منیر سامیؔ
گزشتہ ہفتہ ہم نے اس سال کے نوبل ادبی انعام کا یہ اعلان ایک مسرت انگیز حیرانی کے ساتھ سنا کہ اس بار یہ انعام دنیا کے معروف ترین نغمہ نگار ’بوب ڈیلن ؔ‘ Bob Dylan کو عطا کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں غالب کا یہ شعر یاد آیا کہ ’ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب۔۔ہم نے دشتِ امکاںکو ایک نقشِ پا پایا‘۔یہ غالب ؔ اور عظیم لفظ گر ہی تو ہیں جن کے لیئے دشتِ امکان صرف ایک جست ہوتا ہے اور وہ امکان کی حدوں کو لا متناہی بناتے رہتے ہیں۔
نوبلؔ کمیٹی نے انعام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’بوب ڈیلن ؔ‘کو ادب کا نوبل انعام ’نغمہ نگاری کی عظیم روایت میں شعری اظہار کی نئی طرز تخلیق کرنے کے اعتراف میں دیا گیا ہے‘۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کمیٹی کی سکریٹری نے بوب ڈیلنؔ کا موازنہ عظیم کلاسیکی شعرا ، ہومرؔ Homer اور سیفوؔ Sappho سے کیا جن کی شاعری نہ صرف پڑھی جاتی ہے بلکہ جن کی عظمت میں گائکی اور موسیقی کا امتزاج لازم ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ انگریزی شاعری کی اس عظیم روایت، جو بلیکؔBlakeاور ملٹنؔMilton سے اب تک کی مسلسل روایت ہے، سے ایک انوکھے اور انفرادی طور پر جڑا ہو اہے، اور اس کاتعلق اس روایت سے تحریر ی بھی ہے اور صوتی بھی۔ ڈیلن ؔ‘کی شاعری میں اعلیٰ ادب بھی شامل ہے اور ادنیٰ ادب بھی۔انہوں نے کہا کہ ہم آج ڈھائی ہزار سال کے بعد بھی ہومرؔ اور سیفو ؔ کو پڑھ اور سن کر ان کی عظمت کو کتاب کے صفحہ پر زندہ پاتے ہیں۔ اسی طرح ہم پر لازم ہے کہ ہم ڈیلنؔ کی شعری عظمت کو سُن کر بھی محسوس کریں اور پڑھ کر بھی۔
انعام کا اعلان کرتے وقت نوبل کمیٹی کی نظر میں بوب ڈیلنؔ کا، امریکہ کے عوامی نغموں کی روایت میں اعلیٰ ادب کے کنایوں، اساطیر، استعاروں، اور اصل ِ مکرر یا Archetypes کا فنی مہارت کے ساتھ استعمال ہے جو ہر شاعر کی تخلیق کو بڑا ادب بناتا ہے۔ عوامی نغموں میں ڈیلنؔ نے اعلیٰ شعری صفات اس طرح سموئی ہیں کہ ایک طرف تو با ذوق قاری انہیں محسوس کرتا ہے اور دوسری طرف یہ عوام کے ذہن کو بوجھل بھی نہیں کرتے۔ اس کے نغموں کی یہی شعری صفات تھیں، جن کی بنیا د پر اس کی شاعری کو ، 2006 میں ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے Oxford Book of American Poetry میں شامل کیا اور کیمبرج یونیورسٹی پریس نے 2009، میں The Cambridge Companion to Bob Dylanشائع کی۔
ڈیلن ؔ‘ؔ کے اعترف میں ملٹن اور بلیک کا حوالہ خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ ادب کی اہم رومانی تحریک کے یہ دوعظیم شاعر ، ادب اور سماج اور ادب اور احتجاج کے خصوصی علمبردار ہیں۔ یہ ان ہی کی روایت ہے جس نے اپنے بعد کے سارے آنے والوں کو انسان کی عظمت، آزادی، اور ظلم کے خلاف ترانے اور نغمے لکھنا سکھایا ہے۔ یہ بوب ڈیلن ؔ‘ کا اس روایت سے تعلق ہی ہے جس نے اس کی شاعری اور نغموں کو نہ صرف امریکہ بلکہ ساری دنیا کی انسانی حقوق کی جدو جہد اور احتجاجی تحریکوں کے ترانے بنا دیا تھا۔
