مفاد کا تصادم۔کانفلیکٹ اف انٹرسٹ۔ یہ ایک ایسا نقطہ ہے جس پر لاء سکولوں میں بہت زیادہ بحث کی جاتی ہے۔مہذب ملکوں کی لاء سوسائٹی اس کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔یہ اپنے ممبران یعنی وکلاء حضرات کو بہت سختی سے تنبہہ کرتی ہیں کے وہ اپنے موکل کے ساتھ کانفلیکٹ آف انٹرسٹ سے بچیں۔اور اگر کئی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے جہاں وکیل کا مفاد اپنے موکل سے متصادم ہو تو وکیل کو چاہیے کہ وہ اس موکل کی وکالت سے دستبردار ہو جائے۔
یہ ایک لگا بندھا اصول ہے جو صدیوں سے ان سارے ممالک میں رائج ہے جہاں قانوں کی کوئی عزت و توقیر ہے۔مہذب دنیا میں بڑی تعداد میں ایسے وکلا حضرات معطل ہوئے یا ان کے لائسنس منسوخ کر دئیے گئے جن کے مفادات اپنے موکلوں سے متصادم تھے اور اس کے باوجود وہ ان کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے۔
اس پرانے اور تسلیم شدہ اصول کے پس منظر میں یہ فلسفہ کار فرما ہے کہ اگر وکیل کا مفاد اپنے موکل کے مفاد سے متصادم ہے تو وہ وکیل غیر جذباتی انداز سے اور غیر جانب داری سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام نہیں دے سکتا ۔ اس اصول کے تحت جن وکلا کے لائسنس منسوخ ہوئے انہوں نے اس اصول کو عدالتوں میں چیلنج کیا۔امریکہ ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی عدالتوں نے اس اصول کے حق میں درجنوں فیصلے دئیے۔اور بار بار اس بات پر اصرا ر کیا کہ مفادات کے تصادم کے اصول پر سمجھوتہ انصاف کا خون کرنے کے مترادف ہو گا۔
ہمارے ہاں بھی کتابی طور پر یہ اصول موجود ہے چونکہ ہم نے بنیادی طور پر بیشتر قانون انگریزوں سے ہی مستعار لیے ہیں۔ہمارے لاء سکولوں میں بھی یہ اصول پڑھایا جاتا ہے۔مگر عملی طور پر ہماری بار ایسوسی ایشنوں اور عدالتوں میں اس اصول کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔کئی وکلاء نے کبھی یہ لفظ سنا بھی نہیں ہوتا ہے۔چنانچہ اگر کوئی ہمارے ہاں اس اصول کی بات کرے تو اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اگلے جہاں کی باتیں کر ہا ہے۔اگر ہماری عدالتوں اور بار ایسوسی ایشنز میں اس اصول کی یہ اہمیت ہے تو یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ عام زندگیوں میں اس اصول کی کیا اہمیت ہو گی۔
چنانچہ ہمیں زندگی کے ہر بڑے اور اہم مسئلے میں کانفلیکٹ اف انٹرسٹ نظر آتا ہے۔اس کی ایک بڑی اور واضح مثال مسئلہ کشمیر بھی ہے۔کشمیریوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کشمیر کیس کی پیروی کے لیے پاکستان کو اپنا وکیل مقرر کیا ہوا ہے۔پاکستان کا بھی یہی خیال ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں کشمیریوں کا باقاعدہ وکیل ہے۔گویا اس مسئلے میں پاکستان وکیل اور کشمیری موکل ہیں۔یہ وکیل اور موکل کے درمیان کانفلیکٹ آف انٹرسٹ کی ایک کلاسیکل مثال ہے۔
قانونی طور پر پاکستان تنازعہ کشمیر کا ایک باقاعدہ فریق ہے۔پاکستان کی یہ پوزیشن اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر میں تسلیم شدہ ہے۔عملی طور پر کشمیر کے حصول کے لیے پاکستان نے بھارت کے خلاف ایک کھلی جنگ سمیت کئی پراکسی اور خٖفیہ لڑائیاں لڑی ہیں۔سیاسی اور سفارتی محاذپر پاکستان نے کشمیر پر اپنا حق اور دعویٰ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مرتبہ دہرایا ہے۔دعویٰ یہ ہے کہ کشمیر تاریخی، جغرافیائی، اور مذہبی اعتبار سے پاکستان کا حصہ ہے۔ اور اسے پاکستان میں شامل ہونا ناگزیر ہے۔یہ اتنا ناگزیر ہے کہ یہ دراصل پاکستان کی شہہ رگ ہے۔
چنانچہ اس کا پاکستان میں شامل ہو نا تو ہے ہی ہے مگر اتمام حجت کے لیے یہاں رائے شماری بھی کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔یہ وہ مقام ہے جس پر اس مسئلے کے المناک اور مزاحیہ پہلو یکجا ہو جاتے ہیں۔اس کا المناک پہلو کشمیریوں کے حصے میں آتا ہے اور مزاحیہ پہلو دنیا کے حصے میں۔اس کے باوجود داد دینی پڑتی ہے کشمیریوں کی دانش کو جو ساٹھ سال سے یہ بات تسلسل سے دہرا رہے ہیں کہ پاکستان ان کا وکیل ہے، اور آثار یہ بتاتے ہیں کہ آنے والے سینکڑوں سالو ں تک وہ یہ بات دہراتے رہیں گے۔
قانونی و عملی طور پر پاکستان تنازعہ کشمیر کا باقاعدہ فریق ہے۔وہ باقاعدہ سرکاری طور پر کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔اس کے نزدیک کشمیر تقسیم بر صغیر کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ یعنی تقسیم بر صغیر کے وقت راست جموں کشمیر پاکستان کے حصے میں آنی چاہیے تھی۔ایسا بوجوہ نہ ہو سکا۔ چنانچہ اب مسئلہ کشمیر کا حل یہ ہے کہ بھارت کشمیر سے نکل جائے اور ریاست جموں کشمیر کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔
پاکستان کے خیال میں کشمیری عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔چنانچہ اس معاملے میں کشمیریوں کی رائے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔چنانچہ پاکستان جب بھی اقوام متحدہ یا کسی اور فورم پر مسئلہ کشمیر کی بات کر تا ہے تو وہ کشمیریوں کی وکالت نہیں ہوتی بلکہ وہ بھارت سے کشمیر مانگ رہا ہوتا ہے۔
کشمیریوں کی وکالت تب ہو سکتی ہے جب پاکستان یہ مطالبہ کرے کہ کشمیریوں کو ان کا غیر مشروط حق خود ارادیت دیا جائے۔اور غیر مشروط حق خور ارادیت میں حق علیحدگی شامل ہو تا ہے۔ ایسا کیے بغیر پاکستان کے سرکاری موقف اور کشمیریوں کے مفادات میں شدید تصادم ہے جسے سمجھ بغیر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن نہیں ہے۔
♥