ہمیں نان ایشوز میں کون الجھا رہا ہے؟

anb

ارشد نذیر

ایک نجی ٹی وی نے چار خواتین کے زندہ جلا دیئے جانے کے پرتشدد واقعہ کے بعدجب ملک میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے تجزئیے کے لئے پروگرام ترتیب دیا تو اس پروگرام میں ماروی سرمد اور سنیٹرملا حمد اللہ جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے کے درمیان تلخ کلامی ہو گئی۔ تلخ کلامی کن کن مراحل سے گزرتے ہوئے بدکلامی، بدتہذیبی اور بد اخلاقی میں بدل گئی ہمارے اخبار، الیکٹرانک میڈیا اور دانشور اس پر پریشان ہیں۔

کچھ دانشور اور مفکر ان باتوں کا تجزیہ کرنے کے لئے کالم پہ کالم لکھے جارہے ہیں کہ اس بدکلامی اور بدتہذیبی کی شروعات کیسے ہوئیں؟ کون ذمہ دار ہے اور کس حد تک ذمہ دار ہے؟ اس ساری بحث میں دو گروپ بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ ایک گروپ ماروی سرمد کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے تو دوسرا مُلا حافظ حمد اللہ کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کر رہا ہے۔ صورتحال کا تجزیہ تاحال جاری ہے۔ دیکھیں کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

جہاں تک عورت کے احترام کا تعلق ہے تو یہی مولوی وعظ کرتے ہوئے اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرتے ہوئے بتا رہے ہوتے ہیں کہ جب حضرت بی بی فاطمہ حضور کے گھر تشریف لاتیں تو آپ ان کے احترام میں اپنے کاندھے کی چادر(عزت وغیرت کی علامت) اُن کے استقبال کے لئے زمین پر بچھا دیتے۔ ظاہر ہے مُلا جن کے من میں پلیدی ہے اپنی سیاست چمکانے کے لئے موقع محل کے مطابق ایسے وعظ اور تقاریر کرتے رہتے ہیں اورجب ایسے کردار کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوتو اُن کی مردانگی جاگ جاتی ہے اور عملی امتحان میں وہ فیل ہو جاتے ہیں۔

آپ کی حیات سے ایسی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں بہرحال عورت کے احترام کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ حالات خواہ جیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ شروعات کہیں سے ہی کیوں نہ ہی ہوں، تہذیب اور اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے۔ ایک اور دلچسپ مُلاؤں کی سیاست چمکانے کا بیان بھی سن لیجیئے۔ کہتے ہیں کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے اورحقیقی علم صرف ہےہی دین کا جو ان کے پاس ہے۔ لہذاعالم ہی سماج سدھار کر ذمہ دار ہے۔ عالم کی جوابدہی بھی سخت اور کڑی ہے۔

اس طرح کی بیان بازی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے اور عوام میں اپنی ساکھ بڑھانے کے لئے کی جاتی ہے۔ لیکن مُلا اپنی عملی زندگی میں عورت کوکوئی احترام دینے کے لئے قطعاً تیار نہیں ہے ۔ یہ باتیں گزشتہ چند دنوں سے واضح طور پر سامنے آرہی ہیں۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ ہمارے ماڈریٹ قسم کے اسلام پسند اوراسلام کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے داعی بھی اسلام سے ایسی بہت سے مثال ڈھونڈ لاتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ یہ ملاؤں کا قصور ہے اس میں اسلام کا کوئی قصور نہیں۔

جب ان سے یہ پوچھ لیا جائے کہ محترم پھر یہ مُلا کس قسم کے اسلام کی نمائندگی کرنے اور عوام کے فہمِ اسلام کی نمائندگی کے لئے اسمبلیوں میں پہنچ گئے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی اسلام کا ایسا ہی فہم رکھنے والے مُلا ہی گھسے بیٹھے ہیں۔ آپ تو جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہیں۔ جمہوری طریقے سے ان کو نکال باہر کیجیئے۔ آپ اس پر احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ جن سیاسی پارٹیوں کو آپ ووٹ دیتے ہیں آپ ان سے پوچھتے کیوں نہیں کہ وہ ایسی کونسلوں میں کس قسم کے لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں۔