اس حقیقت کا اعتراف خود امریکی صدر اوباماؔ نے اس عظیم فن کار کو امریکہ کا اعلیٰ ترین اعزاز میڈل آف فریڈم Medal of Freedomعطا کرتے وقت کیا تھا۔ گزشتہ پچاس سال سے اس کے نغمے، جن میں بڑی شاعری پوشیدہ ہے ، زباں زدِ عوام ہیں۔ جن میں ، Blowin in the Wind, The Times, they are a Changing,، اور Mr. Tambiorine Man جیسے نغمے شامل ہیں جن کی کئی بڑے نقادوں نے ادبی پرکھ اور جانچ کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔
یہاں اس کے اہم نغمے، Blowing in the Wind کی کچھ سطروں کا سادہ سا ترجمہ پیش کرنا ضروری ہے ، ’’ انسان کو انسان سمجھا جانے کے لیے ابھی کتنی مسافت طے کرنا ہے، سفید فاختہ کتنے سمندر عبور کرنے کے بعد ریت پر سکون سے سو پائے گی، ابھی توپوں سے کتنے گولے داغے جائیں گے کہ ان توپوں پر پابندی لگا دی جائے، میرے دوست، اس کا جواب ہوا میں رقصاں ہے۔۔۔۔۔۔ انسان کب تک اوپر تکتا رہے گا کہ اسے آسمان دکھائی دے سکے، انسان کو کتنے کانوں کی ضرورت ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی آہ و بکا سن پائے، ابھی اور کتنی اموات ہونا باقی ہیں کہ انسان سمجھ پائے کہ بہت انسان مر گئے ہیں۔ اس کا جواب میرے دوست ہوا میں رقصاں ہے۔۔۔۔ پہاڑ کتنے سال تک باقی رہ سکیں گے، قبل اس کے کہ وہ سمندروں میں بہہ جایئں، اور انسان کتنی مدت تک اپنا وجود قائم رکھ پائے گا کہ اسے مکمل آزادی نصیب ہو سکے، اور انسان کب تک اپنا منہ موڑتے رہیں گے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ انہیں کچھ خبر نہیں ہے، اس کا جواب میرے دوست ہوا میں رقصاں ہے۔ اس کا جواب ہو ا میں رقصاں ہے۔
اسی طرح اس کے نغمہ Times are a changing کی یہ سطریں نہ صرف ادیبوں اور شاعروں کی توجہ مانگتی ہیں ، بلکہ انہیں انسانی جدو جہد میں شرکت کے لیے پکارتی ہیں:
’اپنے قلم سے پیغمبری کرنے والے شاعرو، اور نقادو،آنکھیں کھولو اور آو، یہ موقع پھر نہیں آئے گا، اور ذرا سوچ کے بولو، وقت کا پہیہ گردش میں ہے اور جانے کس ہارنے والے کا نام مستقبل کے فتح مندوں میں لکھ دے۔ وقت بدل رہا ہے۔۔۔۔ کانگریس والو،!سینیٹرو! وقت کی آواز سنو، دروازوں پہ کھڑے ہو کر عوام کا راستہ مت روکو۔جو راستہ روکے گا وہ خود زخمی ہوجائے گا، کیونکہ باہر ایک جنگ جاری ہے، اور یہ جلد ہی تمہاری کھڑکیاں کھڑ کھرائے گی اور تمہارے دروازے اکھاڑ دے گی۔ وقت بدل رہا ہے۔‘
بوب ڈیلن ؔ‘ ؔ کو نوبل ملتے ہی عصرِ حاضر کے ایک اہم ادیب سلمان رشدیؔ نے اس اعلان کی پذیرائی کرتے ہوئے جن الفاظ میں ایک ٹوئٹ جاری کی وہ غور طلب ہیں، ’’اورفیَس، Orpheus سے فیضؔ تک ، شعر و نغمہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ ڈیلنؔ اس شعری روایت کا درخشاں وارث ہے۔ بہترین انتخاب!‘۔ رشدیؔ نے یہ بھی کہا کہ ، ’ادب کی کائنات مسلسل پھیلتی رہتی ہے۔ اور یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ نوبل کمیٹی اس کا اعتراف کر رہی ہے۔