آصف جیلانی
اسرائیل کے سابق صدر ، شمون پریز کے انتقال پر پوری دنیا میں انہیں امن ساز قرار دے کر ان کی جے جے کار ہو رہی ہے اور ان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں۔ واہ واہ کے اس شور و غوغا میں ، مشرق وسطی کے امور کے ممتاز ماہر صحافی ، رابرٹ فسک نے دنیا کو للکاراہے ۔ برطانوی روزنامہ انڈیپینڈنٹ کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ جب دنیا نے یہ سنا کہ شمون پریز انتقال کر گئے تو دنیا نے، امن ساز کا شور مچایا ، لیکن جب میں نے سنا کہ شمون پریز چل بسے تو میرے ذہن میں ،خون، آگ اور قتل کے الفاظ گونج اٹھے۔
رابرٹ فسک نے 1996میں جنوبی لبنان کے گاؤں قانا کے قریب اقوام متحدہ کے کیمپ کے سانحہ کی رونگٹے کھڑے کردینے والے سانحہ کی یاد دلائی ہے ، جس پر اسرائیل کی اندھا دھند بمباری سے 106فلسطینی پناہ گزیں ہلاک ہو گئے تھے جن میں آدھے ننھے بچے تھے۔ اس بمباری کا حکم شمون پریز نے دیا تھا جو وزارت اعظمی کا انتخاب لڑ رہے تھے اور اپنے سینہ پر فوجی جیت کا تمغہ سجانے کے لئے انہوں نے لبنان پر حملے کا حکم دیا تھا۔
رابرٹ فسک کا کہنا ہے کہ پریز کو علم تھا کہ قانا کیمپ میں سینکڑوں فلسطینی پناہ گزیں ہیں اور اقوام متحدہ نے انہیں خبردار بھی کیا تھا، لیکن انہوں ے بعد میں جھوٹ بولا کہ انہیں اس کا علم نہیں تھا اور انہیں اتنی ہلاکتوں پر سخت تعجب ہوا۔ رابرٹ فسک نے لکھا ہے ،، جب میں کیمپ کے یو این گیٹس پر پہنچا تو وہاں خون ندی کی طرح بہہ رہا تھا۔ میں اس خون کی بو سونگھ سکتا تھا۔ خون سے ہمارے جوتے لت پت ہو گئے اور جوتوں پر خون، گوند کی مانند جم گیا۔ وہاں ٹانگیں اور ہاتھ کٹے پڑے تھے ۔ بچوں کی ،بے سر ،لاشیں پڑی ہوئی تھیں، سر کٹے ،بوڑھے لوگوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔ ایک شخص کی لاش ایک جلتے ہوئے درخت پر دوحصوں میں لٹکی ہوئی تھی ، اس کے جسم کا جو حصہ بچا تھا وہ آگ میں جل رہا تھا۔ بیرک کی سیڑھیوں پر ایک بچی ، سفید بالوں والے ایک سخص کی لاش کو چمٹائے بلک بلک کر رو رہی تھی ، دیوانہ واردھاڑیں مار رہی تھی اور بار بار چلا رہی تھی ،،میرے ابا ، میرے ابا،،۔
قانا کی اس ہلاکت و تباہی کا حکم دینے والے یہی شمون پریز تھے جنہیں ناروے کی نوبیل انعام دینے والی کمیٹی نے بڑے طمطراق سے امن کا انعام دیا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ یہی شمون پریز تھے جنہوں نے اپنی سفارت کاری سے 1956میں نہر سویز پر حملہ کے لئے ، اسرائیل کے ساتھ فرانس اور برطانیہ کو آمادہ کیا تھا اور ایک تباہ کن جنگ کا خطرہ پیدا کیا تھا۔ نوبیل انعام دینے والی کمیٹی یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ اسے اس کا قطعی علم نہیں تھا کہ یہی شمون پریز تھے جن کی سربراہی میں سن پچاس اور سن ساٹھ کے عشرہ میں اسرائیل نے نہایت خفیہ طور پر جوہری اسلحہ کی تیاری کا منصوبہ شروع کیا تھا۔ اگر اس کا علم نہیں تھا تو کمیٹی کو یقیناًاس کا علم تھا کہ اسرائیل کے وزیر دفاع کی حیثیت سے شمون پریز نے 1967کے جنگ کے بعد فلسطین کے علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز کیا تھا اور نعرہ لگایا تھا۔
Settlement Everywhere۔
مقصد اس کا پورے ارض فلسطین پر اسرائیل کا تسلط دائمی بنا دیا جائے۔
نوبیل امن انعام دینے والی کمیٹی کی سیاسی مصلحت اسی وقت بے نقاب ہوگئی تھے جب اس نے صدر اوبا ما کو اس وقت امن کو نوبیل انعام دیا تھا جب کہ انہیں انتخاب جیتے صرف چند مہینے ہوئے تھے اور دنیا میں امن کے قیام کے لئے ایک دمڑی کا کام نہیں کیا تھا۔بلکہ یہ تمغہ سینے پر سجا کر انہوں نے اپنے دور میں اب تک سات ملکوں پر بمباری کی اور ڈرون حملے کئے جن میں پاکستان، افغانستان، عراق، شام، صومالیہ لیبیا ، یمن اور شام شامل ہیں۔ ان حملوں میں 4700افراد ہلاک ہوئے ۔
نوبیل انعام کی کمیٹی سے گذارش ہے کہ شمون پریز ایسے جنگی جرائم کے مجرم کو اس نے امن کا انعام عطا کیا ہے تو پھر ہندوستان کے وزیر اعظم نریند ر مودی بھی اس کے انعام کے مستحق ہیں ، وہ بھی خونریزی کے لحاظ سے شمون پریز کے معیار پر پورے اترتے ہیں ، نریندر مودی کے ہاتھ گجرات میں اپنی وزارت اعظمی کے دور میں 2000مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ، اور آج کل ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں آزادی کی تحریک کو جس طرح فوج کی طاقت کے بل پر کچل رہے ہیں وہ نازی ہتھکنڈوں سے ملتے جلتے ہیں۔
گذشتہ دو ماہ کے دوران ، ایک سو سے زیادہ کشمیری ہندوستانی فوج کی فایرنگ سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ہندوستانی فوج نے نوجوانوں کو چھروں کا نشانہ بنانے کا وطیرہ اختیار کیا ہے اور انہیں دھڑ کے اوپر کے حصوں کو چھروں سے زخمی کرتے ہیں ۔ اب تک دس ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں ان میں سے ساڑھے چار ہزار نوجوان ہیں جن میں سے بیشتر آنکھ میں چھرے لگنے سے بینائی کھو چکے ہیں۔کٹر ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے تربیت یافتہ نریندر مودی آج کل پاکستان کے خلاف جنگ کا صور پھونک رہے ہیں۔
امریکا کی مفاد پرست حمایت کی وجہ سے نریندر مودی کا سینہ پھولا ہوا ہے اور انہوں نے اپنی اقتصادی قوت کے بل پر بنگلہ دیش ، بھوٹان اور افغانستان کو بھی پاکستان کے خلاف اپنے ساتھ ملا لیا ہے ۔ پھر مصلحت کے لحاظ سے بھی امن کے نوبیل انعام کے لئے نریندر مودی کا انتخاب بالکل صحیح رہے گا کہ آج کل پوری مغربی دنیا تجارتی مفادات اور اسلحہ کی فروخت کے امکانات کے پیش نظر ہندوستان پر نچھاور ہورہی ہے اور اس کی معیشت کے گن گا رہی ہے۔