ایمل خٹک
ماہ محرم اگرچہ اسلامی کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے اور کئی حوالوں سے بڑا با برکت مہینہ ہے ۔ مگر بعض فرقہ پر ست اور تنگ نظر مذہبی بیانیوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کی وجہ سے محرم کے شروع ہونے کے ساتھ ساتھ عام پاکستانیوں کے دل دھڑکنے لگتے ہیں اور خوف و ہراس کی ایک عمومی فضا طاری ہو جاتی ہے۔ محرم کے بخیر و خوبی سے گزرنے کی دعائیں شروع ہو جاتی ہے ۔ عوام کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بھی یہ مہینہ بڑا بھاری گزرتا ہے۔
اگر کوئی مذہبی فرقہ اس مہینے کو اپنے عقائد اور نظریے کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے تو اس میں اتنی ہی قباحت نہیں جتنی اگر کوئی اور فرقہ یا فرقے اس کو مختلف انداز سے منانا چاہتے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل اور اختلافات حل کرنا آیا ضروری بھی ہیں اور اگر ضروری ہیں تو کیا اس کے حل کا واحد طریقہ فتوی بازی اور مارکٹائی ہے ۔ کیا ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے مذہبی عقائد اور نظریات کے ساتھ جیو اور جینے دو کے اصول کے تحت زندگی گزارنے کا حق تسلیم اور نہیں دے سکتے۔
اپنی امتیازی اور تنگ نظر مذہبی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی ریاست آہستہ آہستہ ایک مخصوص مذہبی سوچ اور لسانی تشخص اختیار کر چکی ہے۔ جس میں دیگر فرقوں اور مسلکوں کے لیے کوئی جگہ نہیں اور ان کی زندگی اجیرن بنائی جارہی ہے۔
ملک کو اس موڑ پر پہنچانے میں ان گھسے پٹے ریاستی بیانیوں کا اہم رول رہا ہے جس کو ریاستی اداروں اور اس کے پروردہ دانشور طبقے نے پھیلا کر اس سے نہ صرف عام جنتا کے ذ ہن اور مذہبی اور سماجی خیالات کو آلودہ کرنے کی کوشش کی بلکہ ناعاقبت اندیش ریاستی پالیسیوں کی دفاع کے ساتھ ساتھ اس کی مہم جوئیوں کیلئے سازگار ماحول بھی بنایا۔
بیرونی قوتوں کے ایماء اور اندرونی نظریاتی ایجنڈا کی تکمیل کیلئے مذہبی کارڈ کے بھرپور اور بھونڈے استعمال سے معاشرے میں مذہبی خلفشار، کج روی، فرقہ واریت اور مذہبی متشدد رحجانات خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں ۔ اس سلسلے میں بعض عرب ممالک کا کردار بڑا منفی اور تباہ کن رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی فرقہ پرست ، انتہاپسند اور متشدد غیر ریاستی عناصر کے ساتھ قریبی تعلق کی وجہ سے فرقہ وارایت اور انتہاپسندی کے جراثیم ریاست کے رگ رگ میں پھیل چکے ہیں ۔ بعض ریاستی عناصر اپنا غیر جانبدارانہ کردار چھوڑ کر فرقہ وارانہ اور مسلکی امور میں باقاعدہ فریق بن چکے ہیں ۔ اہم سرکاری عہدوں پر فائز ایسے افراد کی کمی نہیں جو مخالف یا دیگر فرقوں اور مسالک کو مذہب سے خارج اور کافر سمجھتی ہے۔ اور ان کے قتل کو جائز سمجھتے ہیں۔