‘‘ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ Orpheus کو مغربی کلاسیکی ادب اور اسطورہ میں ایک بڑا شاعر بلکہ شعر و نغمہ کا پیغمبر مانا جاتا ہے۔ روایت کے مطابق اسے ان بے بہرہ لوگوں نے قتل کر دیا تھا جو اس کے نغمے سننے سے قاصر تھے۔ قدیم زمانے سے اب تک اس کی اسطورہ کسی اصلِ مکرر کی طرح آج بھی شاعری، مصوری، اور نغمہ نگاری پر رقصاں رہتی ہے۔ رشدی ؔ نے ڈیلنؔ کو اسی پیغمبرانہ روایت کا امین قرار دیا ہے۔
عصرِ حاضر میں مغربی ادب کے دو اہم نقاد ، نورتھروپ فرائیؔ ، اور مارشل مکلوہن ؔ، ہیں۔ مکلوہن ؔ کو ابلاغِ عامہ کا پیغمبر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا انتقا ل ڈیلن ؔ‘ؔ کو نوبل انعام ملنے سے چھتیس سال قبل ہوا تھا۔ وہ ایک بار ہزاروں لوگو ں کے مجمع میں بوب ڈیلن ؔ‘ کو سننے گیا۔ اس دن اس نے ایک اور اہم شاعر، مائکل مکلیورؔ سے کہا کہ وہ اس صبح شاعری کے اہم درس کے طور پر اپنے شاگردوں کو ڈیلنؔ کے نغمے سنوا کر آیا ہے۔ کسی شاعر اور نغمہ نگار کی اہمیت کااس سے بڑا اعتراف کوئی نقاد اور کیا کرے گا۔
اب سے چند سال پہلے کینیڈا کی ایک اہم جامعہ کے پروفیسر بی۔ڈبلیو۔ پو B W Powe نے نوتھروپ فرائیؔ اور مارشل مکلوہان ؔ پر اپنی اہم کتاب Apocalypse and Alchemy میں فرائی’ کی بیان کردہ چار اہم شعری صفات کا ذکر کیا ہے جو شعر کو بلند و بالا کرکے حرف کو تقدیس عطا کرتی ہیں۔ ان کی مثال کے طور پر اس نے ڈیلن ؔ‘ ؔ کے اہم نغمہ یا نظم ، Like a Rolling Stone کو پیش کیا، اور فوراً ہی ان صفات کی مزید مثال کے لیے اس نے ولیم بلیک ؔ کی اہم سطریں پیش کیں جو یوں ہیں۔
To see the world in a grain of sand, And Heaven in Wild Flower ۔۔ کیا ان سطروں کو پڑتے ہیں آپ کے ذہن میں غالب ؔ کا شعر کہ ۔’’ قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل۔۔۔کھیل لڑکوں کا ہوا ، دیدہ ء بینا نہ ہوا‘‘ ارتعاش نہیں کرے گا۔ بڑی شاعری کو پہچاننے کے لیے یہی دیدہء بینا چاہیئے۔
بو ب ڈیلن ؔ‘ ؔ کو اب سے پہلے بھی کئی بڑے اور اہم ایوارڈ اور اعزاز مل چکے ہیں، لیکن اس نے ہمیشہ ان سے اور انعامی تقریبات سے بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ شاید ان چند ادیبوں اور فن کاروں میں سے ہے جنہیں ان ایوارڈ وں سے زیادہ عظمتِ فن کی فکر رہتی ہے۔ اسی طرح وہ بڑی تقریبوں میں تصویر کشی سے بھی دور رہتا ہے۔ اب سے چند سال پہلے اسے امریکی صدر کی ایک تقریب میں شرکت کے لیئے بلایا گیا ، اور وہ وہاں جانے سے گریزاں رہا لیکن جب گیا تو اپنا گیت سنا کر صدر اوباماؔ سے ہاتھ ملا کر بغیر کسی تصویر میں شرکت کیے یا صدر کے ساتھ تصویر کی خواہش کیے وہاں سے چلا گیا۔
صدر اوباماؔ نے اس کاخصوصی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ میرا پسندید شاعر اور نغمہ نگار ہے لیکن کوئی اسے بدل نہیں سکتا۔ اعزازوں کے بارے میں خود اس کا کہنا ہے کہ ان کی چمک چند روزہ ہوتی ہے، اور میں اپنے کام میں مصروف ہوں۔
