آصف جیلانی
پچھلی جمعرات کو ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ کے بعد برطانیہ غیر یقینی کے ایسے خطرناک بھنور میں گرفتار ہو گیا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی اور جس سے فوری طور پر نکلنے کا راستہ بھی نظر نہیں آتا۔ ایک جانب ،ریفرنڈم کے فیصلہ کے فورا بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے استعفیٰ کے اعلان پرحکمران ٹوری پارٹی میں ان کے جانشین کے انتخاب پر خلفشار برپا ہے ۔ دوسری جانب حزب مخالف لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے خلاف پارٹی میں بغاوت بھڑک اٹھی ہے ۔
ان پر لیبر پارٹی کے رہنماوں نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ریفرنڈم میں یورپ میں شمولیت کے حق میں پورے دل وجان اور جوش و خروش سے حصہ نہیں لیاجس کے نتیجہ میں لیبر پارٹی کے اراکین اور حامیوں کی بڑی تعداد نے یورپ سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا۔ کوربن کے خلاف بغاوت کی آگ اس وقت اور تیزی سے بھڑک اٹھی جب انہوں نے شیڈو کابینہ میں امور خارجہ کے وزیر ہلری بین کو رات گئے برطرف کر دیا کیونکہ ان کے بارے میں خبریں تھیں کہ وہ پارٹی کی قیادت سے جیریمی کوربن کو ہٹانے کے لئے تحریک چلارہے ہیں۔ ہلری بین کی برطرفی کے بعد شیڈو کابینہ کے دس وزیروں کے استعفیٰ نے جیریمی کوربن کے لئے سنگین بحران پیدا کر دیا ہے۔
پھر عوام سخت مخمضہ میں گرفتار ہیں کہ ریفرنڈم کے فیصلہ پر کب اور کس طرح عمل ہوگا اور اس کے کیا دور رس نتائج ہوں گے۔یورپ کے دروازے بند ہونے کے بعد،برطانیہ کی معیشت کا کیا بنے گا؟ کیا واقعی یورپ سے ، روزگار اور یہاں کے فلاحی نظام سے فائدہ اٹھانے والوں کا سیلاب رک جائے گا جس پر مہم کے دوران سب سے زیادہ واویلا اور شور مچایا گیا تھا۔برطانیہ میں پہلے ہی سے آباد 13 لاکھ یورپین کاکیا مستقبل ہوگا اور یورپ میں آباد دس لاکھ برطانوی شہریوں کو کن مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غرض غیر یقینی کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس کا اس وقت عوام کو سامنا ہے۔
ریفرنڈم کی مہم کے دوران ، لندن کے سابق مئیر بورس جانسن ، وزیر اعظم کیمرون کے سب سے بڑے حریف اور وزارت اعظمیٰ کے سب سے بڑے دعوے دار بن کر ابھرے تھے ۔ اور اب، کیمرون کے استعفیٰ کے بعد وزارت اعظمی کے امیدواروں میں بورس جانسن سر فہرست ہیں، لیکن پارٹی میں بہت سے لوگ انہیں پسند نہیں کرتے۔ سیاسی مبصرین اس بات کو بہت اہمیت دے رہے ہیں کہ ریفرنڈم کے فیصلہ کے فورا بعد وزیر اعظم کیمرون نے یونین کے آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت فوری طور پر یورپ سے علیحدگی کا عمل شروع کرنے کی کاروائی کے آغاز کا اعلان نہیں کیا۔
یوں انہوں نے اس اقدام کی ساری ذمہ داری بورس جانسن یا جو بھی وزیر اعظم منتخب ہو گا اس پر ڈال دی ہے ، جو یقیناًیورپ سے برطانیہ کی علیحدگی کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہچکچائے گا، کیونکہ اب انخلاء کے حقیقی نتائج واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ یورپ سے طلاق کے تصفیہ کے مذاکرات میں پانچ سال سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے جس کے دوران بے یقینی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ۔مبصرین کے نزدیک کیمرون نے فوری استعفیٰ دے کر در اصل ریفرنڈم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
