لیاقت علی ایڈووکیٹ
ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی ایشیا کی پہلی سو یونیو رسٹیوں میں کوئی جگہ حاصل نہیں کر سکی ہے۔پاکستان نے آج تک سائنس کے میدان میں صرف ایک نوبیل انعام جیتا ہے اور جس شخص کو یہ انعام ملا اسے ہم بمشکل پاکستانی تسلیم کرتے ہیں ۔
ہم نے اسے زندگی میں پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی تھی اور جب وہ مرا تو اس کی میت کووصول کرنے کے لئے کوئی چھوٹے سے چھوٹا سرکاری افسر موجود نہیں تھا کیونکہ ہمارے آئین کے مطابق وہ مسلمان نہیں تھا گو کہ وہ پاکستانی تھا لیکن پاکستانی ہونا اتنا اہم نہیں جتنا مسلمان ہونا ۔مرنے کے بعد بھی ہم نے اس کو نہیں بخشا اور اس کی قبر کی بے حرمتی اور معمول کی بات ہے ۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری تعلیمی پسماندگی کی وجہ تعلیم کے لئے فنڈز کی کمی ہے اگر ہم فنڈز بڑھا دیں تو ہماری تعلیمی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے ۔یقیناًفنڈز کی فراہمی کسی بھی کام کو سر انجام دینے کے لئے بہت اہم اور ضروری اہمیت کی حامل ہے ۔ لیکن کیا فنڈز فراہم ہوجائیں تو ہماری تعلیمی کارکردگی بہتر ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں ایسا نہیں۔
ایچیسن کالج کو فنڈز کی کمی کب تھی پھر آج تک اس کا کوئی طالب علم نوبیل انعام تو کجا کسی چھوٹی سی سائنسی دریافت کا کریڈٹ کیوں حاصل نہیں کرسکا؟ ویسے ہمارے حکمرانوں کا تعلیمی تعلق اسی ادارے سے رہا ہے ان کی کارکردگی اور اہلیت دیکھ کر اس کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
پرائیویٹ سیکٹر میں اور بھی بہت سے ایسے تعلیمی ادارے موجود ہیں جنھیں فنڈز کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے لیکن سائنس تو کجا سماجی علوم میں بھی ان کی کارگردگی قابل تحسین نہیں ہے ۔لمز (لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ ) جسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹی کہا جاتا ہے،نے گذشتہ بیس سالوں میں کون سا تیر مار اہے ؟ کیا لمز فنڈز کی کمی شکار ہے ؟ بالکل نہیں ۔
گورنمنٹ کالج نے بہت اعلیٰ درجے کے بیوروکریٹس تو ضرور پید ا کئے ہیں لیکن کیا کوئی بین الاقوامی شہرت کا حامل سائنس دان، ما سوائے ڈاکٹر عبدالسلام ،بھی پیدا کیا ہے ؟ڈاکٹر عبدالاسلام کو ان کی جس سائنسی تحقیق پر بوبیل انعام ملا وہ انھوں نے پاکستان میں نہیں بیرون ملک کی تھی ۔
جب تک آپ یونیورسٹیوں اور کالجز میں سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے اس وقت نیچرل سائنس تو کجا سو شل سائنس کے کے میدان میں ترقی ممکن نہیں ۔ پاکستان کی ایک بڑی یونیورسٹی ، پنجاب یونیورسٹی ،کا وائس چانسلر کہتا ہے کہ اوبامہ ایبٹ آباد میں تھا ہی نہیں اور نہ ہی وہ وہاں مارا گیا تھا یہ سب جھوٹ اور محض امریکی پراپیگنڈا ہے۔ وہ کہتا ہے ٹوئن ٹاورز خود امریکہ کے خفیہ اداروں نے یہودیوں کے ساتھ سازش کر کے منہدم کرائے تھا تاکہ عالم اسلام کے خلاف کاروائیوں کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ کیا ایسے ’صاحب بصیرت ‘ استاد کے زیر سایہ تعلیم پانے والے طالب علموں سے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ کوئی علمی اور سائنسی معرکہ سر انجام دیں گے ؟۔
سائنس تو ہمارے بہت سے الوہی عقائد کو ہی چیلنج کر دیتی ہے کیا ہمارا سماج یہ برداشت کرنے کے لئے تیار ہے ؟ہمیں تو حمزہ علی عباسی برداشت نہیں ہم سٹیفن ہاکنگ کیسے برداشت کرسکتے ہیں جو کسی بھی مذہب کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ اگر وہ پاکستان میں ہوتا تو کب کا سفر آخرت پر روانہ ہو چکا ہوتا۔
ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل سائنسی کتابیں اپنے مواد کے اعتبار سے اسلامیات کی کتابیں ہیں ۔ اسلامیات ضرور پڑھائیں لیکن سائنس کے نام پر اسلامیات نہ پڑھائیں ۔ہم اپنے بچوں کوڈارون کا نظریہ ارتقا پڑھاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اور اگر ٹیچر کو نصابی تقاضوں کے تحت پڑھانے پڑجائے تو وہ بچوں کو بالوضاحت بتا دیتا ہے کہ یہ محض امتحانی نقطہ نظر سے پڑھیں ویسے یہ سب جھوٹ اور دینی عقائد کے خلاف ہے۔
جب کسی بچے کو یہ بتا دیا جائے کہ جو کچھ وہ پڑھ رہا ہے وہ اس کے مذہبی عقائد سے متصادم ہے تو اس طالب علم سے یہ امید کہ وہ آگے چل کر سائنس کے میدان میں کوئی معرکہ سرانجام دے گا عبث ہے۔ کیا پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں علامہ اقبال یا جنا ح کے بارے میں کوئی ایسا مقالہ لکھا جاسکتا ہے جو ریاستی بیانیہ سے مختلف ہو ۔
اگر کسی عام آدمی سے کہا جائے کہ علامہ اقبال کے ایک بیٹے کا نام آفتا ب اقبال بھی تھاتو وہ حیران ہوکر منہ دیکھنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں جی ان کا تو ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام جاوید اقبال ہے۔ کیاسکندر جناح پیکٹ کے پس پشت جناح کی سیاسی موقع پرستی کا ذکر ہو سکتا ہے ؟۔کبھی نہیں ۔ ہم گاندھی کی جنسی زندگی کے بیان سے لذت حاصل کرتے ہیں کیا کبھی کوئی یہ لکھ سکتا ہے کہ جناح نے اپنے سنیئراور محسن کی اٹھارہ سالہ بیٹی اس وقت سول میرج کرلی تھی جب خود ان کی اپنی عمر بیالیس سال تھی۔
فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ کسی حد تک ہے لیکن اس سے بڑھ کر مسئلہ ایسی سوچ کا ہے جو تجسس اور تنقید کو پرموٹ کرنے کی بجائے اس کی حو صلہ شکنی کرتی ہے ۔ اگر ہم تعلیمی میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں فنڈز کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ایسی سوچ کو بھی پروان چڑھانا ہوگا جو افراد ہوں یا جامد سیاسی اور سماجی عقائد ان سب کا تنقیدی جائزہ لینے پر ابھارے۔
لیکن لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ہم اپنے طالب علموں کو ایسی سوچ فراہم نہیں کرسکتے کیونکہ ایسا کرنے سے ہماری ’نظریاتی بنیاد ‘ منہد م ہونے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے ۔
♠
One Comment