ملک تحسین رضا
میرے اردگرد کھانسنے اور کراہنے کی آوازیں ہیں۔
’کیا تمھیں دوبارہ درد شروع ہو گیا ہے ‘؟فضا بی بی اپنی چھ سالہ بیٹی تنزیلہ بی بی سے پوچھتی ہے ۔ جواب دینے کی بجائے چھوٹی بچی اپنے جسم کو حرکت دیئے بغیر اپنی آنکھیں موندلیتی ہے ۔
پیر محب جہانیاں کی درگاہ اور اس سے متصل قبرستان پر چھائی مہیب خاموشی کووقفے وقفے سے ابھرنے والی سسکیاں اور صبر و تسلی کے دھیمے الفاظ توڑ دیتے ہیں۔ قبرستان میں ہر طرف ریت ہی ریت ہے ماسوائے ایک درخت کے ۔’ جھل ‘کے اس درخت کو ’مقدس‘ خیال کیا جاتا ہے ۔
میر ے ارد گرد 23 افراد جن کی عمریں ایک دوسر ے سے مختلف ہیں ، ’جھل‘ کے اس’ مقدس‘ درخت کے نیچے گردنوں تک ریت میں دبے ہوئے ہیں ۔ننھی تنزیلہ بھی ان میں شامل ہے۔ ان افراد کو ان کے رشتہ داروں نے ریت میں اس یقین کے ساتھ’ دفن ‘ کیاہوا ہے کہ ان کو لاحق لا علاج امراض بالخصوص اس ’مقدس‘اور’ معجزاتی ‘ریت میں دفنانے کی بدولت صحت یاب ہو جائیں گے ۔پیر محب جہانیاں کی درگاہ اور اس سے متصل یہ قبر ستان مظفر گڑھ شہر سے 40کلو میٹر دور شاہ جمال روڈ پر ریت کے اونچے ٹیلوں کے درمیان واقع ہے ۔
درگاہ کے متولی خلیفہ سائیں کا کہنا ہے کہ پیر محب جہانیاں سے ایسے لا علاج مریضوں کی صحت یابی کے لئے دعا کی جاتی ہے جو دنیاوی ڈاکٹروں کے علاج معالجے سے مایوس ہو چکے ہوتے ہیں ۔ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ یہاں سے 200 کلو میٹر دور جھنگ سے آئی ایک عورت کو ’دفن‘ ہونے کے لئے جگہ الاٹ کر نے میں مصروف تھے ۔
یہ ہماری آخری امید ہے ،ننھی تنزیلہ کی ماں نے درگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ان کی بچی خون کے سرطان کی مریضہ ہے ۔تنزیلہ کو ایک سال قبل کینسر کی تشخیص ہوئی تھی ۔ اس کے والدین اپنی تمام وسائل اور جمع پونجی ۔چار کنال زرعی اراضی ، زیورات ،مویشی، دوست احباب اور رشتہ داروں سے ملنے والی امداد اور قرض سب کچھ تو وہ اپنی بیٹی کے علاج پر خرچ کر چکے ہیں لیکن وہ صحت یاب نہیں ہوسکی ۔نشتر ہسپتال ملتان کے ڈاکٹروں نے تنزیلہ کے والدین کو کہہ دیا ہے کہ اس کا علاج ممکن نہیں ہے اور وہ اس ضمن میں مزید کچھ نہیں کر سکتے ۔ بے بسی اور مایوسی کا یہی وہ لمحہ تھا جب تنزیلہ کے والدین کو ان کے رشتہ داروں نے پیر محب جہانیاں کی درگاہ پر ریت سے کینسر کے علاج کو آزمانے کا مشورہ دیا ۔
تنزیلہ ریت کے جس ڈھیر میں ’دفن‘ ہے اس کے ساتھ ہی غلام ہاشم بھی گردن تک اس ’مقدس‘ ریت میں دبا ہوا ہے ۔ وہ مسکرارہا ہے اور اس کا سر ادھر ادھر حرکت کر رہا ہے ۔آج اس کا یہاں چھٹا روز ہے ۔
خلیفہ سائیں کا کہنا ہے کہ مریض کو ہر روز چھ گھنٹے ریت میں ’دفن‘ ہونا ہوتا ہے اور یہ کورس نو دنوں پر محیط ہے ۔جنوبی پنجاب میں یہ مئی کا مہینہ ہے اور درجہ حرارت 42ڈگری کو چھو رہا ہے ۔ جھل کے ’مقدس ‘ درخت کے سوا مزار کے ارد گرد کوئی سایہ نہیں ہے۔ ’جھل‘کا سایہ ’ریت کے ٹیلوں میں دفن‘ افراد کے لئے کافی نہیں ہے لیکن جیسے جیسے سورج ڈھلتا جاتا ہے اسی طرح سایہ بھی اس کا ہم رکاب رہتا ہے ۔ریت کے ٹیلوں میں ’دفن‘ تمام افراد کے لئے لازم ہے کہ وہ چند گھنٹے سورج کی شعاعوں کی تپش براہ راست برداشت کریں ۔
’یہ پیر صاحب کا معجزہ ہے کہ یہاں کی ریت بہت زیادہ گرم نہیں ہوتی ‘متولی خلیفہ سائیں فخریہ بیان کرتا ہے ۔’یہ جو تھوڑی بہت تپش ہے یہی تو زخموں کو مندمل کرتی ہے ‘۔ریت میں ’دفن‘ افراد کے اہل خانہ کے علاوہ یہاں چند دوسرے سن رسیدہ افراد بھی موجود ہیں جو متولی خلیفہ سائیں کے مدد گار اور معاون ہیں۔ان معاونین میں سے ایک مجھے بتاتا ہے کہ ’دفن ‘ افراد کی اکثریت کینسر کی مریض ہے یا پھر ایسے امراض میں مبتلا ہیں جن کی تشخیص ڈاکٹر ز نہیں کر سکے اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ لاعلاج ہیں ۔اس کے بقول ریت کے علاج سے انھیں افاقہ ہوتا ہے اور بلا شبہ وہ رو بصحت ہوتے اور خوشی پاتے ہیں ۔