بدقسمتی سے مذہب کے نام پر بنائے گئے ملک میں مذہب ایک طرف ریاست کی لونڈی اور دوسری طرف علماء سوء کے ذاتی مفادات کا غلام بن گیا ہے۔ مذہب اگر جنس تجارت بن گیا ہے اور اسے سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے تو اس میں اتنے اچنبھے کی بات نہیں۔ جہاں ہر چیز کو مذہب سے ناپنے کا رحجان زوروں پر ہو اور ہر کام میں مذہب کا حوالہ دینا لازم ہو اور مذہب کی تشریح اور تاویل ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری بن گئی ہو تو پھر اس معاشرے میں مذہب کے نام پر انتشار اور فساد کے پھیلنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اور یہ امکان اس وقت زمینی حقیقت میں تبدیل ہو جاتا ہے جب ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہ ہو جو مذہب کے غلط استعمال پر نظر رکھتا ہو روکتا ہو اور بازپرس کرتا ہو۔ مدارس کی بلا روک ٹوک پھیلاؤ اور خطبات کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق یا راہنما اصول موجود نہ ہو تو پھر نیم ملا خطرہ ایمان بن جاتا ہے۔
مذہب سے ملک سے یا ریاستی اداروں سے محبت یا ان کا احترام اپنی جگہ مگر معاشرے میں بڑھتے ہوئے مذہبی انتشار اور فساد کو روکنے کیلئے کچھ امور پر بات کرنا اب ضروری ہوگیا ہے ۔ اتنی تباہی اور بربادی کے بعد اب اندھی عقیدت اور سطحی محبت کے چکر سے نکل کر مذہب کے غلط استعمال کے مضر سیاسی اور سماجی اثرات پر بات کرنا ہوگی ۔اور اب بات کرنے کی ضرورت بھی ہے مگر بےلاگ اور صاف صاف بات کرنے کی ضرورت ۔ تاکہ مذہب کا کھویا ہوا وقار بحال ہو اورمذہب پر سے دھشت گردی اور انتہاپسندی کا دھبہ دھل جائے۔ اس طرح ریاست اور ریاستی اداروں کی مذہب کے نام پر ڈرامہ بازی پر بھی بات کرنا ہوگی۔
ریاست اور ریاستی اداروں کا احترام اور ان سے عقیدت اپنی جگہ مگر اداروں اور دنیاوی چیزوں کو مذہبی لبادہ پہنانے اور اسے تقدس کا درجہ دینے کا عمل بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ مثلا” کسی بہت بڑی مذہبی شخصیت کے بارے میں جو صدیوں پہلے فوت ہوچکی ہوکہا جاتا ہے کہ انہوں نے 65 کی پاک۔بھارت جنگ میں شرکت کی تھی ۔
اگر اس ایک واقعے کو سچا مان بھی لیا جائے تو پھر جنگ میں ان کی شایاں شان فتوحات بھی ہونی چاہئی تھی ۔ بھارت کو صفحہ ہستی سے مٹ جانا چائیے تھا۔ مگر انڈیا اب بھی موجود ہے بلکہ اگر تعصب اور بھارت کے حوالے سے مخاصمانہ جذبات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے تو دنیا میں اس کی عزت اور توقیر ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ بیشک نام نہاد علماء نے مذہب کو مذاق بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔
عوام توقع کر رہی تھی کہ علماء جاری مذہبی دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے انسداد اور قوم کی راہنمائی کیلئے مذہب کا درست اور حقیقی چہرہ سامنے لائیں گے ۔ تنگ نظر اور جنگجویانہ بیانیوں کی جگہ امن پسند، میانہ رو اور رواداری کے بیانیوں کو سامنے لائیں گے ۔ مذہبی دہشت گردی پھیلا نے والوں کو مذہبی بنیاد اور بیانیوں کو چیلنج کرینگے لیکن الٹا وہ قوم کو اور چکروں میں ڈال رہے ہیں۔
اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت کریں تو یہ حقیقت آشکارا ہوجائیگی کہ خود بعض مسلمانوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے مذہب کے بارے میں بدگمانیاں بڑھ رہی ہے۔ امن اور سلامتی کا مذہب کہلائے جانے والے مذہب کی فرقہ واریت اور تشدد پہچان بن گی ہے۔
