قاضی آصف
“معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان منصور(حلاج) کی سزا دہی میں بالکل حق بجانب تھے۔“
یہ الفاظ کسی اور کے نہیں، علامہ محمد اقبال کے ہیں جو انہوں نے 17مئی 1919 کوحافظ محمد افضل جیراجپوری کو لکھے گئے ایک خط میں تحریر کئے تھے۔
میں اکثر سوچتا رہتا تھا کہ جب پنجاب کے پاس بابا بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، خواجہ فرید جیسے باکمال شاعروں کی پرزور، طاقتور آواز
موجود تھی تو پھر پنجاب مذہبی انتہا پسندی کے ہتھے کیسے چڑھ گیا؟
یہ سوال میں نے پنجاب کے کئی دانشوروں اور ادیبوں سے پوچھا، جو جواب آتے تھے وہ اتنے غلط بھی نہیں ہوتے تھے۔ لیکن میں ذاتی طور پر سمجھتاتھا کہ ان شعراء کا عوام سے رابطے کا واحد ذریعہ ان کی اپنی زبان پنجابی تھا، جو یہاں کے عوام کی زبان تھی۔ اس زبان کو پنجاب سے چھین کر،ان عظیم شعراء کی آوازوں کی ہڈیاں توڑنے کی سعی ہوئی۔ پنجاب کی نئی نسلوں کوان شعراء سے بیگانہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
لیکن گذشتہ دنوں مجھے “انتخاب مکاتیب” پڑھنے کا موقع ملا۔ سر سید، شبلی اور علامہ اقبال کے خطوط پر مبنی یہ کتاب اسلامیہ کالج چنیوٹ کے اس وقت کے پرنسپل شیخ عطاء اللہ نے 1958ء میں ترتیب دے کر شائع کرائی تھی۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع نہیں ہوا۔ یہ کتاب پڑھ کرمیرا ذہن میرے سوال کے حوالے سے مزید واضح ہوا کہ پنجاب اس صورتحال سے دوچار کیوں ہے؟ کیا ہمیں پنجاب اور یہ خطہ اسی صورت میں چاہیئے تھا جواس وقت موجود ہے؟؟
علامہ اقبال کے مختلف اکابرین کو لکھے ہوئے خطوط میں جو کچھ وہ فرماتے ہیں، حیران کرنے کیلئے کافی ہے۔ اس بات کا جواب کافی حد تک مل گیا کہ پنجاب ایسا کیوں ہے؟ اور پورا پاکستان جس حال میں ہے، اس کے اسباب کیا ہیں؟
علامہ اقبال صاحب اسی خط میں فرماتے ہیں “جب تصوف فلسفہ بننے کی کوشش کرتا ہے اور عجمی اثرات کی وجہ سے نظام عالم کے حقائق اور باری تعالیٰ کی ذات کے متعلق موشگافیاں کرکے کشفی نظریہ پیش کرتا ہے تو میری روح اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے“۔
لسان العصراکبر الہ آبادی کو 6اکتوبر1911ء میں لکھے گئے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں کہ ” پنجاب میں علماء کا پیدا ہونا بند ہوگیا ہے اور اگرخدا تعالیٰ نے کوئی خاص مدد نہ کی تو آئندہ بیس سال نہایت خطرناک نظر آتے ہیں۔صوفیاء کی دوکانیں ہیں، مگر وہاں سیرت اسلامی کی متاع نہیں بکتی“۔
اسی خط میں آگے چل کرعلامہ صاحب لکھتے ہیں “کئی صدیوں سے علماء اور صوفیاء میں طاقت کے لئے جنگ رہی ہے۔جس میں آخرکارصوفیا غالب آ گئے۔یہاں تک کہ اب برائے نام علماء جو باقی ہیں وہ بھی جب تک کسی نہ کسی خانوادے میں بعیت نہ لیتے ہوں، ھردلعزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ روش گویا علماء کی طرف سے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مجدد الف ثانی، عالمگیر اور مولانا اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہم نے اسلامی سیرت کے احیا کی کوشش کی۔ مگر صوفیا کی کثرت اور صدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا“۔
