پاکستانی حکومت اور پالیسی ساز ادارے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی ممکنہ رکنیت پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پاکستان کے اتحادی چین نے بھی اسے این پی ٹی کی روح کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی ہے۔
ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیز نے کہا، ’’ہم نے اور بھارت نے قریب قریب ہی اس رکنیت کے لیے درخواست دی ہے۔ بھارت نے مئی تیرہ کو اور ہم نے مئی اٹھارہ کو۔ اس کے ابھی دو مراحل ہیں۔ این ایس جی گروپ کا اجلاس ہونے والا ہے۔ ہم نے اُن سے کہا ہے کہ رکنیت کا کوئی پیمانہ ہونا چاہیے۔ اس میں کوئی استثنائی طریقہ نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان میرٹ پر اس گروپ کی رکنیت کے اصولوں پر پورا اترتا ہے۔ بھارت نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے لیکن پھر بھی اس نے دباؤ ڈال کر دو ہزار آٹھ میں اپنے لیے یہ استثنیٰ حاصل کرلیا۔ پاکستانی حکومت اس وقت اتنی چوکس نہیں تھی کیونکہ اگر ایک بھی این ایس جی کا رکن ملک بھارت کی مخالفت کر دیتا تو اسے یہ استثنیٰ نہ ملتا۔‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ نئی دہلی پر تو پھر بھی اعتراض لگایا جا سکتا ہے کیونکہ عزیز کے بقول دو ہزارآٹھ کے استثنیٰ کے بعد بھارت نے خطے میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑکو آگے بڑھایا۔ انہوں نے کہا، ’’اب بحر ہند کو بھی اس دوڑ کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس استثنیٰ کے بعد اس دوڑ میں کمی آتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے اٹھائے گئے نکات کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔‘‘۔
سرتاج عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’گزشتہ دو ماہ میں ہم نے پھرپور سفارت کاری کی ہے اور این ایس جی کے تمام ارکان سے رابطے کیے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت بھی ایک ساتھ ملی تھی، تو اگر بھارت کو رکنیت ملتی ہے، تو پاکستان کو بھی ملنی چاہیے۔ اگر ہمیں رکنیت نہ ملی، تو اس سے خطے میں عدم توازن پیدا ہوگا۔‘‘۔
پاکستان کے معروف جوہر ی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اگر بھارت اس گروپ کا رکن بن گیا تو وہ پھر پاکستان کو کبھی بھی این ایس جی کی رکنیت حاصل نہیں کرنے دے گا۔ رکنیت حاصل کرنے کے لیے گروپ کے تمام ارکان کا متفق ہونا ضروری ہے اور بھارت ہماری رکنیت کے مسئلے پر ’ہاں‘ کیوں کہے گا؟ وہ اس کی بھر پور مخالفت کرے گا۔‘‘۔
ڈاکٹر مبارک مند نے کہا، ’’امریکا کا ہمیشہ پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک رہا ہے۔ جب واشنگٹن نے نئی دہلی سے سول نیوکلیئر ڈیل کی تھی تو پاکستان نے بھی امریکا سے اسی طرح کے معاہدے کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن امریکا نے اے کیو خان کا بہانہ بنا کر ایسا معاہد ہ نہیں کیا تھا۔ پھر کہا گیا کہ ایران اور لیبیا کے جوہری پروگراموں میں معاونت کی گئی تھی۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو یہ دونوں ممالک بھی اب تک جوہری ہتھیار بنا چکے ہوتے۔‘‘۔
ڈاکٹر مبارک مند نے مزید کہا، ’’پاکستان کا جوہری پروگرام بہت ایڈوانس ہے اور بھارت اس سے کسی صورت بھی آگے نہیں نکل سکتا۔ ہم اپنے وسائل پر بھی جوہر ی شعبے میں بہت آگے جا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس افرادی قوت یا ذہین افراد کی کوئی کمی نہیں۔‘‘۔
پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین نے اس بارے میں ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’امریکا خطے میں چین کے مقابلے میں بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن استثنائی طریقے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ این ایس جی کے لیے این پی ٹی پر دستخط کرنا لازم ہے، جو بھارت نے ابھی تک نہیں کئے ہیں۔ اس طرح کے استثنائی فیصلوں سے امریکا اور اس کے اتحادی کو ئی اچھی روایت قائم نہیں کر رہے۔‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر بکر نجم الدین نے کہا، ’’گروپ کی رکنیت ملنے کے بعد بھارت کے پاس جوہری توانائی سے متعلق زیادہ مہارت آنے کا امکان ہے۔ نئی دہلی یہ بھی کر سکتا ہے کہ جوہری مادوں کا ذخیرہ کر کے اس کی مصنوعی قلت پیدا کردے۔ رکنیت ملنے سے بھارت پاکستان کے مقابلے میں بہتر پوزیشن پر آ جائے گا، جس سے یقیناً پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اسلام آباد اس حوالے سے بہت پریشان ہے اور یہ پریشانی بالکل بجا ہے۔ کوئی بھی ریاست اپنے حریف کو اپنے سے زیادہ طاقت ور نہیں دیکھنا چاہتی۔ اسی لیے پاکستان خود بھی یہ رکنیت حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے۔‘‘۔
DW