بروز جمعرات 23 جون کوبرطانیہ کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا جب کہ ملک کے عوام ، ریفرنڈم میں یورپی یونین میں بدستور شمولیت یا اس سے علیحدگی کے بارے میں ووٹ ڈالیں گے۔
کئی مہینے کی نہایت تیز وتند ، دشنام طرازیوں اور الزامات سے بھرپور جنونی مہم کے بعد جس میں یورپی یونین میں شمولیت کی حامی لیبر پارٹی کی ایک نوجوان رکن پارلیمنٹ جو کاکس کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ، اب عین ریفرنڈم کے وقت ، ملک اس مسلہ پر دو لخت ہے۔ سنڈے آبزرور کے رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے کے مطابق ، یورپی یونین میں شامل رہنے کے اور علیحدگی کے حامیوں کی تعداد برابر برابر44فی صد ہے اور دس فی صد ووٹرایسے ہیں جنہوں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
یورپی یونین کی رکنیت کے مسئلہ پر حکمران ٹوری پارٹی اور پورا ملک جس بری طرح سے بٹا ہوا ہے اس کے پیش نظر ، وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کف افسوس ملتے ہوں گے کہ انہوں نے عام انتخابات سے پہلے ، اپنی ٹوری پارٹی کو ٹکرے ٹکرے ہونے سے بچانے کے لئے ریفرنڈم کے انعقاد کا وعدہ کیوں کیا۔ در اصل عام انتخابات سے پہلے انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعت یوکے انڈی پینڈنس پارٹی( یو کے آئی پی) نے امیگریشن کے مسئلہ پر اس قدر شور مچایا تھا اور یورپی یونین کی رکنیت کو برطانیہ کی حاکمیت پر ایک لعنت سے تعبیر کیا تھا کہ ملک میں نسل پرستی کی آگ اس بری طرح سے بھڑک اٹھی تھی کہ ٹوری پارٹی کے اراکین لرز اٹھے تھے اور انہیں انتخابات میں یو کے آئی پیجیتتی نظر آتی تھی۔ ان میں سے چند اراکین تو اس میں شامل بھی ہوگئے تھے۔
اس وقت وزیر اعظم کیمرون نے پارٹی کو بچانے کے لئے ، ریفرنڈم کے انعقاد کا وعدہ ہی نجات کا راستہ سمجھا۔ اس وقت جب کیمرون نے ریفرنڈم کا اعلان کیا تو کسی نے انہیں یہ مشورہ نہیں دیا اور نہ انہوں نے خود سوچا کہ ایسے نہایت پیچیدہ اور دور رس نتایج کے حامل مسئلہ پر ہاں یا نہیں میں ریفرنڈم کرانا کسی طور بھی دانشمندی نہیں ہے۔پھر کسی نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ریفرنڈم ایسی مشتعل فضا میں کرائے جارہے ہیں جب کہ امیگریشن کے مسئلہ پر جذبات کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ پورا یورپ ، شام اور شمالی افریقہ کے پناہ گزینوں کے سیلاب کی زد میں ہے اور اس کے سائے برطانیہ پر بھی منڈلارہے ہیں۔
ریفرنڈم کی مہم ، نہ صرف ایک دوسرے پر دروغ گوئی کے الزامات کی بوچھاڑ کی وجہ سے انتہائی پستیوں میں گر گئی بلکہ پس پردہ نسل پرستی ، اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ سامنے آگئی ۔ معیشت، سلامتی اور عالمی میدان میں برطانیہ کی حیثیت کے مستقبل کے اہم مسائلپس پشت چلے گئے اور امیگریشن کا مسئلہ اولیت اختیار کر گیا جس کے پس پشت عوامل میں نسل پرستی عیاں ہے۔ علیحدگی کے حامی اس پر شور مچاتے ہیں کہ اس وقت یورپی یونین میں شمولیت کی وجہ سے آزادانہ نقل و حرکت کی وجہ سے برطانیہ میں یورپ کے 17 لاکھ 43ہزار شہری بر سر روزگار ہیں جن کی وجہ سے برطانیہ کے شہریوں پر روزگار کے مواقعے محدود ہوگئے ہیں۔
