینے کا کام شروع کردیا ہے۔ یہ ذہنی دہشت گرد، نوجوانوں کے ذہن گمراہ کررہا ہے، مہذّب انسانی معاشرت کے معروف اصولوں کو تباہ برباد کررہا ہے۔ انہیں محبّت، رواداری، برداشت جیسے مہذّب معاشرتی اصولوں سے متنفّر اور میوزک ، آرٹ، کلچر اور لٹریچر جیسے سماجی اقدار کے نظام سے علیحدہ کرکے ان کو وحشی اور جنونی مذہبی عفریت میں بدلنے کی شعوری کوششیں کر رہا ہے۔ ہزاروں سال سے موجود ہماری تہذیب اور سماجی نظام میں موجود صوفی، سیکولر ، لبرل اور روشن خیال طبقے کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہا ہے۔
اوریا مقبول جان بلا روک ٹوک اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ شخص خواتین کے مساوی حقوق کا بدترین دشمن ہے، اسکے نزدیک اسمبلی میں تحفّظ حقوقِ نسواں کا بلِ، عورتوں کی عزّتِ نفس کی بحالی اور ان کو ایذا رسانی سے بچانے کے لئے نہیں، بلکہ اہلِ مغرب، یہود و ہنود اور امریکہ کو خوش کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یہ اوریا مقبول جان نامی مذہبی دہشت گرد ہر بے حجاب، اور کھلے بالوں والی عور ت پر فاحشہ ہونے کا الزام لگاتا ہے۔
اسکے ذہنی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ اگر یہ آج کے زمانے میں حضرت ہاجرہ کو بھی، اپنے بچے کی پیاس بجھانے کے لئے پانی کے حصول لئے ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر بھاگتے دیکھ لیتا، تو ان پر فورا” بے پردگی اور فحاشی پھیلانے کا الزام لگا کر انہیں سنگسار کرانے کی مہم چلاتا۔
اگر حضرت مریم نے اس کے زمانے میں بن باپ کے حضرت عیسی‘ کو جنم دیا ہوتا تو یہ ان کو بھی زنا کے الزام میں سنگسار کرادیتا۔ اگر حضر ت خدیجہ نے اس کے زمانے میں حضرت محمّد صلعم کو نکاح کا پیغام بھیجا ہوتا تو یہ ان پر بھی کوئی گھٹیا الزام لگانے سے نہ باز آتا۔
اسے اپنے چاروں طرف فحاشی اور کفر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اس کو پاکستانی ادب و ثقافت، ڈرامے اور اشتہارات فحاشی کا منبع نظر آتے ہیں۔ کیُو موبائل کا اشتہار اور منٹو کے افسانے اس کی نظر میں، انتہا درجے کی فحاشی ہیں۔
اب اس نے ایک قدم آگے بڑھ کر پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایک نئی مہم چلائی ہے کہ پاکستان کے جس تعلیمی ادارے یا سول سوسائٹی کا کوئی فرد، روشن خیالی ، ترقّی پسندی، لبرل اقدار اور سیکیولر معاشرے کی بات کرے ، تو فورا” اس کی نشاندہی کرکے متعلّقہ پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرائی جائے، اس کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ بنوایا جائے۔ عدالت میں ثبوت جمع کرائے جائیں ۔
ہر روشن خیال اور مہذّب، سیکولر اور لبرل سوچ پر قفل لگا دیا جائے۔ ہر زبان خاموش کرادی جائے۔ اب اس نے یونیورسٹیوں، کالجوں کے ان تمام اساتذہ، پروفیسروں پر قتل، غدّاری، اور توہینِ مذہب کے فتوے جاری کر دیئے ہیں، جو طلبا کو عقل، سائنس، شعور، منطق، انسانی تہذیب کے معاشرتی اصول پڑھاتے ہوں۔
اوریا مقبول جان مائنڈ سیٹ پاکستانی عوام کے ذہنوں میں غور و فکر، سوال و جواب، سوچ و بچار ، منطقی سوچ، تجزیاتی فکر کی نشو ونما کو پنپنے کی بجائے ان کے ذہنوں میں مذہب کے نام پر وحشیانہ اقدار ٹھونسنے ، عبادت کے نام پر دورِ جاہلیت کے رسوم و رواج کو من و عن تسلیم کر کے بے چوں و چرا عمل کرنے ، عقائد کی آنکھ بند کرکے پابندی کرنے کا محتاج بنا نا چاہتا ہے۔
اوریا مقبول جان پاکستان سے موسیقی، آرٹ، کلچر، لٹریچر، اور فنون لطیفہ جیسی امن پسندی اور صلح جوئی کی علامتوں کو ختم کرکے پاکستان کو ایک بنیاد پرست اور وحشی ریاست میں تبدیل کرنے کا بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔ اس ساری صورتحال میں تہذیبی لحاظ سے پاکستان کا مستقبل تاریک تر ہو تا جا رہا ہے۔ اگر اوریا مقبول جان کامیاب ہوجا تا ہے تو پاکستان میں جہالت کے مہیب اندھیروں کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
ان حالات میں ہر روشن خیال اور ترقّی پسند پاکستانی کو چاہئے کہ یا تو پاکستان سے ہجرت کرکے کسی مہذّب ملک کی راہ لے یا اپنی آنے والی نسلوں کو مذہب پرستی کی آگ میں بھسم ہونے کے لئے چھوڑ دے یا پھر سینہ سپر ہو کر ڈٹ جائے اور اس مائنڈ سیٹ کا مقابلہ کاونٹر مائنڈ سیٹ سے کرے۔
انتہا پسند، بنیاد پرست ، مائنڈ سیٹ کے فروغ کی ذمّہ دار پاکستان کی عسکری ریاست، ملٹری و ملّا کریسی، بیوروکریسی و سیاسی اشرافیہ ہے، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی میں ریاست کا مفاد وابستہ ہے۔ انہوں نے اوریا مقبول جان جیسے مذہبی دہشت گردوں کو پاکستان کے سماجی ڈھانچے کی تباہی کا ٹھیکہ دے کر عوام کو بنیاد پرستی کی آگ میں بھسم ہونے کے لئے جھونک دیا ہے اور خود مزے سے اپنی ڈی ایچ اے طرز کی جدید سوسائٹیوں میں دورِ جدید کی تمام تر سہولتوں سے آراستہ پر آسائش جنّتیں بنا کر ملکی وسائل ، دولت و اقتدار پر قبضہ کیا ہوا ہے۔
ان کی یہ حکمت عملی پاکستانی معاشرے کو ثقافتی طور پر تباہ و برباد کرکے ان کو مذہبی غلام بنا کر اپنے شکنجوں میں جکڑے رہنا چاہتی ہے۔ پاکستان میں لبرل اور سیکولر سماج کا فروغ ، سماجی برابری، معاشی وسائل کی منصفانہ تقسیم، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی، اظہارِ رائے کی آزادی ، معاشرتی رواداری کا فروغ ، پاکستان کی عسکری ریاست ، اور مقتدر اشرافیہ کے اقتدار کی موت ہے، اور یہ مرنا قطعی نہیں چاہتے ہیں۔
اس لئے ہم خبردار کرتے ہیں کہ “مشتری ہوشیار باش“۔ ہمارا کام بس اتنا ہی ہے کہ خطرے کی گھنٹی بجا کر خبردار کردیں، اب جاگنا یا سو ئے رہنا ہماری قوم کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے۔ وما علینا الالبلاغ
♠
9 Comments