سِرل اور سچ … ڈان اور پاکستان کا بانی ايک ہے!۔

khan kakar

خان زمان کاکڑ

پاکستان کے اخبارات ميں ملک کے ايک محدود تعليم يافتہ طبقے کيلئے سچلکهنے والے صحافيوں کی ايک ادھ خبر سے اگر ايک طرف پاکستان کی قومی سلامتیخطرے ميں پڑ جاتی ہے اور ان کو ايک خاص طريقے سے ايک خاص وقت تک بليک لسٹ کيا جاتا ہے تو دوسری طرف اسی ايک اد ھ خبر دينےکی بدولت وه جمہوری جدوجہد کی تاريخ کے ايسے ہيروز بن جاتے ہيں جن کا کوئی سياسی کارکن کبهی بهی ہمسر نہيں بن سکتا۔

ڈان کے ايک سٹاف ممبر سِرل المائڈا نے چند دن پہلے ايک بند کمرے ميں سے پاکستان کے سول اور فوجی قيادت کی ايک ملاقات کی خبرباہر نکالی جس ميں سول حکام نےفوجيوں کو خبردار کيا تها کہ ياتو دہشت گردوں کےخلاف کاروائی کريں يا بين الاقوامی تنہائی کا سامنا کريں۔

اس خبر کی ترديد کيلئے سول اور فوجی قيادت کوہنگامی بنيادوں پر پهر بیٹھنا پڑا ، وزيراعظم ہاؤس کی طرف سے تين دفعہ اس خبر کی ترديد ميں بيانات آئے ، اس کو من گهڑت ، بےبنياد، ملک کی قومی سلامتیکی منافی اوربين الاقوامی طور پر تسليم شده صحافتی اصولوںکی خلاف ورزی قرار ديا گيا۔

مسئلے کی شدت اس وقت معلوم ہوئی جب صحافی سِرل المائڈا کا نام ايگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ايل) ميں ڈالنےکی اطلاع منظرعام پر آئی۔ اس کےبعد ردعمل کا ايک ايسا سلسلہ شروع ہوگيا جس کو فالو کرتے ہوئےپاکستان کی رياست، ميڈيا، سياست اور سماج کے تضادات کو سمجهنے کيلئے بہت سارے مواد تک رسائی پائی جاسکتی تهی۔

پاکستان اور دنيا بهر سے آزادی اظہار رائے پہ يقين رکهنے والوں نےڈان اور سِرل کے حق ميں بہت بولڈطريقے سے آواز اٹهائی۔ صرف لبرل حلقوں نے نہيں بلکہ قوم پرستوں،ترقی پسندوں، دائيں بازو کے نمائندوں اور حتی کہ بڑی بڑی قسم کے مذہبی لوگوں نے بهی ڈان اور سِرل کا ساتھ ديا۔ ملالہ کےخلاف فتوے دينے والے صحافيوں نے بهی سِرل کے نام کو ای سی ايل ميں ڈالنے کی مخالفت کر دی۔

کيا اس سے يہ ثابت ہوا کہ پاکستان ميں جمہوری رويہ اتنا ترقی کرچکا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور آزاد صحافت کے حق ميں لوگ نظرياتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کرکے آواز اٹهانے کی ضرورت پہ متفق ہوگئے ہيں؟

ہمارےخيال ميں ايسا نہيں۔ پاکستان ميں مرکزيت پسندی کےتضادات بڑی مختلف نوعيت کے رہے ہيں۔ پاکستان ميں ڈان اور جنگ کو بيک وقت ملک کے مقتدر اخبارات تسليم کرنے کے ذريعے مرکزيت پسندی کے بيانيے ميں جامعيت اور تکثيريت پيدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ يہ جامعيت اورتکثيريت حکمران طبقے اور مرکزی علاقے تک محدود رہتی ہے اور اس کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ کونسا بيانيہ کس کو سنايا جارہا ہے۔

مثال کے طورپر جنگ اور دی نيوز ايک ادارے کے اخبارات ہيں ليکن ان دونوں ميں جو فرق ہے وه بهی اس رياستی بيانيے کی جامعيت اور تکثيريت کو پنپنے کی پاليسی کو سامنے رکهتے ہوئے پيدا کيا گيا ہے۔ يہی مسئلہ نوائے وقت اور دی نيشن کا ہے۔ اتنا ہی فرق روزنامہ ايکسپريس اور ايکسپريس ٹريبيون ميں آپ کو نظر آئے گا۔

