سالار کوکب
افریقی ملک مالی میں ایک امریکی انتھروپولوجسٹ نے جگہ جگہ عورتوں کو سرعام اپنے بچوں کو چھاتی سے دودھ پلاتے دیکھا ۔ ایک دن اس نے کچھ عورتوں کو بتایا کہ امریکی مرد عورتوں کی چھاتیوں میں بڑی کشش محسوس کرتے ہیں ۔ عورتوں نے ہنسنا شروع کر دیا ۔ ہنسی تھمی تو پوچھا ‘تمہارا مطلب ہے کہ امریکی مرد بچوں کی طرح سوچتے ہیں ‘ ۔ یہ اس ثقافت کی بات ہے جہاں عورت کی چھاتی کے صرف ایک معنی ہیں کہ یہ بچوں کو دودھ پلانے کے لیے ہوتی ہے ۔
آپ یو ٹیوب پر جائیں آپ کو بہت سی وڈیوز ملیں گی جن میں افریقہ ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے کچھ قبیلوں کی عورتیں ننگی چھاتیوں کے ساتھ مختلف کام کرتی نظر آئینگی –ان وڈیوز میں موجود مردوں میں سے کوئی آپ کو نظر بچا کر عورتوں کی چھاتیوں کو دیکھتا ہوا نہیں ملے گا اور پھر آپ کو انہی وڈیوز پر رائے دینے والوں کی تعداد لاکھوں میں نظر آئے گی ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان وڈیوز کو اکثر لوگ دوسری ثقافتوں کو جاننے کے لیے نہیں بلکہ عورتوں کی چھاتیوں کے نظارے کے لیے ہی دیکھتے ہیں ۔
کیا عورتوں کی چھاتیاں فطری طورپر مردوں کے لیے شہوت انگیز ہوتی ہیں ؟ اس کا جواب انتھروپلوجسٹ نفی میں دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مختلف ثقافتوں میں چھاتیوں کے ثقافتی معنی مختلف ہیں ۔ ایک سروے میں ایک سو نوے ثقافتوں کا جائزہ لیا گیا پتہ چلا کہ صرف تیرہ ثقافتوں میں مردوں نے عورتوں کی چھاتیوں کو جنسی لحاظ سے پر کشش قرار دیا ۔ مالی ،جس کا ذکر اوپر ہوا ہے ، کے ان علاقوں میں جہاں بیرونی ثقافتوں کے اثرات ابھی تک نہیں پہنچے لوگوں کے لیے یہ تصور کرنا بھی محال ہے کہ چھاتیوں کا دودھ پلانے کے علاوہ کوئی اور کام ہو سکتا ہے یا مرد اور عورت عورت کی چھاتی سے جنسی لذت حاصل کر سکتے ہیں ، عورتیں گھر کے اندرعموما چھاتیوں کو ننگا رکھتی ہیں اور گھر سے باہر جہاں ضرورت محسوس ہو بچے کو دودھ پلانا شروع کر دیتی ہیں ۔ افریقہ میں روایتی طورپرعورت کی چھاتیوں کو فخر کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔
مغرب خصوصاً امریکہ میں صورتحال اس کے برعکس ہے ۔ عورت کی چھاتی بنیادی طور پر توجہ حاصل کرنے اور جنسی عمل کے دوران عورت اور مرد کو لذت فراہم کرنے والے عضو کی حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ امریکہ میں انیس سو پچاس کے لگ بھگ دو اہم تبدیلیاں آئیں ۔ وسیع پیمانے پر بوتل کے دودھ کی تشہیر کی گئی جس کے نتیجے میں بہت سی عورتوں کی چھاتیاں دودھ پلانے کی ذمہ داری سے آزاد ہوئیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی سپاہیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے انہیں لاکھوں کی تعداد میں عورتوں کی تصویروں والے میگزین بھیجے گئے جن سے پوسٹر کاٹ کر وہ اپنے مورچوں اور بیرکوں کو سجا سکتے تھے۔ لمبی ٹانگوں اور نمایاں چھاتیوں والی عورتوں کے یہ خاکے اور تصویریں سپاہیوں کو یاد دلاتے تھے کہ وطن میں کوئی ان کا انتظار کر رہا ہے۔ اس دوران ان کی عورتیں کارخانوں اور دفتروں میں کام کر رہی تھیں ۔
جنگ سے واپسی پر جب سپاہیوں نے دفتروں ، کارخانوں اور کاروبار میں اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالیں تو ان کی عورتیں جان چکی تھیں کہ ان کے مردوں کو کس طرح کا جسم پسند ہے ؟اس وقت سے چھاتیاں امریکی عورت کے جسم کا ایک نمایاں حصّہ اور نسوانیت کا اظہار بن گئیں۔ چھوٹی چھاتیاں گھٹیا پن اور بیماری کی علامت بنیں اور بیماری کے علاج کے لیے کاسمیٹک سرجری کے ذریعے چھاتیوں کو خوبصورت اور بڑا بنانے کی صنعت نے فروغ پایا ۔ یوں ثقافت میں مردوں کی طرف سے متعارف کرائی گئی توقعات کو پورا کرنے کے لیے عورت اپنےجسم کی ملکیت کے باقی ماندہ دعوے سے بھی دست بردار ہو گئی ۔اپنی ثقافت کے یہی پہلو امریکہ نے سرمایہ دارنہ نظام سے جڑے دوسرے ملکوں کو برآمد کیے ۔ عورت کی چھاتی کیسی ہونی چاہئیے دنیا بھر میں اب اس کا معیار مغرب کی گارمنٹس ، میڈیکل ، پورن اور دوسری صنعتیں طے کرتی ہیں ۔
