ظفرآغا
آسام میں جو ہوا ، اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اور یہ کیوں ہوا اس سے بھی سب کم از کم اب واقف ہوچکے ہیں۔ یہ کمال اور کرم مولانا بدرالدین اجمل کا ہے۔ حضرت جمعیت العلماء کے چشم و چراغ ہیں۔ قبلہ کا دل مسلمانوں کے مفاد میں ہر وقت دھڑکتا ہے۔ باریش، صوم و صلوٰۃ کے پابند اور عالم دین ہیں۔ آسامی مسلمانوں کی خدمت کے لئے موصوف نے آسام میں ایک پارٹی بھی بنا رکھی ہے۔
لیکن خدا بھلا کرے جناب مولانا بدرالدین اجمل صاحب کا ،کہ حالیہ آسام اسمبلی انتخابات میں ان کی پارٹی مسلمانوں کے حق میں کہیں کم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں کہیں زیادہ کام آگئی۔ یوں تو حضرت کی پارٹی کو آسام اسمبلی میں 13 نشستیں ملیں، گو خود ہار گئے۔ لیکن ’مولانا صاحب‘ کی مسلم فرقہ پرست سیاست کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو ووٹ بینک بی جے پی کے پرچم تلے متحد ہوگیا اور تقریباً 32 فیصد مسلم ووٹ بینک کانگریس اور مولانا صاحب کی پارٹی کے درمیان بُری طرح بٹ گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی آسام میں پہلی بار اقتدار میں آگئی اور وہ بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ۔ اب بنگلہ دیشی مسلمانوں کے نام پر آسامی مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوگا اب اس سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ مجھ کو کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہیں ہے۔
شکریہ ’حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب‘ ! خدا آسام کے مسلمانوں کو اجمل صاحب کی مسلم فرقہ پرست سیاست مبارک فرمائے۔ لیکن اتنا ضرور عرض کردوں کہ اگر اجمل جیسے کٹر مُلّا مسلم پلیٹ فارم بناکر سیاست کریں گے تو پھر زعفرانی لباس میں ہندو پلیٹ فارم بھی بنے گا۔
راقم اکثر لکھتا رہا ہے کہ اگر نعرہ تکبیر لگے گا تو جے سیا رام کا بھی نعرہ لگے گا۔ کیوں کہ ہندو اکثریت ہے اور مسلمان اقلیت ہے۔ اس لئے مسلم فرقہ پرست سیاست خود مسلمانوں کے لئے زہر ہے۔ یہ بات آسامی مسلمان اور اجمل جیسے مسلم سیاستدانوں کو کیوں نہیں سمجھ میں آتی!
میں یہ تو مانتا ہوں کہ آسامی مسلمانوں کو بہاری مسلمانوں کی طرح سوجھ بوجھ نہیں ہے اور ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی اور انھوں نے جذباتی رو میں اجمل کو اپنا قائد مان لیا۔
لیکن میں یہ ہرگز نہیں مان سکتا کہ ’حضرت مولانا‘ اجمل کو یہ بات نہیں سمجھ میں آرہی تھی۔ اجمل عالم دین کم اور تاجر زیادہ ہیں۔ وہ عطر کی عالمی سطح پر تجارت کرتے ہیں اور ایک تاجر کو نفع اور نقصان کی فکر عبادت خداوندی سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ ہر فعل میں منافع تلاش کرتا ہے۔ کیا پتہ اجمل کی سیاست بھی تجارت ہو جس میں ان کو منافع اور آسامی مسلمان کو گھاٹا ہو اور یہ بات ان کو بخوبی سمجھ میں بھی آرہی ہو۔
آخر اجمل تاجر ٹھہرے اور تاجر ہوتے ہوئے ان کو گھاٹے کی سیاست تو نہیں کرنی چاہئے۔ خدا جانے انھوں نے تجارت کی یا سیاست کی، لیکن یہ طے ہے کہ ان کی سیاست سے نہ صرف آسامی مسلمان بلکہ سارے ہندوستان کا مسلمان گھاٹے ہی گھاٹے میں رہا۔ کسی غیر سے گھاٹا ہو تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جب اپنے ہی پیٹھ میں چھرا گھونپیں تو حیرت ہوتی ہے۔