جہاں تک بیرونی عوامل کا تعلق ہے تو کم از کم پاکستان کی حد تک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اوروں کے علاوہ مذہبی معاملات میں سب سے زیادہ گند بعض مسلمان ممالک نے پھیلایا ہے ۔ اب بھی کچھ لوگ اس مخمصے میں رہتے ہیں کہ ھماری تمام برائیوں کی جڑ بیرونی عوامل یعنی ہنود اور یہود و نصارا وغیرہ ہیں ۔ بیرونی عوامل کے رول سے انکار نہیں مگر اس کو اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے مبرا کرنے کیلئے نہیں استعمال ہونا چاہئے۔
اس طرح ریاست کو بھی مذہب کی امن پسند، میانہ رو اور روا دارانہ بیانیوں میں دلچسپی نہیں ورنہ علماء حق کی سرپرستی کرتے ان کو سامنے لاتے۔ الٹا ریاست پر بعض عسکریت پسند اور فرقہ پرست تنظیموں کی سرپرستی کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔ جو ملک میں جنگجویانہ اور انتہاپسند جذبات کو بھڑکانے میں مصروف ہیں۔ عسکریت پسند تنظیموں کی وجہ سے ایک سے زائد مواقع پر سرحدوں پر جنگ سی کیفیت پیدا گئی ہے۔ بلا استثنی تمام پڑوسی ممالک نے کسی نہ کسی موقع پر سخت الفاظ یا دبے الفاظ میں ملک کے اندر دھشت کاروائیوں کیلئے پاکستان کی سرزمین کی استعمال کی طرف اشارہ کیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے قوم کو دفاعی حکمت عملی میں تبدیلی اور اندرونی دشمن یعنی دہشت گردی کو دشمن نمبر ون قرار دینے کی نوید سنائی گئی تھی۔ مگر ریاست نے اندرونی دشمن کو دشمن نمبر ون قرار دینے والے بیانیے کو زیادہ فروغ نہیں دیا۔ الٹا ریاستی سطح پر آزادی پسند اور دہشت گرد ، اچھے اور برے طالبان کی تمیز کی پالیسی نے اس بیانیے کو مبہم اور متذبذب بنا دیا ہے۔ اسی تذبذب اور ابہام کی وجہ سے دہشت گردی کے خلاف جنگ تاحال کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی اور کوئٹہ ، مردان اور مہمند ایجنسی کی حالیہ دہشت گرد کاروائیوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد اب بھی بڑی اور تباہ کن کاروائیاں کرنے کی سکت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔
موجودہ مذہبی انتشار اور فساد پھیلانے میں ملا اور ریاست کے گٹھ جوڑ جس کو بعض تجزیہ نگاروں اور سیاسی کارکنوں نے ملا ملٹری الائنس کا نام دیا ہے کا بھی بڑا رول رہا ہے۔ علماء اور ریاست کاتعلق بہت قدیم ہے۔ لیکن برصغیر پاک و ھند میں یہ انگریز سامراج تھا جس نے اپنے اقتدار کو دوام اور طوالت کیلئے منظم انداز میں علماء کا استعمال شروع کیا۔ اگر ہم پشتون بیلٹ کی بات کریں تو یہاں انگریزوں نے افغان حکمران امیر امان اللہ خان ، اصلاح پسند اور آزادی پسند مذہبی علماء اور بعد میں خدائی خدمتگار تحریک کے خلاف علماء کو استعمال کیا۔
لیکن پہلے علماء سوء یا مفاد پرست علماء کی نسبت حقیقی علماء کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی مگر قیام پاکستان کے بعد سرد جنگ اور خاص کرافغان جہاد کے دوران ریاست اور علماء کا تعلق مضبوط اور گہرا ہوگیا۔ پہلے پہل ریاست بڑے بڑے علماء اور روحانی شخصیات کو ریاستی بیانیوں کے فروغ اور اپنی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے اور حمایت کیلئے ان کی خدمات حاصل کرتی تھی۔