پاکستانی ثقافت اس علاقے کی قدیم ثقافت میں مسلم حکمرانوں کے ادوارسے لے کر اب تک ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں تشکیل پائی ہیں ۔ بالائی تن کو ننگا رکھنا یا اسے بہت کم حد تک ڈھانپنا یہاں کی ثقافت کا حصّہ رہا ہے ۔مسلمانوں کی آمد کے بعد عورتوں کی اکثریت نے جسم کا بالائی حصّہ بھی ڈھانپنا شروع کر دیا ۔ شہری متوسط طبقے اور محدود دیہاتی خاندانوں کے استثنیٰ کے ساتھ آج بھی عورتوں کی اکثریت سینے کو بہت زیادہ ڈ ھکے بغیرگھر ، کھیت ، اور دوسری جگہوں پر مختلف طرح کے کام سرانجام دیتی ہے ۔
تاہم کئی علاقوں خصوصا ًشہروں کی ثقافت میں کئی اہم تبدیلیاں آ رہی ہیں ۔ میڈیا اور دوسرے ذرائع سے امریکی ثقافت کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے ‘نسوانی جسم ‘ کا امریکی تصور خواتین میں مقبول ہو رہا ہے ۔ نتیجتاً چھاتیوں سمیت جسم کی شکل عورتوں کی بنیادی پریشانیوں کا موضوع ہے – پاکستانی نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعے نسوانی جسم کے امریکی معیار خصوصا پورن انڈسٹری کے متعارف کردہ معیار سے واقف ہو رہے ہیں –عورت کی چھاتیوں کے متعلق ان کا امریکی نوعیت کی دلچسپی بڑھ رہی ہے جس کا اظہار مختلف ویب سائٹس پر ان کے کمنٹس خصوصا خاتون ٹی وی اینکرز پر ان کے تبصروں سے بھی ہوتا ہے ۔
مذہبی رہنما ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں کی بہت بڑی تعداد تک رسائی حاصل کر چکے ہیں – ان میں سے کچھ مردوں کے سامنے دوسری دنیا کی عورتوں کا خاکہ رکھتے ہیں جو ایک مکمل جنسی کھلونا ہوں گی۔یوں نسوانی جسم کو اس کی جنسیت تک محدود کرتے ہوئے یہ مذہبی رہنما اس دنیا کی نا مکمل عورت سے اپنا جسم ڈھانپنے اور گھر کے اندر رہنے جیسی پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جب عورت گھر سے نکلتی ہے تو اس کا جسم جدید اور مذہبی دونوں گروہوں کے جائزے کی زد میں ہوتا ہے ۔اس جسم میں سب سے نمایاں پرائیویٹ چیز چھاتی ہوتی ہے ۔ نیو لبرل پالیسیوں کے پیدا کردہ مسائل اورتعلیم اور دوسرے مقاصد عورت میں گھر سے باہر نکلنے کی خواہش پیدا کرتے ہیں لیکن مندرجہ بالا دونوں گروہ اس کے لیے گنجائش کو محدود کرتے ہیں ۔
ایک مصنف کا کہنا ہے کہ عورت کی چھاتی ایک سپنج کی طرح ہوتی ہے جو ماحولیاتی آلودگی سمیت دوسری بہت سی تبدیلیوں کا بہت زیادہ اثر لیتی ہے ۔ نتیجہ سامنے ہے ، پاکستان میں ہر سال چالیس ہزار عورتیں چھاتی کے کینسر کی وجہ سے مر رہی ہیں – کوئی اندازہ نہیں کہ ان میں سے کتنی عورتیں خوف سے باہر نکل کر اپنی ماں ، باپ یا خاوند کو وقت پر بتا سکتی ہیں کہ ان کی چھاتیوں میں کوئی غیر معمولی چیز ہو رہی ہے ۔ کتنی عورتوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جایا گیا ہوگا ۔ کتنی عورتیں علاج کا خرچہ برداشت کر سکتی ہوں گی ؟ کتنی غریب عورتیں کسی ایسے ہسپتال تک پہنچ سکی ہوں گی جہاں حکومت یا کوئی خیراتی ادارہ صرف علاج کا پچاس ہزار روپے ماہانہ خرچہ برداشت کرتا ہو۔ کتنی عورتوں کی چھاتیاں کاٹنی پڑیں ؟ ان میں سے کتنی تھیں جو چھاتی کی بحالی کا خرچہ برداشت کر سکی تھیں ؟
آنے والے دنوں میں چھاتی کے کینسر کی شرح بڑھے گی ۔ لیکن شرم اورخوف میں گھری ہوئی عورت نہ تو وقت پر اس کی علامات جان پائے گی اور نہ ہی بروقت ڈاکٹر تک پہنچ پائے گی۔ اگلا مرحلہ چھاتی کے کینسر کے علاج کو حکومتی ترجیحات میں شامل کرانا ہے۔ لیکن ایسا تب ہوگا جب عورت کا جسم اس کا اپنا ہو گا۔ اس کا کنٹرول کارپوریشن اور مذہبی راہنما کے ہاتھ میں نہیں ہو گا۔ جب ہم لفظ بریسٹ (چھاتی )کو جنس کے تصور سے آزاد کر سکیں گے ۔ جب اس موضوع پر کھل کر بات کرنا ممکن ہو گی اور جب اوریا مقبول جانوں کو عورت کی ہلتی ہوئی چھاتیوں میں اشتہا انگیزی محسوس نہیں ہو گی۔
♠
10 Comments