لیکن ہندوستانی مسلمان ہے کہ اس کو خود اپنی پیٹھ میں اپنوں سے چھرا گھبوانے کی گویا عادت ہوگئی ہے کیوں کہ ایک بات مسلمہ ثبوت ہے اور وہ یہ آزاد ہندوستان میں مولانا ابوالکلام آزاد کے بعد کوئی مسلم مفاد کی سیاست کرنے والا قائد پیدا ہی نہیں ہوا۔ گاہے باگاہے مسلم مفاد کا علم بلند کرنے والی جماعتیں اور پلیٹ فارم بنتے رہے لیکن یا تو وہ جماعتیں مسلم دوکانیں تھیں یا پھر انھوں نے کم عقلی میں ایسی مسلم سیاست کی اس سے مسلمان کا نقصان ہی ہوا۔
مجھ کو اپنے سیاسی شعور کے دور کی چند مثالیں یاد ہیں جن سے مسلمان کا زبردست نقصان ہوا۔ مثلاً 1980 ء کی دہائی میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنی تھی۔ اس نے بابری مسجد تحفظ کی سیاست کے نام پر ہندوستانی مسلمانوں کو نعرہ تکبیر کی صدا میں اکٹھا کیا۔ جیسا عرض کیاکہ مسجد تو گئی لیکن جوابی سیاست میں 1990 ء کی دہائی میں جے سیا رام کے پرچم تلے میں مردہ بی جے پی ملک کی سیاست پر چھا گئی۔ مسلمان کو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے جواب میں سینکڑوں فساد کا سامنا ہوا اور اس کے لیڈر اِن کی جذباتی تقاریر، اوما بھارتی جیسے درجنوں ہندوتوا لیڈروں کو ہندو سماج میں عزت بخش دی۔
اسی طرح مسلم پرسنل لاء بورڈ نے مسلم پرسنل لاء کے تحفظ کی سیاست کرکے کانگریس کو بے وجہ مسلم مفاد کی پارٹی بنوادیا۔ ساتھ ہی اڈوانی جی نے پورے سیکولرازم کو نام نہاد سیکولرازم کہہ کر ایسا داغدار کیا کہ آج بھی سیکولرازم ایک گالی بن چکی ہے۔ اسی طرح کبھی آسام میں اجمل تو کبھی حیدرآباد میں اویسی تو کبھی اترپردیش میں پیس پارٹی کے نام پر مسلم پرچم بلند ہوئے۔ ان تمام جماعتوں اور قائدین نے ہندو ردعمل پیدا کیا اور ظاہر ہے کہ مسلم فرقہ پرست سیاست نے ہندو فرقہ پرست سیاست کو فائدہ پہنچایا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ بہاری مسلمان کو منڈل سیاست کے وقت سے یہ بات سمجھ میں آچکی ہے کہ مسلم سیاسی پلیٹ فارم مسلمان کے لئے صرف نقصان دہ ہے لیکن آسام اور دیگر جگہوں پر مسلمان کو یہ کیوں نہیں سمجھ میں آتا ہے اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ بہار کے باہر مسلمان نے اپنے مفاد کی نہیں بلکہ اپنے جذبات کی سیاست کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اگر ایک باریش مولانا صاحب کو ووٹ ڈالا تو شاید دنیا اور آخرت دونوں کے راستے کھل جائیں گے۔ شاید آسامی مسلمان بدرالدین جیسے تاجر کو یہی سوچ کر ووٹ ڈالتا ہے۔ اسی طرح حیدرآباد میں مسلمان کو یہ لگتا ہے کہ وہ اویسی خاندان کے کانوں پر سوار ہوکر واپس نظام کے دور میں چلا جائے گا، یہ تمام جہالت کے آثار ہیں اور جب تک مسلمان اس طرح سیاست کرتا رہے گا تب تک وہ آسام جیسے حالات سے دوچار ہوتا رہے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ آسام کا سبق کیا ہے! سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر مسلم سیاسی پلیٹ فارم بنے گا تو ہندو سیاسی پلیٹ فارم بھی بنے گا اور اس مسلم ہندو سیاست میں نقصان مسلمان کا ہوگا۔ اس لئے یہ سمجھ لیجئے کہ مسلم سیاسی پلیٹ فارم یا تو کسی ہندو فرقہ پرست تنظیم کی کھڑی کی ہوئی سیاسی دوکان ہے یا پھر ایک جذباتی پلیٹ فارم ہے جو مسلم نقصان کا حامل ثابت ہوگا۔ موجودہ حالات میں ہندوستانی مسلمان کے لئے دو سبق ہیں۔ اولاً آسام ماڈل گھاٹے کا سودا ہے اور دوم مسلم بقاء اور مسلم مفاد صرف اور صرف بہار ماڈل کی سیاست میں ہے۔
Daily Siasat, Hyderabad, India