کوئٹہ کی سوگوار ہزارہ کمیونٹی میں بدھ کو اُس وقت خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی جب انہوں نے صبح کے اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ منگل کو چار شیعہ خواتین کی ہلاکت کی ذمہ داری لشکرِ جھنگوی العالمی نے قبول کر لی ہے۔
لشکر جھنگوی العالمی کی طرف سے کوئٹہ میں چار خواتین کی قتل کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ایک بار پھر سامنے آگئی ہے۔ کوئٹہ میں پچھلے کئی سالوں سے ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے مگر قانون نافذ کرنے والے ادارےدہشت گردی مذہبی تنظیموں کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے میں ناکا م ہو چکے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس تنظیم کے داعش سے قریبی رابطے ہیں۔ فرقہ پرست تنظیم نے اس حوالے سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس حملے کو شام کے علاقے حلب میں سنیوں کے قتل کا ردِ عمل قرار دیا گیا۔ تنظیم کے ترجمان علی بن سفیان نے دعویٰ کیا کہ سنیوں کے اس قتلِ عام میں پاکستان کی شیعہ تنظیمیں بھی ملوث ہیں۔
علی بن سفیان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ میں نہ صرف اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے بلکہ اس میں ایسے کئی پاکستانی شیعہ شہریوں کی تصویریں بھی اَپ لوڈ کی گئی ہیں، جنہیں اس تنظیم نے راولپنڈی، ڈیرہ غازی خان، شکار پور، کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں میں ہد ف بنایا۔ اس کے علاوہ اس ٹوئٹر صفحے پر بلوچستان میں متعین اُن ایف سی اہلکاروں کی بھی تصویریں اَپ لوڈ کی گئی ہیں، جن کے حوالے سے تنظیم کا دعویٰ ہے کہ انہیں لشکرِ جھنگوی العالمی کے مختلف بریگیڈز نے ہدف بنایا۔
ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما بوستان کشتمند نے اِس دعوے کے حوالے سے کہا، ’’ہزارہ افراد کا شام کی لڑائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے قبیلے کے افراد وہاں لڑنے کے لیے گئے۔ خواتین پر حملے نے یہ ثابت کیا کہ دہشت گرد پشتون، بلوچ اور ہزارہ روایات کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ ان روایات میں چادر اور چار دیواری کا تحفظ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس واقعے نے پوری کمیونٹی کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور انہوں نے اپنی سرگرمیاں مزید محدود کر دی ہیں۔
کوئٹہ کے معروف صحافی صبا الدین صبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اِس واقعے پر کوئٹہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور اِس بات پر لوگ خوفزدہ بھیہیں کہ اِس کی ذمہ داری لشکر جھنگوی العالمی نے لی ہے، جس کے داعش کے ساتھ بڑے قریبی تعلقات بتائے جاتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان کے باوجود فرقہ پرست تنظیمیں کوئٹہ اور مستونگ سمیت بلوچستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی سرگرم ہیں۔
لوگوں کا تاثر یہ ہے کہ انہیں کسی کی سر پرستی حاصل ہے۔ کچھ بلوچ رہنماؤں نے تو یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ داعش سے قربت رکھنے والی فرقہ پرست تنظیمیں باقاعدہ آواران اور مکران کے کچھ علاقوں میں عسکری تربیت حاصل کر رہی ہیں اور اُن کے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ مسلح تصادم بھی ہوئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان فرقہ پرست تنظیموں کے کارکن بھی بلوچ ہیں، جو ہزارہ کے شیعوں کو ہدف بناتے ہیں۔ تو ایسا لگتا ہے کہ ہزارہ قبیلے اور بلوچوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کی جا رہی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’یہ ممکن ہے کہ سنی فرقہ پرست تنظیموں کے لوگ شام لڑنے کے لیے گئے ہوں کیونکہ لشکرِ جھنگوی کے ساتھ العالمی اسی لیے لگایا جاتا ہے کہ اُن کے بین الاقوامی رابطے ہیں لیکن میرے خیال میں ہزارہ کمیونٹی کے افراد لڑنے کے لیے شام نہیں گئے‘‘۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن نے کہا، ’’یہ صرف ہزارہ شیعہ یا سنیوں کا معاملہ نہیں، یہ ایران اور سعودی عرب کی پراکسی لڑائی ہے، جو بحرین، یمن، پاکستان اور شام سمیت کئی علاقوں میں لڑی جا رہی ہے۔ شام میں شیعوں کے مقدس مقامات کو ہدف بنایا گیا، جس کی وجہ سے شیعہ کمیونٹی پوری دنیا میں چراغ پا ہے۔
پاکستان کے شیعوں کی بھی اِن مقامات سے جذباتی وابستگی ہے، تو وہ وہاں ان مقامات کی حفاظت کے لیے گئے۔ اِسی طرح یہاں کی سنی فرقہ پرست جماعتوں نے بھی اپنے لوگ وہاں بھیجے کیونکہ وہ اس مسئلے پر سعودی عرب کی حمایت کرتے ہیں۔ ان جماعتوں نے پاکستان میں شام کی حکومت کے خلاف مظاہرے بھی کیے‘‘۔
انہوں نے کہا:’’یہ لڑائی صرف جنگ کے میدانوں میں ہی نہیں لڑی جا رہی ہے بلکہ آپ فیس بک، ٹوئٹر اور بلاگز دیکھیں تو اس میں بھی آپ کو ہزاروں چیزیں شامی حکومت کے حق میں اور ہزاروں اس کے خلاف نظر آئیں گی۔ تو یہ لڑائی پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی جاری ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی افغان پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔ حقانی نیٹ ورک اور دوسری تنظیموں کی حمایت ترک کرے ۔ کابل اور چین کی مدد سے خطے میں داعش اور دوسری عسکری تنظیموں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ چین نے کابل سے اچھے تعلقات بنائے ہوئے ہیں، تو پھر ہمیں اچھے تعلقات بنانے میں کیوں پریشانی ہے‘‘ ۔
DW/News desk
One Comment