بے یقینی کی تاریکی کے علاوہ، سب سے بڑا خطرہ یورپ سے نکلنے کے بعد برطانیہ کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا ہے۔ اسکاٹ لینڈ کے ساٹھ فی صد شہریوں نے یورپ میں شامل رہنے کے حق میں ووٹ دیا ہے، اسکاٹ لینڈ کی حکمران قوم پرست جماعت’’ ایس این پی‘‘ کی قیادت نے صاف کہہ دیا ہے کہ یورپ سے علیحدگی کا فیصلہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوگا اور اب برطانیہ سے آزادی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ۔
چنانچہ پارٹی نے آزادی کے لئے نئے ریفرنڈم کا فوری مطالبہ کر دیا ہے۔ ادھر شمالی آئرلینڈ میں آئی آر اے کے سیاسی بازو شین فین نے آئرلینڈ کے دوبارہ اتحاد کے مطالبہ کے لئے ریفرنڈم کا نعرہ بلند کر دیا ہے۔ اگر اسکاٹ لینڈ اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ سے علیحدہ ہوگئے تو انگلستان ویلز کے ساتھ یورپ کے کنارے ایک چھوٹا سے جزیرہ بن کر رہ جائے گا۔
ریفرنڈم کے فورا بعد اس چومکھی بحران سے برطانیہ کے عوام سخت گھبرا گئے ہیں اور ان لوگوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریفرنڈم میں غلط فیصلہ ہوا ہے ، ان میں پشیمانی کا احساس غالب ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنڈم کے فیصلہ کو مسترد کر دینا چاہئے ۔ ان کی دلیل ہے کہ یورپ سے نکلنے کے بارے میں ریفرنڈم کا فیصلہ بہت کم اکثریت سے ہوا ہے ۔ یورپ میں شمولیت کے حق میں 48فی صد ووٹ کے مقابلہ میں یورپ سے نکلنے کے حق میں 52فی صد ووٹ آئے ، جب کہ کل ووٹروں میں سے 72فی صد ووٹروں نے ریفرنڈم میں ووٹ ڈالے۔
ریفرنڈم کے نتیجہ کے اعلان کے دو گھنٹے بعد ہی رائے دہندگان نے اس نتیجہ کو للکارا ہے۔اور حکومت اور پارلیمنٹ کے سامنے ایک پیٹشن پیش کی ہے کہ دوسرا ریفرنڈم کرایا جائے ۔ پیٹشن میں کہا گیا ہے کہ 72 فی صد پڑنے والے ووٹوں میں سے 52 فی صد ووٹ سے یورپ سے علیحدگی کا فیصلہ کیا گیا ہے جو وافر اکثریت نہیں ہے۔ پیٹشن میں کہا گیا ہے کہ یورپ کی رکنیت کے لئے ریفرنڈم کے نئے قواعد مرتب کیے جائیں جن کے تحت 75 فی صد سے کم ٹرن آوٹ میں اگر حمایت یا مخالفت میں 60 فی صد سے کم ووٹ پڑیں تو دوبارہ ریفرنڈم کرایا جائے۔
یہاں یہ جمہوری روایت ہے کہ اگر ایک لاکھ سے زیادہشہریوں کے دستخط سے پیٹیشن پیش کی جائے تو پارلیمنٹ میں اس پر غور لازمی ہے۔ جیسے ہی یہ پیٹشن پارلیمنٹ کی ویب سایٹ پر پیش کی گئی ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس پر اٹھارہ ہزار افراد نے دستخظ کر دیے۔ دو دن کے بعد اتوار کی دوپہر تک اس پیٹیشن پر 34لاکھ سے زیادہ افراد دستخط کر چکے تھے۔
سنہ 1973کے بعد سے جب کہ یورپی مشترکہ منڈی میں شمولیت کے بارے میں پہلا ریفرنڈم ہوا تھا، اب تک 13ریفرنڈم ہو چکے ہیں جن میں سے تین قومی پیمانہ پر تھے لیکن اب تک کسی ریفرنڈم کے فیصلہ کو للکارہ نہیں گیا، یہ پہلا موقع ہے کہ اس ریفرنڈم کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے۔ریفرنڈم کی نوعیت بنیادی طور پر مشاورتی مانی جاتی ہے اور پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ ریفرنڈم کے فیصلہ کو مسترد کر سکتی ہے۔ تیسری بڑی سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹس نے کہا ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں ریفرنڈم کے فیصلہ کو چیلنج کرے گی۔
اب یہ صاف نظر آتا ہے کہ وہ لوگ بھی جنہوں نے یورپ سے نکلنے کے حق میں ووٹ دیا تھا ، آیندہ سنگین نتائج کو سوچ کر اپنے فیصلہ پر پچھتا رہے ہیں اور دل ہی دل میں پشیماں ہیں۔ اس وقت کوئی بھی سیاسی بقراط صحیح طور پر برطانیہ کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکتا ۔
♥
One Comment