انگریزی روزنامہ میں شائع شدہ حالیہ خبر سے ایک نئی بحث چھڑگئی ہے۔ کیا خبریں صرف سویلین لیک کر رہے ہیں یا فوجی اور انٹیلی جنس حلقوں کی طرف سے بھی خبریں لیک ہوتی ہے ؟ اگر اہم اجلاسوں کی خبروں کی لیک ہونا قابل جرم ہے تو اس حوالے سے ڈبل اسٹینڈرڈ کیوں؟ کیا ڈان کی لیک شدہ خبر سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا ہے یا فائدہ ؟ یہ اوراس قسم کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
موقر انگریزی روزنامہ ڈان میں قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم اجلاس کی خبر لیک ہونے اور اس کے خبر رپورٹ کرنے والے صحافی کے خلاف کاروائی سے ایک وسیع قومی بحث شروع ہو چکی ہے ۔ پاکستان میں میڈیا لیکس تواتر سے حکومت اور سیاستدانوں کی کردار کشی اور بلیک میلنگ کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ میڈیا میں گند تو پہلے سے موجود تھا مگر اس میں اضافے سے اس کی بد بو اتنی پھیلی کہ گند اب صاف دکھائی دیا جانے لگاہے۔
پاکستان میں صحافت حکومت اور ریاستی اداروں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ پہلے حکومت وقت اور ریاستی اداروں کے مفادات میں عموماً یکسانیت رہتی تھی۔ مگر گزشتہ چند سالوں سے خاص کر منتخب جمہوری ادوار میں کچھ ریاستی اداروں کے مفادات بعض اوقات حکومت کے مفادات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ماضی میں کئی دفعہ ان اداروں نے اپنے پروردہ میڈیا اور سیاستدانوں کے ذریعے اور تو اور منتخب صدر اور وزیراعظم تک کو سیکورٹی رسک قرار دے چکے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو یہ تمغے دیے جاچکے ہیں۔
موجودہ حکومت اور بعض ریاستی اداروں کی درمیان بعض داخلی اور خارجی مسائل پر اختلاف نظر موجود ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں سیاسی قیادت کو راہ راست پر لانے کیلئے کئی مجرب نسخے آزمائے گئے۔ اور سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ نوازشریف کی حکومت کوئی آئیڈیل حکومت نہیں اور نہ اس ملک میں صرف سیاستدان بدعنوان ہیں۔ بلکہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے لے کرتاحال کئی جرنیلوں کے کرپشن کےاسکینڈل زبان زد عام ہیں ۔ البتہ کرپشن کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں۔
حامد میر پر حملے اور اس پر جنگ گروپ کے اسٹینڈ لینے کے بعد اور پھر دھرنے کے دوران میڈیا میں آزاد اور ریاست کی پروردہ میڈیا کے تقسیم انتہائی واضح ہوگئی۔ ریاستی ادارے میڈیا کے باہمی اختلافات اور چپقلشوں کاھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔میڈیا میں ایک طرف صحافیوں کی آپس کی پیشہ وارانہ حسد اور مقابلہ بازی اور دوسری طرف مالکان کی کاروباری رقابتوں سے بری طریقے سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور نہ صرف ان کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال بلکہ انہیں سیاستدانوں کی کردار کشی اور تقسیم کرو اور لڑاؤ کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ذاتی قسم کی معلومات یا ذرائع کمیونیکشن جس تک میڈیا کی رسائی کم ہوتی ہے کی خبریں بھی میڈیا پر چلتی رہی ہے۔ کیونکہ اخباری معلومات اور انٹیلی جنس معلومات میں کافی فرق ہوتا ہے۔ میڈیا معلومات کو اپنے انداز میں اس کو استعمال کرتا یا بروئے کار لاتا ہے۔ بہت ذاتی یا ٹیکنیکل قسم کی معلومات مثال کے طور پر کسی فرد کی ٹیلی فون یا نیٹ وغیرہ تک رسائی وغیرہ عام طور پر صحافیوں کی دسترس سے باہر ہوتی ہے مگر انٹیلی جنس اداروں کی دسترس میں ہوتی ہے۔
عموماً سینئر صحافیوں کو خبر سے اور اس میں دی گئی معلومات سے پتہ چل جاتا ہے کہ معلومات کےذرائع کون ہوسکتے ہیں۔ مثلا” اگر خبر لگتی ہے کہ کسی خاص کارخانے میں کتنے انڈین کام کر رہے ہیں تو یہ ایک عام صحافیانہ خبر ہے لیکن اس خبر میں اگر یہ معلومات دی جائیں کہ اس میں کتنے جاسوس یا ان کے کس کس کے ساتھ ٹیلی فون وغیرہ کے رابطے ہیں تو یہ عام طور پر صحافیانہ معلومات نہیں ہو سکتی ۔ اگر کوئی صحافی بڑے وثوق سے کسی کی ٹیلی فون گفتگو یا نیٹ پر بات چیت کا حوالہ دیتا ہے تو عام حالات میں یہ اس بات کی گواہی ہے کہ خبر کےذرائع انٹیلی جنس ذرائع ہیں ۔ جو یا تو صحافی نے پیشہ وارانہ مہارت سے نکالی ہے یا انہوں نے کسی مقصد کیلئے لیک کی ہے۔ اچھا جو خبر لیک خبر ہوتی ہے اس میں دئیے گئے زاویوں سے پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا مقصد کیا ہے ۔