لیکن علیحدگی کے حامی اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ برطانیہ کے شہریوں کو بھی یورپ میں روزگار کے وسیع مواقعے حاصل ہیں۔ علیحدگی کی صورت میں برطانیہ کو 30لاکھ شہریوں کے روزگار کا نقصان ہوگا جن کا تعلق یورپ سے ہے۔ امیگریشن کے مسلہ پر نہایت جذباتی بحث کی وجہ ہے کہ ریفرنڈم سے تین روز قبل ، ٹوری پارٹی کی سابق چیر پرسن اور پہلی مسلم خاتوں وزیر ، بیرونس سعیدہ وارثی نے جو پہلے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں تھیں ، علم بغاوت بلند کیا اور کابینہ کے وزیر اور علیحدگی کی مہم کے سر خیل ، مایکل گو پر الزام لگایا کہ وہ عوام کو خوف زدہ کر رہے ہیں کہ یورپی یونین میں عنقریب ترکی کو شامل کر لیا جائے گا اور لاکھوں ترکوں کا سیلاب یورپ کے راستہ برطانیہ میں امڈ آئے گا ۔ سعیدہ وارثی نے خبردار کیا ہے کہ علیحدگی کے حامیوں کی مہم پر نسل پرستی غالب ہے جس سے ، آیندہ ملک کی مختلف برادریوں کے درمیان نفرت پھیلے گی اور ان کے درمیان تعلقات پر برا اثر پڑے گا۔
عام خیال یہ ہے کہ ریفرنڈم میں جو بھی فیصلہ ہوا ، اس کے نتیجہ میں برطانیہ کی سیاست کا نقشہ یکسر بدل جائے گا۔ ریفرنڈم کے انعقاد کے اعلان کے وقت ہی ڈیوڈ کیمرون نے صاف صاف کہا تھا کہ وہ تیسری بار وزیر اعظم بننا نہیں چاہیں گے۔ اگر عوام نے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں فیصلہ دیا تو اس صورت میں گو ڈیوڈ کیمرون کی سیاسی جیت ہوگی لیکن ان کی ٹوری پارٹی جو مہم کے دوران پہلے ہی بٹ چکی ہے ، ٹکرے ٹکر ے ہو جائے گی ۔ ممکن ہے کہ نسل پرست جماعت یو کے آئی پی اس کی جگہ دائیں بازو کی طاقت ور جماعت بن کر ابھرے۔
علیحدگی کے حامی اگر جیت گئے تو علاحدگی کی حامی مہم میں پیش پیش یو کے آئی پی کے ملک کی سیاست پر چھا جانے کے امکانات قوی ہوں گے۔اس کے علاوہ برطانوی سیاست پر دور رس نتایج برآمد ہوں گے۔ علیحدگی کے فیصلہ کی صورت میں ، ڈیوڈ کیمرون کو وزارت اعظمی سے مستعفی ہونا پڑے گا اور خطرہ ہے کہ اس کے بعد پارٹی کی قیادت سے بھی وہ محروم ہوجائیں گے اور ممکن ہے سیاست بھی ترک کرنی پڑے۔ ان کے بعد بورس جانسن یا مایکل گو ٹوری پارٹی کی قیادت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن ریفرنڈم کی مہم میں پارٹی کے رہنماوں میں جو عداوت پیدا ہوئی ہے اس کے پیش نظر اس کا امکان نہیں کہ یہ پارٹی کو متحد رکھ سکیں ۔