اپنے نوبل انعام کے اعلان کے کئی دن بعد تک بھی بوب ڈیلن ؔ‘ ؔ نے کسی ردِّ عمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ خود نوبل کمیٹی کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم نہیں کہ وہ انعامی تقریب میں شریک بھی ہوگا کہ نہیں ۔ شاید غالب ؔ نے اسی کے لیے کہا تھا کہ، ’نہ ستائش کی تمنا ، نہ صلے کی پروا‘۔۔۔۔
ہر بڑا شاعر، فن کار ، اور ادیب ، اپنے سے پہلے کے بڑے ادب اور فن سے اثر قبول کرتا ہے۔ ڈیلن ؔ اپنے لڑکپن ہی سے کلاسیکی ادب، فلسفے، شاعری ، اور سماجیات کا گہرا مطالعہ کرتا رہا ہے۔ اس نے اپنے فن پر اور اپنی نشو و نما میں جن بڑے لوگوں کا اثر قبول کیا ہے اور اس اثر کا اعتراف کیا ہے، ان میں ٹالسٹائیؔ، آرتھر رمبوؔ، وُڈی گتھریؔ، ایلن گِنز برگ’ؔ، جَیک کِروآکؔ، کارل وَون کلازوِٹزؔ، جُولز وـرنزؔ، اورایچ جی ویلزؔ شامل ہیں۔
ڈیلن ؔ کو نوبل انعام ملنے کے بعد مجھے ہندو پاک کے نامور مصور شاہد رسامؔ سے گفتگو کا موقع ملا۔ وہ نہ صرف برِّ صغیر بلکہ عالمی شعری، مصور، اور ادب کی روایت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے میری توجہ اب سے تقریباً سو سال پہلے ٹیگور ؔ کے نوبل انعام کی طرف دلائی جو بنیادی طور پر اس کے نغموں میں پنہاں شعری صفات ، کیفیات، اور روایت کااعتراف تھا۔ اس ضمن میں میری نظر سے ایک بنگالی ناول نگار اور موسیقار ، سودِپتو داس کا ایک مضمون گزرا، جس میں وہ ٹیگورؔ کو حوالہ دیتے ہوئے یہ لکھتا ہے کہ، ”اب سے سو سال قبل ٹیگور کو نوبل انعام اس کے مجموعہ‘ گیتانجلی ‘ پر دیا گیا تھا جس کے معنی ‘نغموں کا نذرانہ ‘ ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ بہت سے نقادوں کا اس کا علم نہ ہو لیکن جو لوگ ٹیگور کو سنجیدگی سے پڑھنے والے ہیں، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ گیتانجلی کی ہر نظم ایک نغمہ کے طور پر لکھی گئی تھی۔ رابندرا سنگیت یا ٹیگور کے نغمے ، بنگالی موسیقی کی قیمتی اور گہری روایت کا جزوِلا ینفک ہیں، اور اس کے نغموں کے بول بنگالیوں میں بڑی قدر سے دیکھے جاتے ہیں، ٹیگور کی اس شاعری ہی کی طرح جو نغموں کے طور پر نہیں لکھی گئی تھی۔ ہم میں سے کئی لوگ ٹیگور کے نغموں کو اس کی نظموں سے بہتر گردانتے ہیں۔ اُس کی بہترین تخلیقات نغموں کی صورت میں لکھی گئی ہیں۔”
گو بوب ڈیلن ؔ‘ ؔ ایک نغمہ نگار اور موسیقار کی حیثیت سے معروف ہے ، لیکن گزشتہ دسیوں سال سے اس کی شعری عظمت کا اعتراف بڑے ادبی نقاد اور شاعر خود کرتے رہے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ بوب ڈیلن ؔ‘ؔکو ادب کا نوبل انعام کیوں دیا گیا بلکہ سوال یہ ہے کہ اس کی شعری عظمت کا اعتراف کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی۔
اگر آپ بوب ڈیلن ؔ‘سے مزید آگاہی چاہیں تو اس کی آپ بیتی، Chronicles سے ضرور استفاہ کریں۔ اور جو ادب دوست ، بوب ڈیلن ؔ کی شعری عظمت کو سمجھنا چاہیں، وہ کم از کم مائکل مکلیور ؔ Michael McClure کا اہم مضمون ، The Poet’s Poet ضرور پڑھ لیں جو اس نے سنہ 1974 میں Rolling Stone کے لیے لکھا تھا۔
One Comment