’ تم اس ’علاج‘کا مریضوں سے کتنا معاوضہ وصول کرتے ہو ‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’کوئی مخصوص رقم یا معاوضہ نہیں ‘ اس نے جواب دیا ۔ ’اگر آپ مکمل طور پر صحت یاب ہوجائیں اور خوش ہو کر خلیفہ سائیں کو جو کچھ بھی دیں گے وہ اسے بخوشی قبول کر لیں گے ‘۔
’مدفون‘ افرا د میں جھنگ کی رہائشی ثمینہ بھی شامل ہے جو پیشے کے اعتبار سے ٹیچر ہے ۔اس کا کہنا ہے کہ اپنے کزن کے ساتھ شادی کے پانچ سال بعد بھی اس کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تھا ۔ پھر اسے پیر محب جہانیاں کی درگاہ پر ریت کے ذریعے علاج کے بارے میں بتایا گیا ۔چنانچہ گذشتہ سال اس نے پیر محب جہانیاں کی درگاہ پر حاضری دی اور خود کو ریت میں ’دفن ‘ کیا ۔
یہ ریت میں ’دفن ‘ہونے کا معجزہ تھا کہ اس کے ہاں بیٹا پید اہوا ۔اس سال وہ پھر درگاہ پر حاضر ہوئی اور خود کو ریت میں ’دفن‘ ہوئی تاکہ اس کے ہاں ایک اور بچہ پیدا ہو ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ا س دوران ا پنے شہر میں مسلسل گائنا کالوجسٹ کے زیر علاج رہی لیکن اس کو یقین ہے کہ یہ پیر محب جہانیاں اور اس ’مقدس‘ ریت میں ’دفن‘ ہونے کا معجزہ ہے کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ۔
درگاہ پر بہت سے زائرین دور دراز علاقوں سے آئے ہیں ۔لیکن یہاں غلام حسین بھی موجود ہے جو درگاہ کے نواح میں واقع قصبہ شاہ جمال سے تعلق رکھتا ہے ۔وہ خود کو پیر محب جہانیاں کا پیر و کار بتاتا ہے ۔وہ کہتا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو درگاہ پر حاضری دیتا اور مٹی کا دیا جلاتا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ ریت کے ذریعے علاج کا یہ سلسلہ کچھ ہی سال قبل شروع ہوا ۔ پہلے یہاں ایسا کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔قبل ازیں تو ارد گرد کے لوگ درگاہ پر ہر جمعرات کو منتیں مانگنے کے لئے حاضری دیا کرتے تھے۔
غلام حسین کا کہنا ہے کہ دیہی صحت مرکز یہاں موجود اور کام کر رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ درد سے افاقہ کی دوا اس مرکز میسر ہے لیکن جہاں تک تعلق ہے کینسر اور دماغی امراض سے متعلق طبی سہولتوں کا وہ پورے جنوبی پنجاب میں ندارد ہیں او ریہی وجہ ہے کہ عوام ایسے مافوق الفطرت علاج معالجے کے طریقوں کو آزمانے پر مجبور ہیں ۔وہ ریت کے اس علاج پر یقین نہیں رکھتا لیکن ہر جمعرات کو درگاہ پر حاضری ضرور دیتا ہے ۔ درگاہ روحانی خوشی حاصل کرنے کی بہترین جگہ ہے اور میں جوں ہی دربار کے احاطے میں داخل ہوتا ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ وقت تھم گیا ہے ۔
ضلعی محکمہ صحت ریت کے ذریعے علاج کے اس طریقے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے ۔ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ ڈاکٹر اطہرکہتے ہیں کہ جدید میڈکل ساینس اس قسم کے طریقہ علاج کو مسترد کرتی ہے ۔ اس قسم کے طریقے محض وقت کا زیاں ہیں وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں اور بعض صورتوں میں تو ریت کے ذرے انفیکشن میں اضافے کا باعث بنتے ہیں اور مریض کی حالت زیادہ بگڑ جاتی ہے ۔
لیکن جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ درگاہ کے متولی اور اس علاج بذریعہ ریت سے استفادہ کرنے والوں کے خلاف کوئی ایکشن لیں گے تو انھوں نے کہا بالکل نہیں ۔ اور اس کا جواز وہ یہ دیتے ہیں کہ درگاہوں اور مزاروں پر منتیں مانگنا صدیوں پرانی روایت ہے ۔ان کے بقول یہ ایک قسم کی روحانی تھیراپی بھی تو ہے ۔
ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ:بشکریہ ڈیلی ڈان
One Comment