لیاقت علی ایڈووکیٹ
بھارتی فلم ’فینٹم‘ کے ہدایت کار کبیر خان گذشتہ دنوں جب پاکستان آئے تو کراچی ائیر پورٹ پر چند افراد نے انھیں جوتے دکھائے اور ان کے خلاف نعرہ بازی کی ۔ ’فینٹم ‘ 2008 کے ممبئی حملوں کے پس منظر بنائی گئی تھی ۔
کبیر خان ’ ایک تھا ٹائیگر ‘ نامی فلم بھی بنا چکے ہیں جس میں ہندوستانی’ را‘ اور پاکستانی ’آئی ۔ایس ۔آئی ‘ سے متعلق کرداروں کودکھایا گیا تھا ۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی فلم ’بجرنگی بھائی جان ‘بھی آئی تھی اس فلم میں بھی انھوں نے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو موضوع بنایا تھا ۔
مظاہرین کا موقف تھا کہ کبیر خان نے مسلمان ہوتے ہوئے پاکستان کے خلاف فلم بنائی اور انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اوریہ فلم بنانے کے بعد انھیں پاکستان تو بالکل نہیں آنا چاہیے تھا۔ ’فینٹم‘ میں جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کے بارے میں ’ قابل اعتراض مکالمے اور سین ‘شامل ہیں۔
بھارت اور پاکستان میں ایک دوسرے کے خلاف فلموں بنانے کا عمل گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے لیکن یہ کام پہلے پہل پاکستانی فلم انڈسٹری نے شروع کیا تھا ۔
پاکستان کی فلم مشہور پنجابی فلم ’کرتار سنگھ‘ میں ہندو دشمنی کا عنصر بہت نمایا ں تھا ۔ پنجابی فلم ’ملنگی ‘ میں سکھ مسلمان دوستی اور ہندودشمنی کو بہت زیادہ نمایاں کیا گیا تھایہ فلم بہت پاپولر ہوئی تھی اور یہ فلم کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔
پاکستانی پنجابی فلموں کے لکھاری سکے دار ایسی فلموں لکھنے کے سپشلسٹ تھے جن میں ہندووں کو کمینہ اور سازشی اور انگریزوں کا پٹھو دکھایا جاتا تھا ۔سازشی ہندو کا کردار بھی وہ خود ہی کیا کرتے تھے ۔
دراصل قیام پاکستان کے فوری بعد ہماری حکمران اشرافیہ نے جو بیانیہ تیار کیا اس کے مطابق ہندو بہت کمینہ ، سازشی اور مسلمانوں کو جانی دشمن تھا جب کہ سکھ بہت سادہ ، بے وقوف اور بہاد ر تھا اور ہندو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر تا تھا حالانکہ سکھ ایسا نہیں چاہتے تھے ۔
تقسیم کے وقت جو فرقہ ورانہ فسادات ہوئے اور لاکھوں لوگوں کا جو قتل عام ہوا اس میں بڑا کردار گو کہ سکھوں کا تھا لیکن انھیں اس کام کے لئے اکسایا ’سازشی ہندووں ‘ نے تھا ۔سکھ مسلمان دوستی اور ہندووں کی کمینگی اور سازشی ذہنیت کے حوالے بہت سی فلمیں بنائی گئیں ۔ ان فلموں میں ہندو کردار کے سر پر چوٹی ضرور ہوتی تھی ۔
جب جنرل ضیاء الحق نے جہاد پراجیکٹ شروع کیا تو ہماری فلم انڈسٹری نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے فلمیں بنائیں جن میں جہاد کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا ۔ بھارت میں پاکستان کے خلاف تو فلمیں ضرور بنائی گئیں لیکن مسلمانوں کے خلاف نہیں جب کہ پاکستان میں ہندووں کے خلاف فلمیں بنائی گئیں حالانکہ پاکستان میں لاکھوں کی تعداد ہندو رہتے ہیں اور پاکستان کے شہری ہیں ۔
دونوں ممالک کو اس بے ہودہ پریکٹس سے گریز کرنا چاہیے اور فلم والوں کو ایسی فلمیں بنانی چاہئیں جو دونوں ممالک کے عوام کے مابین دوستی ، بھائی چارے اور خوش ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کے فروغ کا باعث بن سکیں۔
♠