آپ کیوں تقاضا نہیں کرتے کہ ایسی کونسلیں ان کےماڈریت فہمِ اسلام کی نمائندہ نہیں ہیں، ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔ ایسے ماڈریٹ اسلام کے زیادہ تر داعیوں کا تعلق پڑھے لکھے متوسط طبقے سے ہے۔ جواس جمہوریت یر یقین رکھنے کے باوجود بھی خود کو بے بس محسوس کرتےہیں۔ دلائل دے رہے ہوتے ہیں کہ جناب کیاکیا جائے یہ نظام ہی ایسا ہے جس میں یہی لوگ چور دروازوں سے بار بار گھس آتے ہیں۔ کچھ تو واضح طور پر اسلام میں جمہوریت جیسے کسی سیاسی نظام کی نفی کرتے ہیں۔ ایسے موقعوں پران کی کنفیوزن اور بے بسی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ بس اپنی بے بسی کا اظہار کرکے یہ جان چھڑا لیتے ہیں اور امورِ مملکت ایسے نیم خواندہ مولویوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ پھر یہی صورتحال جو آج کل سامنے آئی ہوئی ہے سامنے آتی ہے۔ 

اس کے مدِ مقابل جب ہم جیسے بائیں بازوکے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جمہوریت کا یہ نظام آپ کا اور ہمارا نمائندہ نظام نہیں ہے ۔ یہ سامراجی قوتوں نے اپنے مفادات کے لئے سجایا ہواہے۔ اب اس سامراجی نظام میں مُلا ایک اکائی کے طور پر دخیل ہے۔ مُلا اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے اللہ، نبی، قرآن اور پتا نہیں کیا کیا بیچنے کو تیار پھرتا ہے۔ تو اُس وقت یہی متوسط طبقہ جمہوریت اور جمہوری روایات کا داعی بن کر دوبارہ میدان میں اتر آتا ہے اور ہمیں سمجھانے لگتا ہے کہ ہماری بقا اسی نظام میں ہے۔

یہ باتیں تو ضمناً عرض کر دی ہیں جبکہ میرا حقیقی منشا یہ تھا کہ دوستوں کو یہ بتایا جائے کہ اس بحث میں اصل ایشوتھا کیا؟ اس ساری بحث میں ہمارا حقیقی ایشو یہ تھا کہ ہمارے سماج میں عدم برداشت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب خواتین کو زندہ جلایا جانے لگا ہے۔ عدم برداشت کے رویے، عدم روادری اور تشدد تو مردوں، قومیتوں، اقلیتوں اورمختلف فرقوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ جب عدم برداشت، عدم روادری کی بات ہوگی تواس کو علیحدہ علیحدہ نہیں دیکھنا چاہئے اور دیکھا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ ایسا کرنے سے مسائل کی نشاندہی کی بنیادی سمت ہی غلط ہوجاتی ہے۔ تاہم اگر بات عورتوں پر چل نکلی ہے تو اس پر بات کر ہی لیتے ہیں۔

حقیقی صورتحال یہ ہے کہ چار خواتین یعنی چار ذی روح انسانوں کو جلا کر موت کے میں منہ میں دے دیا گیا ہے۔ انسانیت کا یہ کتنا گرا ہوا درجہ ہے اور ہم خود کو انسان کہنے کے مستوجب بھی ہیں یا نہیں۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمارے معاشرے کو یہاں تک گھسیٹ لانے کے ذمہ وار ہیں؟ آخر ہمارے پیش کردہ حل کی کوششیں کیوں بارآور نہیں ہو رہیں؟ کون اس میں کس حد تک ذمہ وار ہے؟ آئندہ کیا طریقہ کیا اختیار کیاجائے کہ ہم خود کو اس قعرِ مذلت سے باہر نکال سکیں۔ کیا نظام میں کوئی خراب ہے یا ہمارے اپنے اندر کوئی خرابی ہے؟

کیا اس نعرہ کہ ہر شخص خود کو درست کرلے تو سارا نظام ٹھیک ہو جائے گا کی کوئی اجتماعی سماجی شعورکے حوالے سے حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ کیا کہیں یہ سارے مسائل سرمایہ داری نظام ہی کی پیداوار تو نہیں ہیں۔ یہ وہ چھبتے ہوئے سوال ہیں جن کی طرف کوئی نہ جانا چاہ رہا ہے اور نہ ہی ان کے جوابات کا حوصلہ رکھتا ہے۔ پھر جن کی بیٹیاں زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھیں، کیا کوئی ان کے گھر والوں اور ان کے حقیقی مسائل کی طرف بھی نظر دوڑا رہا ہے یا نہیں؟ اس سارے ایشو میں یہ حقیقی ایشوز چھپے ہوئے ہیں جن پر فضول بورژوائی بحثیں چھیڑی جا رہی ہیں۔