جنگ ميں عطاء الحق قاسمی بهی لکهتےہيں اور وجاہت مسعود بهی اور گہرائی سے مطالعہ کرنےوالوں کو پتہ ہے کہ بظاہر دو مختلف مکاتبِ فکر کے ان صاحبان کا تو آپس ميں بڑے احترام اور عقيدت کا رشتہ ہے اور ايک دوسرے سے کوئی مختلف بات کرتے بهی نہيں ہيں۔

انگريزی سمجهنے والے قارئين کوکچھ لبرلزم سنانا پڑتا ہے اور اردو ميں پهنسے ہوئےغريبو ں کو دين اسلام کی پيروی کرنے کی ہدايات ديے جاتےہيں۔ انگريزی ميں پاکستان اور انڈيا کے درميان امن قائم رکهنے اور رواداری برتنے پرزوردينا ضروری ہوتا ہےاور اردو زبان ميں انڈياکونيست و نابود کرنے کی باتيں اچهی لگتی ہيں۔

مارکيٹ سب سے اہم فيکٹر ہے ۔ پاکستان مارکيٹ سے باہر کہيں نہيں رہتا۔پاکستان کےجماعتی اورلبرل حلقے اس حقيقت کو بخوبی سمجهتےہيں۔ وه جب ايک دوسرے سے لڑتے ہيں اور جب ايک دوسرے کی ہاں ميں ہاں ملتے ہيں تو سب کچھ مارکيٹ کے تقاضوں اور رياست کے بيانيے ميں تکثيريت لانے کی ضرورت کو مدنظر رکھ کرکےکرتے ہيں۔يہ بڑے سمجھ دار لوگ ہيں۔

انصارعباسی اور ہود بهائی کی لڑائی کسی جہالت اور علم کی لڑائی نہيں بلکہ مرکزیت پسندی کے بيانيے کی جامعيت کو بڑهانے کی ايک بڑی منظم پاليسی ہے۔مرکزيت پسندی کے تضادات کو سمونے اور اس کومباحث کا حصہ بنانے سے پاکستان کا ايک جمہوری چہره دنيا کے سامنے آتا ہے جبکہ ضمنی علاقوں کو ايک اس طرح کا چہره دکهاياجاتا ہے جس کو ديکھ کر لوگوں ميں کچھ بولنے کی ہمت ہی ختم ہوجاتی ہے۔

سِرل نے ڈان ميں جو سٹوری لکهی ہےاس کو اگرايسا ديکها جائےکہ سول اور فوجی قيادت نے اس کو اتنا سنجيده ليا کہ تين بار اس کی ترديد کردی اور سِرل کے نام کو ای سی ايل ميں ڈال ديا تو يقيناً اس کوايک خطرناکسٹوری اور سچلکهنےکی ايک بڑی مثال تصور کيا جاسکتا ہےليکن اگرعوامی نقطہ نظر سے ديکها جائےتو اس سٹوری ميں کوئی اتنی بڑی خبر بهی تو نہيں تهی جس سے دنيالاعلم رہی تهی۔ سِرل اگر يہ خبر نہ بهی ديتا تو لوگ پهر بهی جانتے تهے کہ زمين گهومتی ہےاور پاکستان کو بين الاقوامی تنہائی کا سامنا ہے۔ لوگ يہ بهی جانتے تهے کہ پاکستان کی سول قيادت فوجی حکام کو کس حد تک خبردار کرنےکی طاقت رکهتی ہے۔

کہنے کا مقصد يہ ہے کہ سِرل کی اس خبر سے ہمارے علم ميں کوئی اتنا اضافہ نہيں ہوا جس پہ ہم اس کے ممنون ہوں۔ رياست اور سماج کے تضادات ميں ہم کوکہيں کهڑا ہونا پڑتا ہے۔ اتنے سارےلوگ سِرل کےحق ميں کهڑے ہوئے، اچها کيا، ذمہ داری کا مظاہره کيا گيا اور جمہوريت پسندی کا ثبوت ديا گيا۔

ليکن کيا يہ جمہوريت پسندی ايک محدود طبقے سے نکل کر پسے ہوئےطبقات تک رسائی کا عنصر اپنے اندر رکھتی ہے؟ مسئلہ تو يہاں تک خراب ہےکہ ٹويٹر پرتين دن تک سِرل کا قبضہ رہا۔ فيس بک پہ اتنے کم لوگوں نے اس مسئلے پہ بات کی جتنے لوگ کراچی، لاہور اور اسلام آباد ميں بلوچستان،فاٹا اور پختونخوا کی صورتحال پہ بحث کرتے ہيں۔

سِرل نے جوٹويٹس کيے، اس سے بهی پاکستان کے اس طبقے کی سوشيالوجی سمجهنے ميں مدد ملتی ہے۔

سِرل کا ايک ٹويٹ تها:

آج رات ميں اداس ہوں. يہ ميری زندگی ہے، ميرا ملک ہے. کيا غلط ہوا.”

