سپریم کورٹ نے توہین مذہب کے جرم میں سزا پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی جانب سے دائر کردہ اپیل پر اپنی سماعت جمعرات کے روز اس وقت مؤخر کر دی، جب بینچ میں شامل ایک جج نے سماعت میں شمولیت سے معذوری ظاہر کر دی۔
’شہدا فاؤنڈیشن‘ جس کا قیام سن 2007 میں لال مسجد آپریشن کے بعد کیا گیا تھا، نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کو رہا کر دیا گیا تو لال مسجد حکومت کے خلاف تحریک کا گڑھ بن جائے گی۔
اس فاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام احمد نے کہا، ’’ہمیں آسیہ بی بی کو رہا کرائے جانے والی کوششوں پر تحفظات ہیں اور ہم ہر اس شخص کو توہین مذہب کا مرتکب سمجھیں گے جو آسیہ بی بی کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔‘‘ لال مسجد کے ترجمان نے یہ بھی دھمکی دی تھی کہ اگر آسیہ بی بی کو بیرون ملک بھیجنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔
آسیہ بی بی کی جانب سے اسے سنائی گئی سزائے موت کے خلاف دائر کردہ درخواست پر سماعت کا آغاز اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں آج ہونا تھا۔ پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو سن 2010ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔ آسیہ بی بی پاکستان میں یہ سزا پانے والی پہلی غیر مسلم خاتون ہیں۔
پاکستانی چینل جیو سے وابستہ عبدالقیوم صدیقی ،جو سپریم کورٹ کے مقدمات کی رپورٹنگ کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج کمرہء عدالت میں لال مسجد اور شہدا فاؤنڈیشن کے عہدیداروں کی قابل ذکر تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ ختم نبوت فورم کے وکیل بھی موجود تھے جو کہ آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ انسانی حقوق کے کارکن اور مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
پاکستان جیسے قدامت پسند معاشرے میں توہین رسالت یا توہین مذہب ایک نہایت حساس معاملہ ہے اور اسی تناظر میں سپریم کورٹ کی عمارت کی حفاظت کے لیے کئی سو پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عدالتی سماعت کے موقع پر کسی ممکنہ تشدد کے واقعات پیش آنے کے خدشات اس وقت کم ہو گئے، جب اس اپیل کی سماعت کے لیے بنائے گئے تین رکنی بینچ میں شامل جج اقبال حمید الرحمان نے مقدمے کی کارروائی میں اپنے شریک ہونے سے معذوری ظاہر کر دی۔ جج اقبال حمید الرحمان نے عدالت کو بتایا،’’ میں اسی بینچ کا حصہ تھا جو سلمان تاثیر کے کیس کی سماعت کر رہا تھا، اور آسیہ بی بی کا کیس اس سے منسلک ہے‘‘۔
عبدالقیوم صدیقی کا کہنا ہے کہ اپیل کی سماعت موخر کیے جانے کے بعد عام تاثر یہی ہے کہ اب اس کیس میں کافی عرصے تک کوئی پیش رفت نہیں گی۔ایک ماہر قانون کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو علم ہوناچاہیے کہ مذکورہ جج سلمان تاثیر کے کیس میں تھے لہذا ان کا نام بنچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے اوراگر انہیں معلوم نہیں تو اسے سنگین غفلت قراردیا جاسکتا ہے۔
سلمان تاثیر پنجاب کے سابق گورنر تھے جنھیں آسیہ بی بی کی حمایت کرنے پر ان کے اپنے ہی گارڈ ممتاز قادری نے سن 2011 میں قتل کر دیا تھا۔ ممتاز قادری کو سن 2016 کے آغاز میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ اس اقدام کو ملک کے روشن خیال طبقے نے کافی سراہا تھا لیکن ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد اس کے حامی افراد بڑی تعداد میں احتجاجا سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
اس کیس پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کی رائے میں یہ کیس پاکستان کے لیے ایک جنگ کی حیثیت رکھتا ہے، ایک ایسی جنگ جس میں انسانی حقوق اور شدت پسندوں کا آمنا سامنا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق لال مسجد کے ترجمان نے دھمکی آمیز پیغام میں کہا تھا، ’’اگر آسیہ بی بی کو رہا کیا گیا تو ہر کوئی ممتاز قادری بن جائے گا، بین الاقوامی طاقتیں یاد رکھیں کہ وہ اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گی‘‘۔
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملکوک نے لال مسجد کی دھمکی کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امید کرتے ہیں کہ حکومت اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے ان کو سکیورٹی فراہم کرے گی۔
انسانی حقوق کے وکیل شہزاد اکبر نے اے ایف پی کو بتایا،’’ اقلیتوں، انسانی حقوق اور پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے حوالے سے اس کیس کے نتائج بہت معانی رکھیں گے‘‘۔
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف، آسیہ بی بی کی اپیل کی سماعت مؤخر ہونے کو انتہائی افسوس ناک قرار دے رہی ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ’’یہ ایک بہت حساس کیس ہے، میرا خیال ہے کہ جج سمجھ گئے ہیں کہ اگر انہوں نے آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ سنایا تو وہ اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیں گے‘‘۔
اس کیس کے پراسیکیورٹر غلام مصطفیٰ چوہدری کا کہنا ہے، ’’اس کیس کا فیصلہ انصاف کی بنیاد پر ہونا چاہیے نہ کہ غیر ملکی دباؤ پر، آسیہ بی بی ایک نہیں بلکہ دو عدالتوں سے مجرم ثابت ہو چکی ہیں‘‘۔
DW
♦