بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے برِکس کی سربراہی میٹنگ میں کہا ہے کہ اس اتحاد میں شامل رہنماؤں کو جنوبی ایشیا کے علاقے میں ’دہشت گردی کے گڑھ‘ کے خلاف متحد ہو جانا چاہیے۔ ان کا واضح اشارہ پاکستان کی طرف تھا۔
یہ بیان بھارتی وزیراعظم کی اس کوشش کا حصہ ہے، جس کے تحت ان کی حکومت پاکستان کو سفارتی طور پر دنیا میں تنہا کرنے میں مصروف ہے۔ تیزی سے ترقی کرنے والی پانچ معیشتوں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے رہنماؤں کے اس سربراہی اجلاس میں مودی نے پاکستان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کے ہمسائے میں ایک ایسا ملک ہے جس کے دنیا بھر میں پھیلے ’’ٹیرر ماڈیولز‘‘ یعنی دہشت گردی کرنے والوں سے رابطے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تیزی سے ترقی کرتی اقوام برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے کلب کو اس ملک کی شدید مذمت کرنی چاہیے۔
بھارتی شہر گوا میں ہونے والی برکس سربراہی کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران مودی کا کہنا تھا، ’’ہمارے علاقے میں، امن، سلامتی اور ترقی کے لیے دہشت گردی ایک شدید خطرہ ہے۔‘‘ پاکستان کا نام لیے بغیر مودی کا مزید کہنا تھا، ’’بدقسمتی سے دہشت گردی کا گڑھ بھارت کے ہمسائے میں ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے دہشت گردی کرنے والوں کے اس گڑھ کے ساتھ رابطے ہیں۔ اور ایک بار پھر ہمیں بطور برکس اس کے خلاف متحدہ ہو کر کھڑے ہونے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ برکس کو اس خطرے کے خلاف یک زبان ہو کر بولنا چاہیے۔‘‘۔
گزشتہ ماہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں اڑی کے مقام پر بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر عسکریت پسندوں کے حملے میں 19 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے خلاف تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ بھارت اس حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتا ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے اس کی تردید کی جاتی ہے۔
بھارتی زیرانتظام کشمیر میں رواں برس جولائی میں ایک دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین کے نوجوان کمانڈر برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے اس متنازعے خطے میں بھارتی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیری بھارت سے آزادی کا نعرہ بلند کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی فورسز کی کارروائیوں میں 80 سے زائد کشمیری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔
بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے پیلٹ گنز کے استعمال کی وجہ سے سینکڑوں کشمیری بینائی سے محروم یا معذور ہو چکے ہیں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ ان اقدامات کے باعث بھارت کو شدید دباؤ کا سامنا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس بات کے امکانات انتہائی کم ہیں کہ بھارت برکس کی طرف سے پاکستان کی مذمت کرانے میں کامیاب ہو سکے گا۔ اس کی وجہ چین کے پاکستان کے ساتھ مضبوط ہوتے ہوئے اقتصادی تعلقات اور روس کے دفاع کے میدان میں بڑھتا ہوا تعاون بھی ہے۔
چینی صدر شی جِن پِنگ نے برکس سربراہی کانفرنس کے آغاز سے قبل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران دہشت گردی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی تھی تاہم بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اور کہا کہ کہا ہے کہ کسی ایک ملک کو اس معاملے میں ذمہ داری نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
بیجنگ حکومت نے رواں برس بھارت کی طرف سے اس درخواست کا راستہ بھی روک دیا تھا جو اس نے ایک پاکستانی عسکریت پسند گروپ جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو اقوام متحدہ کی پابندیوں کے حوالے سے بلیک لِسٹ پر ڈلوالنے کے لیے جمع کرائی تھی۔ یہ نئی دہلی حکومت کے لیے مایوسی کا سبب بنا۔
♠