I feel sad tonight. This is my life, my country. What went wrong.”

حب الوطنی کو ثابت کرنے کی يہ ايک بڑی زبردست زبان ہے۔ شاعرانہ روايت کے ساتھ چمٹے ہوئےلوگ جب کسی کے منہ سے ميری زندگی، ميرا ملکسن جاتے ہيں تو گويا شدت ِ جذبات سے گر پڑتے ہيں، رونے پہ آجاتے ہيں۔ہماور ہماراکےبجائے ملک، مذہب اور خدا کے ساتھ ميںاور ميرالگا کر ذاتی جذبات کی شدت دکهانے اور ملکيت کا ايک ايسا احساس دينے کی کوشش کی جاتی ہےجس سے ايک پاکستانی مخاطب کے جذبات پر آسانی سے قابو پايا جاسکتا ہے۔

اس کا دوسرا ٹويٹ تها:۔

Puzzled, saddened. Had no intention of going anywhere; this is my home. Pakistan.”

يہ بهی وہی رلا دينے والی بات ہوئی۔ حب الوطنی کی ايک مخصوص مرکزی زبان۔ايک مظلومکی حب الوطنی۔ ايک سچلکهنےوالے کی اپنی ماں دهرتی سے محبت۔ سب کچھ اپنے ملک کيلئے کرنا ليکن نادان حکمرانوں کی ناسمجهی۔

کيا ميرانشاء ، صوابی، پشين اور نوشکی ميں مائيں بہنيں ان نادان حکمرانوں کيلئے بددعائيں دیں گی کہ تم نے کيوں اپنےملک سے پيار کرنے والے ايک عام اور ديانتدار شہری کواداس کيا؟

کيا ہزاره کميونٹی بڑی پريشان ہوئی ہوگی کہ سِرل کو اگر خاموش کيا گيا تو پاکستان کے مين سٹريم ميڈيا ميں ان کی آه و پکار دنيا تک پہنچانے والا کوئی نہيں رہے گا؟

کيا اے اين پی کےعام کارکن يہ سمجهتے ہونگے کہ سِرل نے اگرڈان ميں لکهنا چهوڑ ديا تو پاکستان کے کسی بڑے اخبار ميں ان کی پارٹی پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے خلاف لکهنے والا کوئی اور ديانتدار تجزيہ کار پهر مشکل سے ملے گا؟

ہميں يہ سمجهنے ميں ايک مشکل کا سامنا ہےکہ واقعی ڈان ميں سِرل کی اس سٹوری کے آنےاورپهر ڈان کے ادارے کا اس سٹوری اور سِرل کے دفاع ميں کهڑے ہونے کا يہی مقصد تها جو ہميں بتاياگيا ہے کہ ڈان نے اپنےقارئين سےمنصفانہ، آزادانہ اور مصدقہ رپورٹنگ کا مقدس وعده کيا ہوا ہے۔يا اس کےکچھ اور مقاصد بهی ہوسکتے ہيں؟ سول اور فوجی قيادت کے بندکمروں تک توکبهی کبهی آزادميڈيا کے سِرل جيسےطاقتورصحافی رسائی حاصل کرنے ميں کامياب ہوسکتے ہيں ليکن ہميں ميڈيا کے اپنے بند کمروں کا روزگار ديکهنے کا موقع کبهی نہيں مل سکتا۔

ايک طرف ا س آزادميڈيا کےطاقتور صحافی اورتجزيہ کار ہيں جو ان کے بقولحساس خبروں کو بند کمروں سے برآمد کر کے بڑے فخر سے اپنی مصدقہ اورآزادانہ رپورٹنگکا سورس اپنی کوئی چڑيابتا کر لوگوں کے ذہنوں پہ اپنی پيشہ ورانہ صلاحيتوں کا بهوت سوار کرجاتے ہيں اور دوسری طرف ہمارے سياستدان ہيں جن کو کئی مہينوں تک پاک چائنا اکنامک کاريڈور کے ہزاروں کلوميٹر لمبے روٹ کا پتہ نہيں چلتا تها کہ يہ کہاں سے گزارا جاتا ہے۔

