ڈاکٹر پرویز پروازی
راجہ غالب احمد بھی گئے۔ ان کے ساتھ گورنمنٹ کالج کے قیام پاکستان کے قریب کی ادبی روایت دم توڑ گئی۔ صوفی تبسم مرحوم کی سرپرستی میں گورنمنٹ کالج کے نوجوان دانشوروں کی جس جماعت نے ادبی حلقوں سے اپنا لوہا منوایاتھا۔ ان میں مظفر علی سید تھے، غالب احمد اور انور غالب تھیں۔حنیف رامے اور شاہین حنیف رامے تھیں، جاوید شاہین تھے۔ ان میں اکثر لوگ نفسیات کے لوگ تھے اور ادبی حلقوں میں ممتاز سمجھے جاتے تھے۔ غالب احمد مظفر علی سید کے ساتھ ائیر فورس میں چلے گئے اور مدتوں اپنے نام کے ساتھ فلائٹ لیفٹینٹ غالب احمد لکھتے رہے۔ حنیف رامے سیاست میں آکرخوار ہوئے اور اپنی رہی سہی آبرو بھی گنوا بیٹھے۔ غالب احمد غالباً اس گروپ کے آخری آدمی تھے وہ بھی راہی بقا ہوئے۔ جو خاک سے بنا ہے وہ آخرکو خاک ہے۔ جاوید شاہین نے اپنی خودنوشت ’’میرے ماہ وسال‘‘ میں مزے لے لے کر صوفی صاحب اور ان کے پروردہ نوجوانوں کے گروپ اور ان کی صوفی صاحب کی سرپرستی میں ہونے والی ’’زائد از نصاب‘‘ سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔
ہمارا اور غالب احمد کا تعارف اس زمانہ میں ہوا جب وہ لاہور کے سکینڈری ایجوکیشن بورڈ کے کنٹرولر امتحانات بن کر لاہور آگئے۔ ہمیں کسی میٹنگ میں شرکت کرنا تھی جس کی صدارت غالب احمد کر رہے تھے۔ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے میں بھی تعلیم الاسلام کالج کا اولڈ سٹوڈنٹ ہوں ۔ بس باہمی اشتراک نے ہمیں ایک دوسرے سے قریب کر دیا پھر ادبی سطح پر یہ اشتراک بڑھتا گیا۔ غالب احمد سرگودھے آگئے تو ربوہ سے قربت کی وجہ سے ان کا ربوہ آنا جانا بھی بڑھ گیااور ہماری ملاقاتیں بھی بڑھ گئیں۔ ہمارا کالج ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے سارے ملک میں ممتاز تھا۔ ہر مہینے بلکہ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی ادبی تقریب برپا ہوتی رہتی۔ سرگودہے کے دیگر ادبا کی طرح غالب احمد شرکت کرتے۔
دسمبر میں جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ بڑی دھوم دھام سے منعقد ہوا کرتا تھا۔ میں اپنے گھر پر اس موقع پر ایک مشاعرہ منعقد کیا کرتا تھا جس میں ملک بھر سے آئے ہوئے شعرا شرکت کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک مشاعرہ کا واقعہ ہے کہ میری ہمیشرہ نسبتی (اب ڈاکٹر امتہ النصیر)جس کی عمر اس وقت کوئی دس برس ہوگی۔ بڑھ چڑھ کر مشاعرہ کے انتظامات میں حصہ لے رہی تھی کیونکہ اس نے سنا تھا کہ غالب بھی مشاعرہ میں شرکت کر رہے ہیں۔ جب شعرا اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے اور مشاعرہ شروع ہوا تو دروازے سے لگ کر بیٹھ گئی اور غور سے مشاعرہ سننے لگی۔ غالب احمد کی باری آئی اس نے ان کا کلام سنا اور اپنی بہن یعنی میری بیوی سے کہنے لگی ’’ہائے اللہ یہ غالب نے داڑھی کیوں اتراودی ہے۔ تصویر میں تو بہت خوبصورت لگتا تھا‘‘۔وہ غالب احمد کو مرزا غالب سمجھ بیٹھی تھی۔ ہم نے غالب احمد کو یہ بات سنائی ۔ غالباً اس کے بعد غالب احمد نے بھی داڑھی چھوڑ دی مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!۔
