بھارت میں آج کل یکساں سول کوڈ یعنی یونیفارم سول کوڈ پر بحث ہو رہی ہے کیونکہ بھارتی مسلم مہیلا آندولن نامی ایک تنظیم نے تقریباً 50 ہزار مسلم خواتین کی دستخط شدہ ایک یاد داشت وزیراعظم نریندر مودی کو پیش کیا ہے جس میں تین بار طلاق کو غیر قانونی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اس یاد داشت پر مسلم معاشرے کے بہت سے مردوں نے بھی دستخط کیے ہیں۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ واضح کرے کہ اس سلسلے میں وہ کیا کر رہی ہے۔جس وقت ملک کا آئین بنایا جا رہا تھا اس وقت آئین سازوں نے کہا تھا کہ بھارتی شہریوں کے لیے ایک جیسا قانون بننا چاہیے۔تاکہ اس کے تحت ان کی شادی، طلاق، جائیداد اور وراثت کی جانشینی کا فیصلہ کیا جا سکے جس کو مختلف مذہب کے لوگ اپنے اپنے حساب سے حل کرتے ہیں۔
ڈائریكٹیو پرنسپلز آف سٹیٹ پالیسی میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں تمام شہریوں کے لیے ایک یکساں سول کوڈ بنانے کی کوشش ہونی چاہیے۔اس مسئلے پر بحث تو انگریزوں کے دور حکومت سے ہی شروع ہو گئی تھی۔بھارت میں معاشرے کے تنوع کو دیکھ کر انگریز حکمران حیران تھے وہ اس بات پر بھی حیران تھے کہ چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان، یا پھر پارسی اور عیسائی، سب کے اپنے مختلف قائدے قانون ہیں۔
انھیں قوانین کے تحت ان کا معاشرہ چلتا تھا اسی لیے برطانوی حکومت نے مذہبی معاملات کا تصفیہ انہی معاشروں کے روایتی قوانین کی بنیاد پر ہی کرنا شروع کر دیا۔
انگریزوں کے زمانے کے قوانین کے مطابق مسلمانوں کے قوانین:۔
مسلمان مرد اور عورت کو دوبارہ نکاح کی اجازت ،مسلمانوں میں جانشینی میں عورت کو بھی حصہ، تین بار طلاق کہہ کر مرد کو عورت سے الگ ہونے کا حق۔
ہندو کے قوانین
بیواؤں کی شادی ممنوع، بچپن میں شادی کی اجازت کیونکہ شادی کی کوئی عمر مقرر نہیں۔ ایک سے زیادہ بیویوں کے رواج کی منظوری ،عورت کوجائیداد یا وراثت کی جانشینی کا حق نہیں، عورت کو بیٹا گود لینے کی بھی اجازت نہیں، شادی شدہ عورت کو بھی جائیداد میں کوئی حق نہیں۔
آئین سازوں نے ہندو سماج کی خواتین کو ان پر عائد پابندیوں سے آزاد کرانے کے لیے بل پیش کیا۔خاص طور پر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اس معاملے میں وزیراعظم جواہر لال نہرو سے متفق تھےمگر ہندو کوڈ بل کو پارلیمنٹ میں زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
مخالفت کرنے والےممبران پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ عوام کے منتخب کردہ نمائندے ہی اس بارے میں فیصلہ کریں گے کیونکہ یہ اکثریت ہندو معاشرے کے حقوق کا معاملہ ہے۔کچھ لوگوں کی ناراضی یہ تھی کہ نہرو کی حکومت صرف ہندوؤں کو ہی اس قانون کا پابند بنانا چاہتی ہے، جبکہ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنی رسم و رواج کے مطابق چل سکتے ہیں۔
ہندو کوڈ بل منظور تو نہیں ہو سکا لیکن 1952 میں ہندوؤں کی شادی اور دوسرے معاملات پر مختلف کوڈ بنائے گئے۔سنہ1955 میں ہندو میرج ایکٹ بنایا گیا جس میں طلاق کی قانونی منظوری کے ساتھ ساتھ دوسری ذاتوں میں شادی کو بھی تسلیم کیا گیا جبکہ ایک سے زیادہ شادی کو غیر قانونی قرار دیدیا گیا۔
ہندوؤں کے لیے بنائے گئے قانون کے دائرے میں سکھوں، بدھ مت اور جین مت کے پیروکاروں کو بھی لایا گیا۔
انگریزوں کی حکومت کے زمانے سے ہی ہندوستان میں مسلمانوں کے شادی، بیاہ، طلاق اور وراثت کے معاملات کا فیصلہ شریعت کے مطابق کیا جاتا رہا ہے۔اس قانون کو ’مسلم لاء‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ اس سے زیادہ وضاحت نہیں کی گئی ہے مگر ’مسلم لاء‘ کو ہندو کوڈ بل اور اس طرح کے دوسرے قوانین کے برابر کا درجہ حاصل ہے۔
یہ قانون 1937 سے نافذ العمل ہے۔ اس قانونی نظام کو آئین میں مذہب کی آزادی کے حق یعنی آرٹیکل 26 کے تحت رکھا گیا ہے جس میں تمام مذہبی فرقوں اور مسالک کو عوامی نظام اور اخلاقیات کے معاملات کا خود انتظام کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔لیکن 1985 میں مدھیہ پردیش کی رہنے والی شاہ بانو کو شوہر کی طرف سے طلاق دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ انھیں زندگی بھر گزارا الاؤنس دیا جائے۔
شاہ بانو کے معاملے پر مسلمان علما نے خاصا ہنگامہ کیا اور اس وقت کے وزیراعظم راجیوگاندھی کی قیادت میں مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں ’مسلم ویمن پروٹیکشن آف رائٹس آف ِڈوورس) ایکٹ پاس کرایا جس نے سپریم کورٹ کے شاہ بانو کیس میں دیے گئے فیصلے کو منسوخ کر دیا اورگزارا الاؤنس کو عمر بھر کے بجائے طلاق کے بعد کے 90 دن تک محدود کردیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی سول میرج ایکٹ بھی آیا جو ملک کے تمام لوگوں پر نافذ ہوتا ہے۔اس قانون کے تحت مسلمان بھی کورٹ میں شادی کر سکتے ہیں۔ایک سے زیادہ شادیوں کو اس قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا اس ایکٹ کے تحت شادی کرنے والوں کو بھارت کے جانشینی ایکٹ کے دائرے میں ہی لایا جاتا ہے اور طلاق کی صورت میں گزارا الاؤنس بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے چاہے لوگ کسی کمیونٹی سے تعلق کیوں نہرکھتے ہوں۔
یاد رہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی مذہبی تنظیمیں اس یونیفارم سول کوڈ کی سخت مخالفت کر رہی ہیں۔
BBC