ان کے ساتھ نواز شريف نے وعده کيا تها کہ مغربی روٹ پر ترجیحی بنيادوں پر کام شروع کيا جائے گا۔ ابهی چند دن پہلے وزيراعلی خيبر پختونخوا نے کہا کہ چائنا کےسفير نے خود ان کو بتايا ہے کہ اس منصوبے ميں نہ توکوئی مغربی روٹ شامل ہے اور نہ ايسا کوئی اراده ہے۔پشتون اور بلوچ سياستدان کئی آل پارٹيز کانفرنسز، وزيراعظم سے ملاقاتوں اور کافی شور و واويلا کےباوجود بهی اس ميں کامياب نہيں ہوئے کہ پاک چائنا اکنامک کاريڈور کے حوالے سے معلومات تک رسائی حاصل کريں۔

اس آزاد ميڈيا اور موقر اخبارات ميں فاٹا کے حوالے سے صرف يہ خوشخبری ہميں ملتی رہی ہے كہ آپريشن ضرب عضب کاميابی سے اپنےمنطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کبهی کبهار فاٹا ميں انسانی حقوق کی پامالی کا موضوع بهی ان موقر انگريزی اخبارات ميں جگہ بنا ليتا ہے ليکن تاريخی، قومی اور سياسی حقوق کے حوالے سے ان اخبارات سے کوئی توقع رکهنا عبث ہے۔ بلوچستان، پختونخوا اور سندھ ميں سياسی کارکنوں پہ کيا گزرتی ہے اس کی معلومات ہميں کسی ڈان اور دی نيوز ميں نہيں مل سکتیں۔ ثبوت کے طور پر ايک دو سٹوريز اگر کوئی پيش کرتا ہے تو اس کو ہم کيس بيلنس کرنا تصور کرينگے۔

يہ بڑی دلچسپ حقيقت ہے کہ پاکستان ميں فوج کے قصيدے گانے والے بڑے فنکاروں اور فوج کے حوالے سے سچیخبريں چلانے والے بہادرصحافيوں کا تعلق مرکزی علاقوں سے ہی رہا ہے۔ حامد مير سے سائيرل المائڈا تک کی کہانی کا سارا پلاٹ مرکزی علاقوں (پنجاب اور اردو بولنےوالے علاقوں) پہ مشتمل ہے۔

ان ضمنی علاقوں کو اس کہانی کی خبر تک نہيں جن کے بارے ميں سول ملٹری کشمکش يا رياست کے کردار کو حامدمير اور سائيرل المائڈا جيسے بہادروںنے ايکسپوز کرنے کی کوشش کی ہے ، اس کی سزاپائی ہے اور ہيروز قرار پائے ہيں۔ حامد مير سے سِرل المائڈا تک کی کہانی سنتے ہوئے يہ گمان ہوتا ہے کہ پاکستان ميں سچلکهنے کا سفر کراچی سے اسلام آباد براستہ لاہور ايک ایسی ٹرين ميں ہوتا رہا ہے جس ميں پختونخوا اور بلوچستان سے کوئی سواری سرے سے موجود ہی نہيں۔

کہنے کا مقصد يہ ہے کہ جو سچلکهنے کا بيانيہ بنتا جارہا ہے يہ بالکل ماضی ميں ترقی پسند جدوجہد کے اس بيانيے کی مانند ہے جب کوئی پنجابی يا اردو بولنے والا ترقی پسند چند دنوں کيلئے جيل جاتا تو ہيرو بن جاتا اور ضمنی علاقوں کے ترقی پسند جيلوں ميں گل سڑجاتے ليکن ان کے نام تک کا کسی کو پتہ نہيں ہوتا۔ بالفاظ ديگر مرکزی علاقوں کی جدوجہد کوہميشہ پهر خاص مقاصد حاصل کرنے کيلئے بروئے کار لايا گيا ہے۔

نجم سيٹهی، احمد رشيد اور امتياز عالم کہاں سے کہاں تک پہنچ گئے اور محمد علی تالپور جيسے لوگ کہاں ره گئے۔ ماہنامہ نيازمانہ، پنجاب کی سياست ميں لابی بنانے ميں ناکام ہوگيا اور ايسا بند ہوا جس کا ايک محدود کمزور طبقے کے علاوه کسی کو علم تک نہيں ہوا۔ آساپ اخبار کا کيا حال ہوا اور توار کا کيا بنا؟ اس کا ہميں کوئی پتہ نہيں۔