علیحدگی کے حامی اگر جیت گئے تو حقیقت میں برطانیہ رود باد انگلستان کے پار یورپ سے کٹا ہوا ،ایک چھوٹا سا جزیرہ بن کر رہ جائے گااور بالاخر برطانیہ ایک چھوٹے سے انگلستان کی صورت اختیار کر جائے گا، کیونکہ اسکاٹ لینڈ کے عوام جو یورپی یونین کے زبردست حامی ہیں ، علیحدگی کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کریں گے اور اسکا ٹ لینڈ کی آزادی کے لئے ایک نئے ریفرنڈم کا مطالبہ کریں گے۔ ویلزمیں بھی قوم پرست ، انگلستان سے علیحدگی کی راہ اپنائیں گے اور جہاں تک شمالی آئرلینڈ کا معاملہ ہے تو ریفرنڈم کے بعد وہ جمہوریہ آیرلینڈ سے، جو یورپی یونین میں شامل ہے، بالکل کٹ جائے گا۔شمالی آئرلینڈکے عوام جن کے خاندان دونوں جگہوں میں بٹے ہوئے ہیں ، جمہوریہ کے درمیان فصیل کبھی قبول نہیں کریں گے ۔ ممکن ہے کہ شمالی آئرلینڈ میں جمہوریہ سے دوبارہ ملنے کی تحریک جنم لے جس کے نتیجہ میں انگلستان یکسر تنہا رہ جائے گا۔
ویسے بھی تاریخ شاہد ہے کہ انگلستان پچھلے چار سو سال میں کبھی الگ مملکت کی حیثیت سے نہیں رہاہے۔
سنہ1658تک انگلستان، فرانس او ر انگلستان کی متحدہ بادشاہت کا حصہ تھا۔ پھر یونائیٹڈ کنگڈم کی حیثیت سے اسکاٹ لینڈ ، ویلز اور شمالی آئر لینڈ کے ساتھ رہا۔ یا پھر گذشتہ چار دہائیوں سے یورپی یونین میں شامل رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انگلستان اکیلا کیسے اپنے آپ کو سنبھال سکے گا، معاشی اور دفاعی طور پر۔اور کیا اپنے آپ کو ایک عالمی طاقت کے طور پر منوا سکے گا؟
کوئی نہیں جانتا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے فیصلہ کے بعد کیا ہوگا کیونکہ اب تک یورپی یونین کا کوئی رکن ملک اس سے علیحدہ نہیں ہوا ہے۔ برطانیہ کے اخراج کے بعد فوری طور پر اسے 13ارب پونڈ سالانہ کی بچت ہوگی جو وہ یونین کے بجٹ میں اد ا کرتا ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ ساڑھے چار ارب پونڈسالانہ کی رقم سے محروم ہو جائے گا جو اسے یورپی یونین سے ملتی ہے۔
اس وقت یورپی یونین کے ملکوں سے برطانیہ کی تجارت آزاد ہے اور کوئی محصول نہیں لیکن علیحدگی کی صورت میں برطانیہ کو یورپ کے 28 ملکوں سے الگ الگ تجارتی معاہدے کرنے ہوں گے جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں ۔ یوں برطانیہ کو تجارت کے سلسلہ میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت برطانیہ اپنی پچاس فی صد برآمدات یورپ بھیجتا ہے۔ سب سے زیادہ نقصان برطانیہ کی کار کی صنعت کو ہوگاجسے اس وقت یورپ میں کوئی محصول ادا نہیں کرنا پڑتا۔ علیحدگی کے بعد محصول کی وجہ سے بہت سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
برطانیہ کے اخبارات ریفرنڈم کی مہم میں بٹے ہوئے ہیں۔ اتوار کے بیشتر اخبارات ، علیحدگی کے حامی ہیں۔جن میں سنڈے ٹایمز، سنڈے ٹیلیگراف نمایاں ہیں ،آبزرور اور میل آن سنڈے البتہ یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں ہیں۔ ٹایمز ، گارڈین اور فنانشل ٹائمز بھی یورپی یونین کے حق میں ہیں۔ مرڈاک کا اخبار سن علیحدگی کا حامی ہے لیکن ٹائمز یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں ہے یوں چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔ ریفرنڈم کا جو بھی فیصلہ ہوا ، جیت مرڈاک کی ہوگی ۔
♣