جرمن عوام اسلام سے خوفزدہ ہیں
جرمنی میں ’اسلامو فوبیا‘ یعنی مذہب اسلام سے خوف میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق اس حوالے سے جرمن معاشرے میں تناؤ کی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے نتائج کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک بڑی تعداد میں مہاجرین کے جرمنی پہنچنے کی وجہ سے مقامی لوگوں میں ’اسلامو فوبیا‘ بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
یاد رہے کہ تازہ مہاجرت کے بحران کے نتیجے میں دس لاکھ سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن جرمنی پہنچ چکے ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی ہے۔اس مطالعاتی جائزے میں مجموعی طور پر دو ہزار چار سو بیس افراد سے رائے لی گئی، جن میں سے ہر دوسرے فرد نے محسوس کیا کہ جرمنی میں غیر ملکیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
سنہ 2009 میں کرائے گئے ایسے ہی جائزے کے مقابلے میں اس تازہ جائزے میں اسلامو فوبیا کے شکار افراد کی تعداد میں 30.2 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ سن 2014 کے ایسے ہی ایک سروے کے مقابلے میں اس تعداد میں 43 فیصد کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
ایسے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، جن کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا جرمنی میں داخلہ ہی بند کر دینا چاہیے۔ اس مطالعاتی جائزے کو لائپزگ یونیورسٹی نے دیگر متعدد اداروں کے ساتھ مل کر کروایا ہے۔
مسلمان مہاجرین کی بڑی تعداد کے جرمنی آنے کے باعث مہاجرت مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی عوامی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اسلام مخالف یہ پارٹی جرمنی میں میناروں والی مساجد کی تعمیرکے خلاف ہے جبکہ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ برقع پر پابندی عائد کر دینا چاہیے۔ اس پارٹی کا کہنا ہے کہ مذہب اسلام جرمن آئین سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔اسی تناظر میں جرمنی میں نہ صرف اجانب دشمنی بلکہ مہاجرین کے شیلٹر ہاؤسز پر حملوں میں بھی اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے۔
اس سروے کے مطابق جہاں اے ایف ڈی کے حامی مہاجرین سے خوفزدہ ہیں، وہیں ایک اور جرمن پارٹی ’گرین‘ کے حمایتی ووٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں مسلمانوں سے کوئی خوف نہیں ہے۔
اس تازہ مطالعاتی سروے میں جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند گروہوں کا تجزیہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ ایسے گروہوں کے مسلمانوں کے علاوہ دیگر نسلی گروہوں کے خلاف جذبات میں بھی شدت پیدا ہوئی ہے۔
اس سروے میں حصہ لینے والے مشرقی جرمنی کے چالیس فیصد رائے دہندگان نے اس مفروضے کو درست قرار دیا کہ غیر ملکی جرمنی صرف سماجی بہبود کی مراعات حاصل کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔ مغربی جرمنی میں تیس فیصد رائے دہندگان نے اس مفروضے کو درست قرار دیا۔
دوسری طرف جرمن حکومت کا کہنا ہے کہ مسلمان مہاجرین کو اسلامی قانون نہیں بلکہ مقامی قانون کی پیروی کرنا ہو گی۔جرمنی کے وزیر انصاف ہیکو ماس کا کہنا ہے کہ حکومت ایک سے زیادہ شادیاں اور نابالغ بچوں کی شادیوں کو تسلیم نہیں کرے گی۔انھوں نے یہ بات جرمنی کے جریدے بلڈ سے بات کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا: ’جو بھی جرمنی آتا ہے اس کو کوئی حق نہیں کہ اپنی ثقافتی اقدار یا مذہبی عقیدے کو ہمارے قانون سے بالاتر رکھے‘۔
جرمنی میں بڑی تعداد میں مسلمان پناہ گزینوں کی آمد کے باعث ایک سے زیادہ شادیاں کرنے اور نابالغوں کی شادیوں کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ جرمن قانون کے مطابق ملک میں نئے آئے ہوئے افراد سمیت کوئی بھی ایک وقت میں دو افراد سے شادیاں نہیں کر سکتا۔ تاہم بلڈ اخبار کے مطابق اس قسم کے تعلقات خاموشی سے سہے جا رہے ہیں۔ لیکن وزیر انصاف چاہتے ہیں کہ حکام اس عمل کو نظر انداز نہ کریں۔
’ہر کسی کو قانون کی پاسداری کرنی ہو گی چاہے وہ یہیں پیدا ہوا ہو یا ابھی ابھی اس ملک میں آیا ہو۔ اور اس کا اطلاق نابالغوں کی شادیوں پر بھی ہوتا ہے۔ ہم کسی صورت بھی زبردستی کی شادی کی اجازت نہیں دے سکتے اگر اس سے کم عمر کی کوئی لڑکی متاثر ہو رہی ہے۔واضح رہے کہ جرمنی میں شادی کی کم از کم عمر 18 برس ہے۔‘
اخبار کا کہنا ہے کہ بویریا میں حال ہی میں آنے والے پناہ گزینوں میں 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کے 550 کیس اور 16 سال سے کم عمر کی شادیوں کے 161 کیس رجسٹر کیے گئے ہیں۔اخبار کے مطابق زیادہ تر کیسوں میں نابالغ لڑکیوں کی شادی جرمنی آنے سے قبل ہی کر دی گئی تھی۔جرمنی میں اس حوالے سے کوئی قانون نہیں کہ ان نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کے حوالے سے کیا کیا جائے جن کی شادی جرمنی سے باہر ہوئی ہیں۔تاہم جرمنی کی عدالتیں اس قسم کے کیسوں کا فیصلہ ہر کیس کی نوعیت کو دیکھ کر کرتی ہیں۔
DW/BBC
♠