اب ذرا ان دو افراد کی حیثیت، سماجی اور سیاسی مقام و مرتبے پر بھی بات کرلیتے ہیں۔ میرے حساب سے یہ دونوں اصحاب سماج کی حقیقی پرتوں کے نمائندہ نہیں ہیں۔ مُلا حافظ حمد اللہ جیسا کہ اوپر بیان کر چکا ہوں ایک ایسی سیاسی پارٹی کا نمائندہ ہے جس کا مطمعِ نظر ہر صورت اقتدار میں رہنا ہے ۔ان سے دین، اللہ اور رسول کو بیچنا بعید نہیں ہے۔ ماروی سرمد غریب طبقہ کے خواتین کی نمائندہ نہیں ہے۔ اُسے ہمارے جیسے سماج میں وہ تمام آزادیاں حاصل ہیں جنہیں ہمارے جیسے نام نہاد اسلامی سماج میں گناہ کبیرہ خیال کیا جاتا ہے۔ وہ اگر ایسی کوئی بھی آزادی حاصل کرتی ہے تو یہ ملا اُس کا بال بھی بیکہ نہییں کرسکتے۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

اگر تاریخ میں جھانکنا چاہیں تو آپ کو مائی فیوڈل لارڈ پڑھ لینی چاہئے جس میں ہمارے جیسے اس سماج میں اس کلاس کی خواتین کی آزادیوں کا کچھ تذکرہ بھی موجود ہے۔ ایان علی کا کیس دیکھ لیجیئے۔ ذرا تعصب کی عینک اتر کر دیکھیں تو بہت سارے ایسے کیسز ہمارے سامنے آجائیں گے۔ یہ خواتین تو ہمارے ہی اس سماج کی ہیں لیکن ان کی دنیائیں ہی الگ ہیں۔ ایسے میں ماروی سرمد جس نے جواب دے کر مُلا کا منہ توڑ دیا اور بہت سے مڈل کلاسیوں کی ہمدردیاں بھی بٹورلی ہیں۔ اسمبلی تک میں اس پر بات ہو رہی ہے۔ دانشوروں کی توجہ کا مرکز بھی بن گئی ہیں۔ ایسے میں کوئی بات نہں ہو رہی تووہ اوپر بیان کردہ حقیقی ایشوزہیں جن پرکوئی آواز ہی نہیں اُٹھاتا۔

نہ مُلا، ماروی کے لئےقطعی حقیقی خطرہ ہے اوربالفرض اگر صورتحال میں کچھ کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے تو یہ موصوفہ لندن،امریکہ یا کینڈا کو سدھار جائیں گی۔ پھر ہمارے سماج کی خواتین کی نمائندگی کون کرے گا۔ تمام تراختلافات کے باوجود میں مُلا کے اس رویے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور یہ مانتا ہوں کہ ماروی کے ساتھ قطعاً ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔

لیکن اصل مسئلہ تو یہاں کی غریب خواتین کا ہے۔ ان کے مسائل ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ سول سوسائٹی ہے کہ ہر وقت یہ بتائے بغیر کہ گزشتہ خواتین کے حقوق کے قوانین جو ان کی مشاورت سے بنائے گئے تھے آخر کیوں موثر نتائج دینے میں ناکام رہے ہیں کہ اب وہ دیگر قوانین سازی کا مطالبہ کر رہی ہیں اورہمیں اس خوش گمانی کا شکار کر رہے ہیں کہ قانون سازی سے یہ مسائل حل ہو جائیں گے۔

مُلا جو خود ساختہ سماج کے ٹھیکیدار بنے پھر رہے ہیں یہ بتائیں کہ آخر سماج کے غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت، مہنگائی کے مسائل صرف خواتین کی شلواریں کسنے سے کیسے ٹھیک ہو جائیں گے؟ یہ وہ چبھتے ہوئے سوالات ہیں جن کے جوابات دینے سے ہمارے مُلا، ہماری سول سوسائٹی، ہمارا نام نہاد دانشور سب گھبراتے ہیں۔ ایسی وجہ سے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ نان ایشوز کی ایسی دھول اُڑائیں کہ اس میں حقیقی ایشوز دب کے رہ جائیں۔

Comments are closed.