انتظار حسین نے اپنی خود نوشت ’’ چراغوں کو دھواں ‘‘ میں لکھا ہے ’’ بھٹو صاحب ویسے تو بہت دانا و بینا تھے مگر اسلام کا علم بلند کرتے وقت اس نکتہ کو فراموش کر گئے ۔ احمدیوں کو غیر مسلم قراردینے کا اقدام، جمعہ کی چھٹی ، گھڑ دوڑ، پابندی شراب پر پابندی مگر عجب ہوا کہ ایسے کام انجام دینے کے باوجود ان کی مسلمانی مشکوک رہی۔ ہاں یہ جو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا اقدام تھا اس کا تھوڑا اثر ہماری دوستیوں پر بھی پڑا۔ غالب احمد کو کب سے مسلمان سمجھتا چلا آرہا تھا اچانک پتہ چلا کہ وہ تو غیر مسلم ہے۔ مجھے تو خیر جانے دو ہمارے دوستوں کے حلقہ میں اسلام کے سب سے بڑے مبلغ تو اپنے شیخ صلاح الدین چلے آرہے تھے۔ ان کے دو ہی تو محبوب موضوعات تھے وقت کا مسئلہ اور اسلام۔انہوں نے اسلام کے بیچ سے کیسا کیسا فلسفہ کشید کرکے ہمارے ذہن نشین کیا تھا مگر حیف کہ غالب احمد کی نامسلمانی ان کی نظرو ں سے اوجھل رہی۔ اس انکشاف کی سعادت ہمارے سیکولر رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو حاصل ہوئی۔ خیر دوستی تو نبھانی تھی ۔ کتنے زمانے سے اس یار سے ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ اس دن میں نے سوچا آئین دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اب جبکہ دوست مسلم سے غیر مسلم بن گیا ہے تو اس حادثے پر اس سے جا کر اظہار ہمدردی کیا جائے یا تعزیت کی جائے۔ میرے ہوتے ہوئے میرے سوا جو دوسرا دوست غالب احمد سے تعزیت کرنے آیا تھا وہ حیات احمد خان تھے ‘‘۔ (چراغوں کا دھواں صفحہ-65 264)۔
پھر انتظار حسین نے اپنی دوسری خود نوشت ’’جستجو کیا ہے ‘‘میں لکھا ’’ان خوابوں نے یا اس خواب نے ان دنوں جا کر رنگ پکڑا جب میں لاہور شہر میں رچ بس چکا تھااور چھوڑی ہوئی بستی خواب و خیال بن چکی تھی۔ ناصر کاظمی کے ساتھ جو شب و روز بسر ہوئے یہ ان کا فیض تھا ۔ ان دنوں ناصر کے نہیں یاروں کی پوری منڈلی کے ساتھ اس شہر میں اتنا گھوما پھرا۔ گلی گلی کوچہ کوچہ سڑک سڑک سمجھ بیٹھاکہ ناصر کے ساتھ میں بھی اس شہر کا روڑا بن چکا ہوں۔ سوا ب اپنی چھوڑی ہوئی بستی کی گلیاں کوچے بھی کم کم یاد آتے تھے مگر خوابوں میں تو وہ اب زیادہ ہی آنے لگے تھے۔ شاید انہوں نے لاہور کے گلی کوچوں میں رچتا بستا دیکھ کر میرے بیدار شعور سے پسپا ہو کر میرے خوابوں میں پناہ لے لی تھی۔ شاید میرے اندر وہ چھپ کر بیٹھ گئے تھے اور مجھے نیند میں غافل پا کر مجھے یاد دلانے آتے تھے کہ نیا دیار نئے کوچے برحق مگر ہم بھی یہیں کہیں تمہاری یادوں میں شاد آباد ہیں۔
وہ راتیں بھی خوب تھیں۔ گھومتے پھرتے رات زیادہ ہوجاتی تو کوئی یہ سوچ کہ گھر دور ہے ہمارے رات کے کسی ہم سفر کے ہمراہ اس کے گھر جا پسرتا۔کسی ایسی ہی شبھ گھڑی میں غالب احمد میرے ٹھکانے پر آگیا۔ تنہائی میں دل کی باتیں کہنے کا موقع ملا تو میں نے یہ سوچ کر کہ غالب کا مضمون نفسیات ہے اسے اپنے خوابوں کی نوعیت بتائی۔ سوچا کہ کہ وہ اس کی معنویت پر کچھ روشنی ڈالے گا مگر اس نے کچھ اور ہی بات کی۔میرے سوال کے جواب میں اس نے ایک سوال کر ڈالا ’’ تم نے کافکا کا ناول کیسل پڑھا ہے؟‘‘۔
’’نہیں‘‘ میں کہا ’’بس میں نے اس کا ایک ہی ناول پڑھا ہے ٹرائل اور کچھ کہانیاں‘‘