رزاق بلوچ کيسے قتل ہوئے اور حيات الله کی جان کس نے لی؟ يہ سوالات ميڈيا کے مرکزيت پسندبيانيے ميں شامل نہيں۔ فرنٹئير پوسٹ ايک زبردست اخبار سے کسی طرح ڈمی بن گيا اس کا مرکزيت پسند بيانيے ميں کوئی ذکر نہيں۔ ہر سال بلوچستان، فاٹا، پختونخوا اور سندھ ميں کتنے صحافيوں کی لاشيں گرائی جاتی ہيں ان کی تعداد معلوم کرنے کيلئے ہميں انسانی حقوق يا کسی اور اين جی او کی رپورٹ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ہمارا مسئلہ ہميشہ اس مرکزيت پسند سچکے ساتھ رہا ہے جس کو بيان کرنے پہ لوگ سزاپاتے ہیں اور ہيرو ٹھہرتے ہیں۔ ہم اس سچ کی نوعيت اور مقصد کے بارے ميں جاننا چاہتے ہیں۔

کسی نے ڈان اخبار کے بارے ميں کہا تها کہ يہ حکمران طبقات کا ايک سنجيده اخبار ہے۔ اس سنجيده اخبار ميں بهی وه سچبيان کيا جاتا ہے جس کا فائده آخری تجزيے ميں حکمران طبقات کی جمہوريت کو پہنچتا ہے۔ معاشرے اور رياست کے مختلف تضادات کو بهانپتے ہوئے ہم جنگ اور نوائے وقت کی بجائے ڈان کے سچ کا ساتھ ديتے ہيں ليکن اس کا کبهی يہ مقصد نہيں کہ ہم ڈان کے تجزيے اور روئيے سے مطمئن ہيں۔

ڈان کسی بهی طرح سے عوام کا اخبار نہيں۔ اس پہ جن لبرل اور مصلحت پسند لوگوں کی رائے حاوی ہوتی آرہی ہے ان کو نہ ہم اس سماج کے نمائندے تصور کرتے ہيں اور نہ ان سے کبهی اس سچ کے سننے کی توقع رکهتے ہیں جو اس سماج کے محکوم و مظلوم طبقات کی حقيقی زندگی سے تعلق رکهتا ہے۔ ڈان کے ادارتی صفحے ميں ضمنی علاقوں سے ايک بهی تجزيہ کار آپ کو نہيں ملے گا۔ ان کی انگريزی، تجزيہ اور تجربہ کبهی بهی ڈان کے معيار پہ پورا نہيں اتر سکتا۔

ڈان کی پاليسی نديم فاروق پراچہ، پرويزہود بهائی ، زاہد حسين اور عامر رانا جيسے پاپولرزم کا بازار گرم کرنے والے لوگوں کو پروموٹ کرنا ہے۔ ڈان اخبار، ايچ آر سی پی، لٹريری فيسٹيولز ، فيض میلہ اور فيمنسٹوں کے سيمنارزيہ سارے ملتے جلتے ، ايک ہی فکر و نظر کے لوگوں کے کارنامے ہيں۔

يہ لوگ جس سچکا دعوی کرتے ہيں وه بڑا سطحی لبرل سچ ہے۔ يہ کسی مزدور کی زندگی کا سچ نہيں۔ يہ کسی پشتون، بلوچ اور سندهی قوم پرست سياسی کارکن کی زندگی و آدرش کا سچ نہيں۔ اس سچ کا اس ميرانشاء بازار کے ساتھ کوئی تعلق نہيں جو آپريشن ضرب عضب سے پہلے لوگوں کی زندگی کا ايک سائنسی سچ تها۔

جمہوری آزادیوں کے حق ميں آواز بلند کرتے ہوئے يہ سوچنا ہوگا کہ ہماری اس آواز کا فائده پسے اور ٹکرائے ہوئے عوام کو ملتا ہے يا ہم ايک ايسے طريقے سے آواز بلند کررہے ہيں جس کی وجہ سے لوگوں کے اس تنقيدی رويے ميں نرمی آجاتی ہے جو وه رياستی بيانيے اور کارپوريٹ ميڈيا کے حوالے سے رکهتے ہيں۔

Twitter: @khanzamankakar

12 Comments