شام میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے ادلیب میں بدھ کو ایک فضائی حملے میں ایک سکول پر بم گرنے سے 11 بچوں سمیت 26 شہری ہلاک ہوگئے ہیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق سکول کی عمارت پر بم گرنے سے بہت سے بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔
شام کے انسانی حقوق کے گروپ سیرین آبزرویٹری نے الزام عائد کیا ہے کہ یہ بم شامی یا روسی فضائیہ نے گرایا تھا اور فضائیہ نے اس کے علاوہ ایک قریب گاؤں میں چھ حملے بھی کیے گئے۔
سیرین آبزویٹری نے تصدیق کی ہے کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والے26 شہریوں میں کم از کم گیارہ سکول کے بچے بھی شامل ہیں جبکہ متعدد بچے زخمی ہوئے ہیں جنھیں فوری طور پر ہسپتالوں میں منتقل کر دیا گیا۔
واہٹ ہیلمٹ نامی تنظیم کے شہری دفاع کے کارکنوں نے تصاویر جاری کی ہیں جن میں اس تنظیم کے چار اہلکار ملبے کے ایک ڈھیر میں بچ جانے والوں کی تلاش کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک دھرا حملہ تھا۔
ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک راکٹ سکول کے داخلی راستے پر گرا جب بچے فضائی حملوں کی وجہ سے جلدی چھٹی دیے جانے پر اپنے گھروں کی طرف بھاگ رہے تھے۔
شہری دفاع کے کارکنوں نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر بھی جاری کی جس میں ایک بچے کا کٹا ہوا ہاتھ ایک سکول بیگ کا سٹریپ پکڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
حملے کے بعد جاری ہونے والی ویڈیوز میں ایک عمر رسید شخص کو ملبے کے نیچے سے کھینچ کر نکالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان تصاویر اور ویڈیو کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی نے استنبول میں قائم نیشنل کولیشن کے حوالے سے کہا ہے کہ روس کے لڑاکا طیاروں نے دانستہ طور پر سکول کی عمارت کو نشانہ بنایا اور جان بوجھ کر شہری آبادیوں پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عدلیب کا صوبہ جند الفتح نامی باغیوں کے ایک اتحاد کے قبضے میں ہے جس میں جہادی اور فتح الشام، جس نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے النصرا اتحاد رکھ لیا تھا، بھی شامل ہیں۔ النصرا اتحاد نے اس سال کے شروع میں القاعدہ سے اپنے مراسم منقطع کر لیے تھے۔
اور شامی فضائیہ عدلیب صوبے پر اکثر فضائی بمباری کرتی رہتی ہیں لیکن حالیہ دنوں میں ان حملوں میں تیزی آئی ہے۔
شام میں خانہ جنگی مارچ سنہ 2011 میں شروع ہوئی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ اس لڑائی میں اب تک ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
BBC
♦