افغان جہاد کے دوران ریاست نے اپنا اثر و رسوخ عوامی سطح تک پھیلانے ، اپنی انتہاپسند اور عسکریت پسند پالیسیوں کو پروان چڑھانے اور اس کیلئے سازگار ماحول اور حمایت حاصل کرنے کیلئے درمیانے اور چھوٹے علماء کی خدمات بھی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جس سے مذہب کا عامیانہ اور بھونڈا استعمال شروع ہوا ۔ سادہ لوح عوام کو ورغلانے ، مخالفین کو فتووں سے ڈرانے، جہاد کیلئے سازگار ماحول بنانے اور اس کیلئے انسانی خاشاک مہیا کرنے کیلئے ھر چیز کو قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت کرنے کی دوڑ شروع ہوئی۔ اور وہ کونسا کام یا طریقہ نہیں تھا جس سے انہوں نے مذہب کی جگ ھنسائی اور بے توقیری نہیں کی۔
ریاست کی سرپرستی میں ملا گردی کے رحجان کو فروغ ملا ہے ۔ ملا گردی انتہاپسند، فرقہ پرست اور تنگ نظر علماء کی پیدا کردہ وہ کٹر مذہبی اور فتوے بازی کا ماحول ہے جس کی وجہ سے عام شہری مسلسل ایک خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ مبادا کوئی مولوی اس کے خلاف کچھ بول نہ دے یا اس پر فتویٰ نہ لگائے۔مُلا گردی کی وجہ سے اگر ایک طرف علماء سوء کی سماجی قوت اور ان کی بلیک میلنگ پوزیشن بڑھی ہے تو دوسری طرف اس سے معاشرے میں اختلاف نظر اور اظہار رائے کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ اس طرح مذہب خالصتا” علماء سوء کا ڈومین بن گیا ہے جس میں شہریوں کو کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہی۔
اب مذہبی انتشار اور فساد کو روکنے کا وقت آگیا ہے۔ مذہب کے نام پر جو تباہی اور بربادی ہوئی یا ہو رہی ہے اس کے پیش نظر اب سنجیدہ اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کچھ سخت فیصلے کرنے ہونگے ۔ انتہاپسندی ، فرقہ پرستی اور عسکریت پسندی کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہونگے تاکہ دنیا میں مذہب کو تنگ نظری اور تشدد سے پہچان اور شناخت کرنے کی رحجان کی حوصلہ شکنی ہو ۔
مدارس کے بہتر انتظام اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کیلئے مدارس کی رجسٹریشن کے عمل اور مالی اور انتظامی معاملات کو کنٹرول کرنا ہوگا اور مذہبی خطبات کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق کو لاگو کرنا ہوگا ۔ ملک میں وسیع فرقہ وارانہ تقسیم اور تشدد کے پیش نظر مذہبی رسائل ، جرائد اور مطبوعات کی اشاعت کیلئے بھی کوئی نظام وضع کرنا ہوگا تاکہ مذہب کے نام پر فساد پھیلانے کے رحجان کی حوصلہ شکنی ہو۔
اس طرح فتوی جاری کرنے کے نظام کو کسی مربوط مرکزی نظام کے تحت لانا ہوگا۔ اور ہر ایرے غیرے کو فتوے کی اجازت نہیں ہونی چائیے۔ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت اور روزمرہ کی معمولات میں خلل سے بچنے کیلئے ہر قسم کی مذہبی مجالس اور جلوسوں کو بھی کسی نظم اور ضبط کے تحت لانا ہوگا۔ ان کاموں کیلئے سیاسی قوت ارادی اور علماء کی بیجا خوشنودی کو خیرآباد کہنے کی ضرورت ہے جس کیلئے ریاست اور ریاستی ادارے ابھی تک تیار نہیں۔
♥