غور کریں، علامہ اقبال عالمگیر کے معترف نظر آتے ہیں۔ پنجاب میں صوفیوں کی انسان دوست معاشرے کو توڑنا ضروری کیوں تھا؟ صوفیوں کی “دوکانوں ” پر خون کب بکا تھا، کسی سے بھی نفرت کب موجود تھی؟علامہ اقبال صاحب کیا چاہتے تھے؟ وہ اس خط کی تحریر سے واضح ہے، تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس صورتحال کومزید بہتر سمجھنے کیلئے بابائے اردو مولوی عبدالحق کو لکھے گئے ان کے ایک خط پر نظر ڈالتے ہیں جو 27ستمبر1936ء کو تحریر کیا گیا۔علامہ صاحب فرماتے ہیں؛
۔” مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لئے جو لڑائیاں آئندہ لڑنا پڑینگی ان کا میدان پنجاب ہوگا۔پنجابیوں کواس میں بڑی دقتیں پیش آئیں گی۔کیونکہ اسلامی زمانہ میں یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیں کی گئی۔ مگراس کا کیا اعلاج کہ آئندہ رزمگاہ یہی سرزمین معلوم ہوتی ہے“۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال صاحب وہ کونسی تربیت چاہتے تھے جو ان کے مطابق پنجاب کے لوگوں کی اسلامی زمانے میں بھی نہ ہوپائی؟ پنجاب کے علماء میں شدت پسندی تو پہلے ہی موجود تھی جس سے بابا بلھے شاہ، مادھو لال حسین شاہ اور دیگرصوفی شعراء لڑتے آئے تھے۔ حد یہ تھی کہ علماء نے اس وقت بابا بلھے شاہ کی نمازجنازہ تک پڑھانے سے انکار کردیا تھا۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا صدیوں کے بعد سلمان تاثیرکی میت کو بھی کرنا پڑا۔ علامہ اقبال کو منصور حلاج کو سزا دیا جانا درست لگتا ہے تو شاید بابا بلھے شاہ کی نمازجنازہ نہ پڑھنے کا فیصلہ بھی درست معلوم ہوگا۔ کیونکہ بابا بلھے شاہ کا فلسفہ تو وہ نہیں تھا جو علامہ اقبال کا تھا۔ وہ تومنصورحلاج کے فلسفے کے پیروکار تھے۔
اسی خط میں پنجاب کی نفسیات کے بارے میں علامہ اقبال لکھتے ہیں “یہاں کے لوگوں میں اثرقبول کرنے کا مادہ زیادہ ہے۔ سادہ دل صحرائیوں کی طرح ان میں ہر قسم کی باتیں سننے اور ان سے متاثرہوکران پر عمل کرنے کی صلاحیت، اورمقامات سے بڑھ کر ہے۔ ایک معمولی جلسے کیلئے آٹھ دس ہزار مسلمانوں کا جمع ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ بیس بیس ہزار کا مجمع بھی غیرمعمولی نہیں۔ یہ بات پنجاب کے ہندووں میں بھی نہیں پائی جاتی“
ان ہی دنوں صاحب زادہ آفتاب احمد خاں کو لکھے ہوئے خط میں علامہ اقبال رقم طراز ہیں “ہمارا پہلا مقصد جس کی بابت ہم دونوں متفق ہیں، موزوں صفات کے علماء پیدا کرنا ہے جو ملت کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرسکیں،،،،،،،،،آج ضرورت ہے کہ دماغی اور ذہنی کاوش کی ایک نئی وادی کی طرف مہمیزکیا جائے اور ایک نئی دینیات اور علم و کلام کی تعمیرو تشکیل میں اس کو برسرکار لایا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام انہیں لوگوں کے ہاتھ انجام پا سکتا ہے جن میں اس کام کی صلاحیت ہے مگرایسے آدمی کس طور پر پیدا کئے جائیں؟،،،،،،،،،دیوبند اور لکھنو کے بہترین مواد کو برسرکار لانے کی کوئی سبیل نکالی جائے۔“