حامد میر پر قاتلانہ حملے اور بعد میں دھرنے کے دوران صحافت میں پہلے سے موجود گند میں اضافہ ہوتا گیا اور اس کی بدبو اتنی زیادہ پھیلی کہ اب ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ صحافت کی تنزلی کا یہ حال ہے کہ غیر جانبداری اور حقائق نگاری اب قصہ پارینہ بن چکی ہے ۔ اینکرز صحافی سے زیادہ جوشیلے سیاسی ورکرز لگ رہے ہیں ۔ اب میڈیا میں جس قسم کی بلیک میلنگ اور شخصی مفادات کے حصول کیلئے گھٹیا حربے استعمال ہو رہے ہیں اس کے سامنے زرد صحافت اور لفافہ صحافت کی اصطلاحات کی کوئی وقعت نہیں رہی۔
باقی تو چھوڑیے اگر حالیہ دو اجلاسوں کی لیکس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ ایک ہی عمل یعنی میڈیا لیکس ہوا ۔ ایک پر نوٹس لیا جا رہا ہے اور دوسری پر خاموشی ہے ۔ ڈبل اسٹینڈرڈ ملاحظہ کیجئے کہ ایک قومی سلامتی کے اجلاس کی لیک جو غا لب امکان یہ ہے کہ شاید سویلین کی طرف سے آئی ہو جو انسداد دہشت گردی پر بحث اور اس کے طریقہ کار پر فوجی اور سویلین قیادت میں اختلاف نظر کے بارے میں تھی جبکہ دوسرے اجلاس کی لیک جس میں لیک کرنے والوں نے فوجی ذرائع کے حوالے دئیے ہیں۔ فوج کی طرف سے آئی ہے جو کہ سویلین قیادت کو فوجی قیادت کی جانب سے شٹ اپ کال دینے کے بارے میں تھی ۔ پاکستان میں میڈیا کی جو سیاسی صف بندی ہے اس میں جس چینل سے جس ذریعے سے خبر لیک ہو رہی ہو تو سورس یعنی معلومات کے ذرائع کا فوری پتہ چل جاتا ہے۔
اگر کسی بھی عام پاکستانی سے پوچھا جائےتو فوراً بتا دیتا ہے کہ کونسا چینل حکومت مخالف اور کونسا صحافی یا اینکر کس کا حامی یا کس کی بولی بول رہا ہے ۔ بول سے یاد آیا کہ اس دوران کچھ میڈیا گروپوں کو لگام ڈالنے اور اجارہ داری ختم کرنے کیلئے بول کے نام سے بھی ایک تجربہ کیا گیا مگر فلاپ رہا ۔
بہت سے لوگ میڈیا کی آپس کی لڑائی کو حکومت اور حزب اختلاف کی چپقلش کے تناظر میں دیکھتے ہیں حالانکہ اس طرح نہیں۔ یہ لڑائی دراصل جمہوریت پسند اور جمہوریت دشمن قوتوں کی لڑائی ہے ۔ اور جمہوریت دشمن قوتیں نہ صرف میڈیا بلکہ سیاستدانوں کو بھی استعمال کر رہی ہے ۔ بنیادی مقصد معاشرے پر اپنی گرفت برقرار رکھنا اور مضبوط کرنا ہے۔ ان کو جمہوری روایات اور جمہوری نظام کی مضبوطی سے خوف آتا ہے کیونکہ پھر سوال اٹھتے ہیں اصلاح احوال کی بات ہوتی ہے۔
قانون اور آئین کی بالادستی کی بات ہوتی ہے ۔ اور جب ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی قائم ہوگی تو لازمی طور پر پھر عوام کی منتخب اداروں کی بالادستی تسلیم کرنا پڑے گی ۔ دیگر جمہوری ممالک کی طرح پھر سویلین کے ماتحت کام کرنا ہوگا جو ھمارے پس منظر میں بعض ریاستی اداروں کو بالکل قابل قبول نہیں ۔ اس وجہ سے جمہوری اور منتخب حکومتوں کے خلاف ریشہ دوانیاں چلتی رہتی ہے تاکہ خود کو مسیحا اور فرشتے اور انہیں نااہل اور بدعنوان ثابت کرے۔
ایک طرف طاقتور حلقوں کی ریشہ دوانیاں اور دوسری طرف خود سیاستدانوں کی بیوقوفیوں اور نا اہلی کی وجہ سے ملک میں جمہوری تجربے کچھ زیادہ کامیاب نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اکثر کیسوں میں نہ تو حزب اقتدار اور نہ حزب اختلاف سیاسی سوجھ بوجھ اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اپنی زیادہ تر توانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کرتی ہے۔ مطلق العنان رویے، اناپرستی اور مفاد پرستی سیاسی راہنماوں کی سیاسی ساکھ اور شہرت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں ابھی تک میڈیا آزاد نہیں اور دوسرا غیر جانبدار اور ذمہ دار رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ ذاتیات سے بالا تر ہو کر یا کسی جمہوریت دشمن قوت کا آلہ کار بننے کی بجائے جمہوری اقدار اور کلچر کی فروغ کیلئے کام کرنے کی روایت کم ہوتی جارہی ہے۔ آزاد ، غیر جانبدار ، ذمہ دار اور پیشہ ور صحافت کیلئے ضروری ہے کہ صحافی صحافت کے مروجہ اصولوں اور ضابطہ اخلاق کا احترام اور پاسداری کرے۔
♣