’’اس ناول کو پڑھ لو‘‘
میں نے اس مشورہ کی وضاحت چاہی ۔ جواب دیا ’’بس تم یہ ناول پڑھ لو‘‘۔
۔۔۔پڑھا۔۔۔ میں حیران کہ یہ میں ناول پڑھ رہا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں ارے یہ تو میں خود اپنے خوابوں کے بیچ بھٹک رہا ہوں’’ (جستجو کیا ہے صفحہ 18۔17)
غالب احمد ادب کے میدان میں اتنے مصروف نہیں رے جتنی ان کی بیگم انور غالب رہیں۔ انور نثر ی نظم کی جدید ترین صنف سخن کی ایک لحاظ سے بانی تھیں مگر اپنی گوشہ نشینی کی وجہ سے کم ہی سامنے آتی تھیں۔غالب خود بھی پختہ کار غزل گو تھے مگر ان کا رجحان بھی چھپنے کی طرف نہیں تھا۔ دونوں کا کوئی مجموعہ کلام چھپا ہو تو میرے علم میں نہیں ۔ ہاں غالب احمد کی ادبی بصیر ت کا ایک منظر میر ا آنکھوں دیکھا ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب تخلیقی عمل چھپی تو ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی مگر کہیں کہیں سے اس کتاب کے مندرجات پر تنقید و تنقیض کی آوازیں بھی اٹھیں۔
کشور ناہید نے اپنے دولت خانہ پر ایک ادبی مکالمہ کا اہتمام کیا ۔ آغا صاحب سرگودھے سے پروفیسر غلام جیلانی اصغر کو اور ربوہ سے مجھ جیسے ہیچ مداں کو لے کر لاہور آئے اور ہم کشور ناہید کے ہاں حاضر ہوئے ۔ کشور نے لاہور سے جناب جیلانی کامران، اور غالب احمد کو مدعو کر رکھا تھا۔ ایسی مکالماتی نشست میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار دیکھی جس میں مدعوئین نے ایک دوسرے کے نظریات اور خیالات پورے تحمل اور بردباری سے سنے ہوں اور حقیقت کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہو۔
چار پانچ گھنٹے تک یہ نشست جاری رہی غالباً کشور ناہید نے اسے ریکارڈ بھی کیا تھا شاید اس کی روداد کہیں چھپی بھی ہو مگر میرے علم میں نہیں۔اس نشست میں غالب احمد نے جس بالغ نظری سے کتاب کے مالہ اور ماعلیہ پر بحث کی تھی وہ ادب میں یادگار رہنے والی چیز ہے۔ اس نشست میں شامل ہونے والے ہر ایک شخص نے غالب احمد کو داد دی تھی اور وہ حسب طبیعت سر جھکائے بیٹھے رہے۔
غالب احمد سرگودہا بورڈ کے چئیرمین بنے وہاں سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کے چئیرمین بن کر لاہور آگئے پھر جائنٹ سیکرٹری ایجوکیشن کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور وہیں سے وظیفہ یاب ہوئے ۔ وظیفہ یابی کے بعد سارا وقت جماعت احمدیہ لاہور کے ترجمان رہے۔ 28 مئی کے حادثہ کے بعد جس میں لاہور کی احمدیہ مساجد پر حملے کرکے کوئی سو کے قریب احمدیوں کو شہید کیاگیا تھایہ کام بڑی ذمہ داری کا تھا اور راجہ غالب احمد نے اس کام کو خوب نبھایا۔
پچھلے دو تین برسوں سے ان کی طبیعت ناساز تھی خاص طور پر انور غالب کی وفات کے بعد تو بہت ہی اداس اور پریشان رہنے لگے تھے۔پچھلے جمعہ کو لاہور میں داعی اجل کو لبیک کہااور ربوہ میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔آمین۔
♠
راجہ غالب احمد کا شعری مجموعہ ’’رخت ہنر‘‘ کے نام سے نیا زمانہ پبلیکشنز ، لاہور-پاکستان سے شائع ہوا تھا۔اس کی تقریب رونمائی میں انتظار حسین نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ ایڈیٹر
4 Comments