علامہ اقبال صاحب کو علماء کا اثر رسوخ فقط پنجاب میں کم ہونے پر رنج نہیں بلکہ وہ افغانستان میں بھی علماء کے اختیارات کم ہونے پرفکرمند ہیں۔ اسی خط میں لکھتے ہیں “قدیم اور جدید اصولات تعلیم کے مابین اور روحانی آزادی اور معبدی اقتدار کے مابین دنیائے اسلام میں ایک کشاکش شروع ہو گئی ہے “یہ روح انسانیت کی تحریک” افغانستان جیسے ملک پربھی اثر ڈال رہی ہے۔ آپ نے امیر افغانستان کی وہ تقریرپڑھی ہوگی۔ جس میں انہوں نے علماء کے اختیارات کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی ہے“۔
علامہ اقبال صاحب علماء کے لامحدود اختیارات کے حامی تھے شاید جو صورتحال اس وقت پاکستان میں عملی طور پر موجود ہے۔
28 مئی 1931 کو راغب احسن صاحب کو لکھے گئے خط میں کہتے ہیں “مدت ہوئی میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک سیاہ پوش فوج عربی گھوڑوں پرسوار ہے۔مجھے تفہیم ہوئی کہ یہ ملائکہ ہیں۔ میرے نزدیک اس کی تعبیریہ ہے کہ ممالک اسلامیہ میں کوئی جدید تحریک پیدا ہونے والی ہے۔عربی گھوڑوں سے مراد، روح اسلامیت ہے“
ان خطوط کو پڑھنے کے بعد اس کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ بنیاد پرستی، مذہبی شدت پسندی کی بنیادیں کس طرح ڈالی گئیں۔ مضمون کے طویل ہونے کے خوف کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید خطوط اور علامہ کے خیالات کو یہاں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کیلئے ایک اور مضمون کی ضرورت ہے۔
بابا بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین کے ہاتھوں سے پنجاب واپس لے کراسے کیا بنا دیا گیا، یہ اب کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ریاست کا بیانیہ تھا ہی یہی جس پر اب گامزن ہے۔ اس کا قصور وار کس کو ٹھہرایا جائے کہ ریاست کا بیانیہ عالمی ضروریات پر مبنی نہیں۔ اس ریاست کے بیانیئے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے حقائق کو جاننا ضروری ہے۔ اس ریاست کا بیانیہ کبھی ترقی پسند، مجموعی انسان دوست، سائنسی بنیادوں مبنی تھا ہی نہیں۔ اگر کوئی بیانیہ تھا تو یہ ہی تھا جو کچھ مختصر آپ کے سامنے رکھا۔
1977ء تک جو صورتحال تھی وہ برطانوی حکومت اور سوچ کا اثر تھا جس کہ وجہ سے ہمیں اس وقت کا پاکستان ترقی پسند، عالمی حالتوں سے مطابقت رکھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ جیسے ہی وہ اثرات ختم ہوئے، یا کئے گئے، جو “ہم” چاہتے تھے وہ ہی ہوا۔ اس کیلئے کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مجھے معاف فرمایئے اگر میں یہ لکھوں کہ اس صورتحال کی وجہ سے پنجاب میں ممتاز قادری پیدا ہوتے اور سلمان تاثیرشہید ہوتے رہیں گے۔ اب پورا پاکستان ایسی صورتحال کی لپیٹ میں آ چکا ہے
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق ہم فلسفی پیدا نہیں کرپائے اس لیئے شعراء کو فلسفی بناکر تسکین پائی۔
حل یہ ہے کہ ان تمام تلخ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے، ریاست کے بیانیئے کی نئی راہ متعین کرنی ہوگی۔ فقط غیر ریاستی عسکریت پسند پیدا کرنے ان کو تحفظ دینے یا سریل املڈا پر پابندی لگانے سے مسائل حل نہیں ہوگے۔
♦
Pingback: جان بخشی جائے، میں عرض کروں-2 – Niazamana